دائرے کا سفر ۔۔محمد وقاص رشید

دائرے کا سفر ۔۔محمد وقاص رشید/کل بال کٹوانے کے لیے میں حجام کی دکان پر گیا تو میرا نمبر آنے میں ابھی دیر تھی،مجھ سے پہلے بنچ پر دو باریاں تھیں،ایک بزرگ سے آدمی شیو بنوا رہے تھے ،میں موبائل پر کچھ لکھنے میں مصروف ہو گیا ۔ جب بزرگ آدمی نے  شیو بنوا لی تو اچانک حجام سے کہنے لگے کہ مجھے بوڑھا سمجھ کر کہیں تم نےجان تو نہیں چھڑائی ؟ ۔حجام نے جواب دیا، آپ کے سامنے ہے، اگر شیو میں کوئی ہے تو بتائیں ۔ انہوں نے ہنستے ہوئے سیٹ چھوڑی اور کہا ،میں  نے بس تمہیں یاد دلانا تھا کہ مجھے بوڑھا نہ سمجھنا کیونکہ میں خود کو بوڑھا نہیں سمجھتا ۔اسی کے ساتھ انہوں نے اپنی کھونٹی اٹھائی اور بال جھاڑتے ہوئے میرے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔  میں جو ان کی باتیں غور سے سن رہا تھا، میں نے کہا آپ کی بات سن کر بڑا مزہ  آیا، وہ پنحابی میں کہتے ہیں ناں
“دل ہونڑاں چاہیدا  جوان تے عمراں اچ کی رکھیا ”

بڑے خوش ہوئے اور کہنے لگے۔۔  ہاں۔۔۔ توں مینڈی گال سمجھ گدی اے (ہاں تم نے میری بات صحیح سمجھی ہے) ۔وہ پھر میرے پاس ہی بیٹھ گئے اور انکو تو جیسے کسی نے “سٹارٹ” کر دیا ہو۔ آنکھوں میں زندگی کی چمک لیے ( میانوالی والی سرائیکی میں)کہنے لگے کہ یہ 70 کی دہائی کی بات ہے،میں یہاں جاپانیوں کے ساتھ کام کرتا تھا،اس وقت یہاں پر پینسلین فیکٹری کا راج تھا ، یہ جو تم سیمنٹ کی کمائی کھاتے ہو، اسے پینسلین کا خراج سمجھو، صرف امونیم سلفیٹ کی فیکٹری تھی، یہ جسے تم اسکندر آباد شہر کی صورت دیکھتے ہو، یہ ان آنکھوں کے سامنے آباد ہوا ہے، یہاں بیریوں کے درخت ہوتے تھے جن کی  مٹھاس آج بھی مجھے یاد ہے،جن کے کانٹے انگلیوں کی پوروں میں گھس جاتے تھے ۔ یاد رکھو، زندگی میں کوئی میٹھا پھل جستجو کے کانٹے چبھے بغیر نہیں ملتا،یہاں کسی دور میں موتیے کے پودے بھی ہوتے تھے، صبح سویرے ہم جاپانیوں کے ساتھ یہاں سائیٹ پر آتے تھے، تو ایک جاپانی کو یہ  خوشبو بہت پسند تھی ۔ وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہتا تھا۔۔۔ Flower take Mr۔ Niazi میں اسکے لیے پھول توڑ کر لاتا تھا ۔ یہ بات کرتے ہوئے بزرگوار کی آنکھوں میں آئے عمر کی ڈالی پر لگنے والے موتیے کے پھول ہلکے ہلکے نم ہونے لگے۔ یادوں کے بادل بھی کیا چیز ہوتے ہیں ۔ دل کی دھرتی پر ہونے والی جل تھل آنکھوں میں سرائیت کر جاتی ہے۔ میرا انہماک انکے لیے یادوں کی پٹاری کھول دینے کا دعوت نامہ تھا۔  یوں لگتا تھا جیسے ان کو کسی سامع کی ہی ضرورت تھی،اکثر اس عمر میں یادیں صداؤں کی بازگشت میں ڈھلنا چاہتی ہیں، کوئی سامع نہیں ملتا، اسی عمر کی طرف بڑھنے والوں کے پاس وقت نہیں ہوتا  اور حیرت کی بات کہ وہ بھی یہی یادیں جمع کرنے میں مصروف ہوتے ہیں، انہیں بھی ایک دن کسی سامع کی تلاش ہونی ہے ۔ گھر میں کوئی اپنا نہ سہی تو کسی حجام کی دکان پر اپنائیت سے سننے والا کوئی اجنبی ہی سہی ۔ زندگی واقعی ایک دائرے کا سفر ہے۔  آپ کسی بچے کی بات کی طرف توجہ دیں تو وہ اپنی باتوں کو طول دینے لگتا ہے ۔ یہی حال تنہائیوں سے لڑتے بزرگوں کا ہوتا ہے ۔ کوئی سننے والا ہو تو ایک ہی نشست میں زندگی کو لفظوں میں ڈھال دیں،اپنے ماضی کو مجسمِ صدا کر ڈالیں۔

بزرگ کہنے لگے ۔ اس جاپانی کو گھومنے پھرنے اور کھانے پینے کا بہت شوق تھا۔ ہم ہر جمعہ کو کیمپ شیمپ اور باقی سارا سامان چولہا وغیرہ ساتھ لے کر نکلتے تھے اس سارے علاقے کو چھان مارتے جو جگہ اچھی لگتی وہاں مرغی ،مچھلی اور بکرا وغیرہ بھونتے اور مزے لے کر کھاتے تھے۔  شام کو تھک ہار کر واپس آ جاتے تھے۔  زندگی بھی اسی چیز کا نام ہے سارا دن حیات کا میلہ دیکھ کر وقت کی شام پڑنے پر انسان جیون بھر کی تھکاوٹ سے چور گھر کی طرف مڑتا ہے،کون سا گھر “پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا” ۔زندگی دائرے کی مسافت جو ٹھہری۔

پھر کہنے لگے، اس معاشرے میں عام طور پر بوڑھوں کے ساتھ ایسے سلوک کیا جاتا ہے، جیسے یا تو وہ کبھی جوان ہی نہیں تھے یا انکے ساتھ یہ سلوک کرنے والوں نے بوڑھے نہیں ہونا۔ زندگی بیٹا ایک کھیتی ہے اور انسان ایک کسان، جو بوئے گا کاٹ لے گا،اپنی بوئی فصل تو کاٹنی ہے کچھ یہاں یا کچھ وہاں،کتنی یہاں کتنی وہاں۔ ۔ خدا خانے،  لیکن میں اس میں بوڑھوں کو بھی قصوروار سمجھتا ہوں ۔ موت سے پہلے مر جاتے ہیں ۔ زندگی کی آخری سانس تک جینا چاہیے ۔انسان کسی دوسرے کو مار دے تو قتل ہے، خود کو مار دے تو خودکشی۔ دونوں حرام۔۔۔ جیتے جی مر جانا بھی حرام ہے

اچھا میری باری آ گئی اور حجام بھائی نے مجھے اشارہ کیا تو میں نے بھی اشارتاً کہہ دیا کہ اگلے کو بٹھا دے۔  آج سجنے دے محفل ،لگنے دے میلہ۔۔ سفید بالوں اور عمیق جھریوں میں گندھی ہمت اور حوصلے کی داستان کے ہر کردار کا خاکہ تصور کے کینوس پر ایک ہی تصویر بناتا ہے،وہ تصویر جو آنکھ دیکھنے کو ترس گئی، اپنے مرحوم بابا کا خاکہ۔ ۔

بزرگوار سے متعلق میں اب تک یہ سوچ رہا تھا کہ کوئی اس علاقے کے امیر کبیر آدمی ہوں گے، مگر یہ کہہ کر انہوں نے مجھے حیران کر دیا کہ میں وی آئی پیز کے ساتھ ڈرائیور تھا،انسانی اقدار چکاچوند شیشوں کے شو کیسز میں سجے زیورات نہیں جنہیں پیسے سے خریدا اور سجا لیااپنے بدن پر۔ یہ انمول نوادرات ہیں جنہیں روح کے کوہستان میں کھوجنا پڑتا ہے۔

کہنے لگے کون سا پاکستان کا بڑا ہوٹل ہے جہاں ہمارے لیے ٹیبل نہیں لگی ۔ کون سا کھانا ہے جو اس جوان نے نہیں کھایا(سرائیکی میں کہنے لگا ،بابا آپ کوں سمجھنداں جے ناں تے صداں کیویں ) ۔ بابا میں خود کو سمجھتا جو نہیں ہوں تو کہوں کیسے ۔ ؟  پھر کہا یہی فرق ہے جاپان اور پاکستان میں۔ جس دن پاکستانی بھی جاپانیوں کی طرح اپنے ڈرائیوروں کو My friend اور Mr Niazi کہنا شروع کر دیں گے ساتھ اٹھیں ،بیٹھیں اور کھائیں گے اس دن ہم بھی ترقی کر جائیں گے جاپان کی طرح۔

ایک ہاتھ اپنی کھونٹی پر اور دوسرا میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اٹھتے ہوئے کہنے لگے۔ ۔ ہاں ایک چیز ہے جو مجھے بوڑھا کرنے کی کوشش کرتی ہے، جس کے بارے میں ،میں آج کل بہت سوچتا ہوں۔ جن فیکٹریوں کی بنیادوں میں ہمارا خون پسینہ شامل ہے، انہیں لگاتے وقت ہم سوچتے تھے کہ اپنے بچوں کو ڈگریاں کرائیں گے تو ان فیکٹریوں میں وہ ملازم ہو جائیں گے،بڑی محنت سے بیٹے کو ڈگری کروائی ہے، لیکن اسے نوکری نہیں مل رہی، بس اس کے چہرے کی فکر کہیں مجھے بوڑھا نہ کر دے۔  ورنہ تو میں ابھی تمہاری طرح جوان ہوں۔  یہ کہہ کر میرے کندھے پہ “تھاپڑے ” کی صورت ہاتھ مارا اور کہنے لگے۔  تم نے بڑا وقت دیا۔ وقت سے بڑی کوئی دولت کسی کو نہیں دے سکتا۔  بڑی مہربانی ۔۔یہ کہہ کر دروازہ کھولا اور ہئیر سیلون سے نکل گئے۔

میں اپنی باری آنے پر بال کٹوانے کی کرسی پر بیٹھ کر سوچتا رہا کہ کیا کمال کی بات کر گئے ۔ زندگی وقت سے عبارت ہے، جس نے کسی کو وقت دیا اس نے اپنی زندگی میں اسے حصہ دار بنایا۔ اس خدمت کا ازالہ ممکن نہیں مگر بس ایک صورت میں کچھ نہ کچھ صلہ دیا جا سکتا ہے ، کہ خاص طور پر جن ماں باپ نے اپنی پوری زندگی ہی اولاد پر نچھاور کر دی ہو۔۔  جب اپنا سب کچھ لٹا کر خالی ہاتھ ہوں۔  تو انکے خالی ہاتھوں میں اپنے ہاتھ رکھے جائیں انکے حاصل کے طور پر اور انکی یادوں کی گونج سنی جائے، انہیں موت سے پہلے مرنے نہ دیا جائے  اور زندگی کی آخری سانس تک زندہ رہنے دیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کاش کہ کوئی ایسا نظام ہو کہ ہر شخص کو اپنی زندگی اپنا ماضی ایک کتاب کی صورت لکھ کر اگلی نسل کے ہاتھ میں تھمانے کا موقع ملے ۔جسے پڑھ کر وہ سبق سیکھیں جسے اپنی کتاب میں بہتر تجربے کے ساتھ لکھ سکیں اور یہ سلسلہ چلتا رہے اور اس کتاب کا عنوان کیا ہو “دائرے کا سفر “۔ زمین و انسان کی گردش کے نام۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply