ایم کیو ایم میں ٹوٹ پھوٹ ۔۔عبدلرؤف خٹک

بچپن میں  ایک  نعرے کی گونج ہر وقت دیتی تھی ” تم کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا” ،یہ نعرہ اتنا مشہور ہوا کہ ہر جگہ اس نعرے کو دہرایا جانے لگا ،پھر بھٹو خاندان کے ساتھ یہ نعرہ بھی خاموش ہوگیا۔

اب بہت عرصے بعد جب ایم کیو ایم پر برا وقت آیا ہے اور حالت یہ ہے کہ ایم کیو ایم کی تمام مرکزی قیادت ایک دوسرے کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور جماعت کی حالت اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ بے اختیار یہ نعرہ گنگنانے کو دل کرتا ہے ،تم کتنے قائد ماروگے ہر گھر سے قائد نکلے گا ،کیونکہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے بعد جماعت جس طریقے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی اس سے پہلے اس جماعت کو اتنی خستہ حالت میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

اک وقت تھا کہ اس جماعت کا کراچی میں اپنا ایک نام تھا قائد کے ایک ہی اشارے پر پورا کراچی بند، پورے شہر میں نہ بندہ نہ بندے کی ذات ،شہر کی حالت ایسی جیسے انسانوں کو کوئی سانپ سونگھ گیا ہو، تیس سے پینتیس سال کراچی شہر پر راج کرنے والے آج جہاں اپنے لیڈر سے دور ہوگئے وہیں یہ خود ایک دوسرے سے بھی دور ہوگئے اور اب ایک دوسرے کو ماننے کے لیے  بھی تیار نہیں کہ جماعت کا اصل وارث کون ہے؟

دیکھیے  یہ لڑائی آنے والے وقت میں کیا رنگ دکھاتی ہے لیکن اب تک اطلاعات کے مطابق اونٹ ایک کروٹ بیٹھا نہیں ،اگر دیکھا جائے تو قیادت کا اصل حقدار فاروق ستار ہے جس نے برے اور مشکل وقت میں جماعت کو سہارا دیا اور مشکل وقت میں بھی جماعت کو ٹوٹنے سے بچایا ،اور آج اسی فاروق ستار کو دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا جارہا ہے ،جماعت کا کوئی بھی بندہ فاروق ستار کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ،ہر اک اپنی الگ دکان بنانے پر تلا ہے ایسا لگتا ہے ہر گھر سے ایم کیو ایم نکلنے کو تیار ہے ،اگر دیکھا جائے تو الطاف حسین کو داد دینا پڑے گی جو دیار غیر میں رہتے ہوئے خود ساختہ زندگی گزارنے کے باوجود پارٹی کو جس منظم انداز میں چلاتے رہے اس کی مثال نہیں ملتی ،لیکن قائد کا پتہ صاف ہوتے ہی پوری جماعت تتر بتر ہوگئی اور ایسا محسوس ہوا جیسے جماعت نے بچے جننا شروع کردئیے ہوں  ،

اگر حالت یہی رہی تو اس کا پورا پورا فائدہ پی ایس پی، اور پی پی پی اٹھائی گی ،اس کے علاوہ کوئی بھی سیاسی جماعت کراچی میں اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ کوئی خاطر خواہ کامیابی اٹھا سکے ،ایم کیو ایم کے کار کنان اس وقت اک گوناگوں اور بے یقینی کی سی کیفیت میں مبتلا ہیں کہ ایم کیو ایم کا کوئی اس وقت ولی وارث نظر نہیں آتا آخر ہم کارکن کدھر کا رخ کریں ،اگر ایم کیو ایم کو اپنی ساکھ بچانی ہے اور جماعت کو واپس اپنی اسی ڈگر پر لانا ہے تو ایم کیو ایم کے تمام ساتھیوں کو کسی ایک شخص کو اعتماد کا ووٹ دینا ہوگا جو قائدانہ صلاحیتیں رکھتا ہو اور اس شہر کا اور عوام کا پرسان حال بھی ہو اور اس میں یہ صلاحیت بھی ہو کہ جماعت کو اب اک ایسے راستے پر چلانا ہے تاکہ لوگوں میں اس جماعت کا اعتماد بحال ہو اور یہ خود کو پھر اسی طرح منواسکیں جو اب سے کچھ عرصے قبل تک خود کو منواتے رہے،اس وقت تمام سیاسی جماعتیں اپنے جوبن پر ہیں اور اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ پنڈال میں سجے کرسیوں اور کارکنوں سے کرتے ہیں،جو جماعت جتنا بڑا جم غفیر انسانوں کا جمع کرتی  ہے وہی خود کو اس ملک کا اصل وارث سمجھتی  ہے، کیوں نہ اسے ،نااہل، قرار دے دیا جائے ،ان کا خیال تو یہ ہے کہ ہمیں کروڑوں عوام منتخب کرتی ہے گنتی کے چند لوگوں کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ ہمارے چوری ڈکیتی کے فیصلے کریں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان میں اگر عوام کی بات کی جائے تو وہ بیچارے تو ووٹ کے تقدس کو ہی نہیں جانتے کہ ووٹ کا اصل حقدار کون ہوتا ہے اور ووٹ کی اہمیت کیا ہوتی ہے ،انھیں تو بس الیکشن والے دنوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح گاڑیوں میں ٹھوس کر لایا جاتا ہے اور بار بار یہ بات دہرائی جاتی ہے کہ کس جانور کی تصویر اور کھیل والی تصویر پر مہر یا انگوٹھا  لگانا ہے ،وہ بیچارے کیا جانیں کہ میں جسے ووٹ دینے لگا ہوں وہ اس ملک میں کیا ہیں ؟ اور انھوں نے اس ملک کو کس نہج پر پہنچا دیا ہے ؟ اگر  یہ معمولی سی بات بھی اس عوام کو سمجھ آگئی اس دن ان کے بڑے بڑے سجے پنڈالوں میں صرف کرسیوں کی بہاریں نظر آئیں گی لیکن عوام دور سے ٹھینگا دکھاتے نظر آئیں گے،مگر افسوس یہ بدلاؤ فی الحال دور دور تک نظر نہیں آتا ، یہ قوم مزید اور بھی ٹرک کی بتی کے پیچھے چلتی نظر آئے گی ،اس قوم کا اللہ ہی ہامی و ناصر ہو!

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply