بغیر لیڈر کا ملک پاکستان۔ ۔حفیظ نعمانی

سری نگر کشمیر کے علاقہ میں سی آر پی ایف کی ایک زیرتعمیر عمارت میں آکر چھپنے والے لشکر طیبہ کے دو دہشت گردوں سے 22  گھنٹے گولیوں کا تبادلہ ہوا جس میں دونوں دہشت گردوں کے مرنے کے بعد دیکھا گیا تو اپنے بھی سات جوان پاکستانی گولیوں کا نشانہ بنے جن میں پانچ کشمیری مسلمان تھے اور دو دوسری ریاستوں کے ہندو۔ یہ اس کشمیر کے بیٹے تھے جس کو آزاد کرانے کے لئے لشکر طیبہ کے بانی حافظ سعید نے اپنے کہنے کے مطابق بندوق اٹھائی ہے۔

ہندوستان میں جب مسلم لیگ کے پرچم کے نیچے ملک کی تقسیم اور پاکستان کے مطالبہ نے زور پکڑا تو تمام بزرگ علمائے دین اور مسلم دانشوروں نے کھل کر مخالفت کی اور پاکستان کی حمایت کرنے والے وہ سب تھے جنہیں نہ نماز کی فرصت تھی نہ روزے کی ضرورت بس ایک ہی نعرہ تھا کہ پاکستان کے معنی کیا لاالہ الا اللہ۔ اس وقت ہر بڑے عالم کے جلسہ میں مسلم لیگ کے شیدائی آکر ہنگامہ کرتے تھے اور ’برلا کے ٹٹو ہائے ہائے اور ٹاٹا کے پٹھو ہائے ہائے‘ کے نعرے لگاتے ہوئے جلسہ میں خلل ڈالتے تھے۔ ملک جب تقسیم ہوگیا اور پاکستان بن گیا تب کوئی ایک عالم ایسا نہیں تھا جس نے یہ نہ کہا ہو کہ اب بن گیا تو ہماری دعا ہے کہ وہ سلامت رہے اور اسے اسلامی ملک بننے کی توفیق ہو۔

آج 70  برس کے بعد شاید ہی کوئی ہندوستان میں ایسا ہو جو پاکستان کے لئے دعا مانگتا ہو صرف اس لئے کہ ہندوستان میں مسلمانوں پر جتنے حملے ہورہے ہیں ان سب کی ذمہ داری پاکستان پر ہے۔ آج پاکستان کی حالت یہ ہے کہ کوئی لیڈر ایسا نہیں ہے جس سے حکومت ہند بات کرسکے اور کوئی نہیں ہے جسے ہندوستان کے مسلمانوں کے بزرگ علماء مخاطب کرسکیں کہ اپنی قوم کو سمجھائیں کہ جو دہشت گرد لیڈر مولویوں کی صورت اور ان کا جیسا لباس پہن کر سرحد پر جاہل اور کم عقل لڑکوں کو بھیج کر کتوں کی طرح مروا رہے ہیں وہ انہیں جنت میں نہیں جہنم میں بھیج رہے ہیں۔  پاکستان بننے کے بعد ہندوستان سے جانے والے بزرگ علماء میں مولانا بشیر احمد عثمانی، مولانا سید سلیمان ندوی اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ہی ایسے تھے جن کی آواز پورے پاکستان میں سنی جاتی تھی۔

آج حالت یہ ہے کہ ان میں سے ایک بھی نہیں ہے اور جو پنجاب سندھ اور سرحد کے علماء ہیں وہ ان معاملات میں دخل نہیں دیتے ۔ آج اوپر سے نیچے تک اقتدار کی کرسی پر جو بیٹھے ہیں ان میں سے کوئی نہیں ہے جس کے باپ دادا نے پاکستان بنوانے میں حصہ لیا ہو۔ پاکستان جنہوں نے بنوایا اور بنایا تھا انہوں نے اس وقت تک حکومت کی جب تک ایوب خاں نے دخل نہیں دیا۔ ایوب خاں کے بعد یاد نہیں کہ پرویز مشرف کے علاوہ کسی کا حکومت میں دخل رہا ہو۔ اور مشرف اگر فوج میں نہ ہوتے تو وہ کبھی بھی نہ صدر بن سکتے تھے نہ وزیراعظم۔ آج جن لوگوں کے ہاتھ میں حکومت ہے انہوں نے تو کہہ دیا تھا کہ ہم تو بغیر تقسیم کے پاکستان میں ہیں۔ صوبہ میں ہماری اکثریت ہے اور ہر کرسی ہمارے قبضہ میں ہے اس وقت تک انہیں ملک کی حکومت کا چسکا نہیں لگا تھا پھر جب سے ملک کی حکمرانی کا چسکا لگا تو پھر انہوں نے پاکستان کو اپنے باپ کی میراث سمجھ لیا اور بنانے والے مہاجر آج بھی مہاجر ہیں۔ یہ پاکستانی قیادت کی نااہلی تھی کہ آدھا پاکستان بنگلہ دیش بن گیا مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں زبان کی وجہ سے جتنی دوری تھی اس سے زیادہ دوری ہندوستان میں جنوبی ہند اور شمالی ہند میں تھی۔ شیخ مجیب الرحمن نے اگر بنگلہ دیش بنانا چاہا تھا تو تمل ناڈو میں اننا دورائی نے دراوِڑستان کا مطالبہ کیا تھا یہاں بھی مسئلہ زبان کا تھا کہ جنوبی ہند والے ہندی کی حکمرانی ماننے پر تیار نہیں تھے۔ ہندوستان کے لیڈروں نے مان لیا اور آج بھی وہاں ہندی نہیں ہے ۔ پاکستان کے لیڈر نااہل تھے کہ آدھا ملک ہاتھ سے نکل گیا۔

آج چھوٹے سے چھوٹے ملک میں قیادت ہے لیکن 20  کروڑ آبادی کا ملک پاکستان ایسا ہے کہ زرداری ہوں یا نواز شریف یا عمران خان سب پر بے ایمانی کے الزام ہیں اور ملک کی حالت یہ ہے کہ حافظ سعید اور اظہر مسعود صرف نئے سال کے 45  دن میں 240  پاکستانی بچوں کو سرحد پر بھیج کر مروا چکے ہیں  اور کوئی نہیں ہے جو یہ کہے کہ اگر اسی طرح تم مرواتے رہے تو جلد ہی پاکستان نوجوانوں سے خالی ہوجائے گا۔ ہندوستان 125  کروڑ کا ملک ہے اور فوجی اعتبار سے دنیا کے پانچ ملکوں میں سے ایک ہے ہر دن جو سرحد پر جوان دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں اور ان کے تابوت جہاں جہاں جارہے ہیں وہاں پاکستان کے خلاف سینوں میں آگ بھر رہی ہے جس دن یہ آگ بھڑک گئی اس دن جو نہ ہو جائے وہ کم ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ مضامین

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply