غیروں کی نظروں میں حضرت محمد صاحب ۔۔ابھے کمار

انگریزی میں شائع ہونے والا ہفتہ وار رِسالہ ” ریڈئنس” کے مدیر عالیٰ اعجاز احمد اسلم کا ایک پارسَل مجھے کچھ مہینے پہلے ملا۔ انہوں نے میرے لیے کچھ کتابیں بھیجی تھیں۔ حالانکہ ان سے میری جان پہچان بہت پرانی نہیں ہے۔حال کے دنوں میں ہی میں ان سے دہلی میں واقع پریس کلب میں ملا تھا۔ اردو صحافت کے جانباز سپاہی مولوی محمد باقر سے متعلق ایک پروگرام میں وہ تقریر کرنے آیے تھے۔ جب میں نے ان کو سُنا اور بعد میں ان سے گفتگو کی تو مجھے اس بات کا احساس ہو گیا کہ وہ بہت ہی پڑھے لکھے اور سنجیدہ آدمی ہیں ۔ہمارے اور ان کےدرمیان قربت کی وجہ یہ بھی ہےکہ انہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ شمال بہار میں گزارا ہے، جو میرا وطن عزیزہے۔ حالانکہ اعجاز صاجب کا تعلق جنوبی ریاست تمل ناڈو سے ہے، مگر درس و تدریس کی خاطر انہوں نے بہار میں کئی دہائیاں وقف کیں۔اس د ن کے بعد سےہم ایک دوسرے کے دوست بن گیے۔ جب میں نے اعجاز صاحب کا بھیجا ہوپیکٹ کھولا تو اس میں ۵۷۷ صفحات پر مشتمل ایک کتاب نکلی۔ انگریزی کی اس کتاب کے مصنف کا نام ہے مائیکل ایچ ہارٹ ۔ یہ کتاب تاریخ کی سو سب سے اہم اترین اور انتہائی متاثر کن شخصیات کی مختصر سوانح حیات پرمبنی ہے۔ تھوڑی تحقیق کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ مصنف امریکہ میں سال ۱۹۳۲ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق یہودی مذہبی سماج سے ہے۔ ہارٹ کی مذکورہ کتاب دنیا بھر میں کافی مقبول ہوئی ۔ اس کی ہزاروں کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں ۔ در اصل یہ کتاب سال ۱۹۷۸ میں منظر عام پر آئی۔اس کا دوسرا رِوائزڈ ایڈیشن بھی آ چکا ہے۔کتاب کی اہمیت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اب تک اس کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ میں بار بار یہ سوچ رہا تھا کہ اعجاز صاحب نے اگر کوئی کتاب مجھے پڑھنے کےلیے عطیہ کی ہے تو اس میں علم کا کوئی نہ کوئی خزانہ ضرور چھُپا ہوگا ۔

ہارٹ نے اپنی کتاب میں دنیا کی ۱۰۰ بڑی شخصیات کا ذکر کیا ہے، جیسے آئزک نیوٹن، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، بُدھ، کنفیوشیس، سینٹ پال، البرٹ آئن سٹائین، ارسطو، حضرت موسیٰ علیہ السلام، مارٹن لوتھر، کارل مارکس، نپولین بوناپارٹ، افلاطون، اشوک، مہاویر، ماوٴ زیڈونگ، لینن، روسو۔ ان عظیم تاریخی ہستیوں کے افکار اور کاموں کا ہارٹ نے تجزیہ کیا ۔مصنف کا نتیجہ یہ تھا کہ دنیا میں سب سے موثر شخصیت حضرت محمد ؐ ہیں۔ یاد رکھیے کہ یہ بات کسی مسلمان نے اپنے عقیدہ کی وجہ سےنہیں کہی ہے ، بلکہ ایک غیر مسلم یہودی نے اپنی سوچ اور اپنےمطالعہ کی بنیاد پر کہی ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلامؐ دینی اور دُنیاوی دنوں معاملوں میں سب سے کامیاب ترین انسان تھے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ کئی بار دین کو دنیا سے الگ کرنے کی بھی کوشش ہوتی ہے۔کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف عبادت کر لینے سے ہی وہ کامیاب ہو جائیں گے، وہیں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جن کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ مال و دولت اوراقتدار و شہرت حاصل کرنے کا ہی دوسرا نام کامیاب زندگی ہے۔ مگر رسول ؐ کا طریقہ یہ تھا کہ دین اور دنیا میں ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ نما ز کے ساتھ ساتھ غریب کی مدد بھی کی جائے۔ مطلب صاف ہےدینی کام اور فلاحی کاموں میں دیوار پیدا نہیں کی جا سکتی ہے۔ ہارٹ مزید لکھتے ہیں کہ حضرت محمؐد کا بیک گراونڈ بہت ہی معمولی تھا۔ مگر اس کےبعد بھی انہوں نےو ہ کر دکھلایا ، جو مال اور دولت کےپہاڑ پربیٹھنے والوں بھی کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ پاتے ۔ چودہ سو سال گزر جانے کے بعد بھی حظرت محمدؐ کا اثر پوری پوری دنیا محسوس کررہی ہے۔ آج اسلام ایک عالمی مذہب ہے، مگرایک زمانہ تھا جب حضرت محمدؐ پر دین و وحدت کی بات تسمجھانے کے لیے حملہ کیا جاتا۔ ان کے دور کا عرب پسماندگی میں مبتلا تھا۔ محمد صاحب ؐچھ سال کی عمر میں یتیم ہو گیے، مگرآپ ؐنے کبھی حوصلہ نہیں ہارا۔ آپ ؐ پڑھے لکھے نہیں تھے، مگر آپؐ نے خدا کا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے دشمن بھی ان کی باتوں کو سُن کر اور ان کے اعمال کو دیکھ کر مسلمان بن گیے۔ آپ ؐ نے ایک خدا ، جیسے نظریہۂ توحید بھی کہتے ہے، کا پیغام دیا اور لوگوں کو توہم پرستی اور شرک کو ترک کرنےکےلیےہدایت دی۔کچھ ہی سالوں میں اسلام کی روشنی بھارت سے لے کر بحراوقیانوس تک پھیل گئی۔ آخر میں ہارٹ لکھتے ہیں کہ”مجھے لگتا ہے کہ حضرت محمدؐ انسانی تاریخ کی سب سے موثر واحد شخصیت تھے”۔

ہارٹ کے علاوہ ، بابائے قوم مہاتما گاندھی کی ایک تقریر بھی میری آنگھوں سے گزری۔ یہ تقریر باپو نے ۲۳ جون ۱۹۳۴ کو انجمن فدا ئےاسلام کے جلسہ میں دیا تھا۔یاد رہے کہ گاندھی جی کو جنوبی افریقہ میں مقیم مسلمانوں نے بلایا تھا۔ جب وہ بھارت لوٹ کر آئیں اور ۱۹۲۰ کی دہائی میں عدم تعاون کا کال دیا تو ان کے ساتھ ملک کے مسلمانوں نے بھی جنگ آزادی میں کود پڑے۔ کانگریس اور جمیعت علما ہند کی قربت نے ہندو مسلمان اتحاد کو ایک نئی منزل دی۔ یہ سب دیکھ کر انگریز اور فرقہ پرست دونوں کے ہوش اُڑ گیے۔ گاندھی جی اپنی عبادت کے دوران ہندو ددھرم کی کتابوں کے علاوہ قران کا بھی پاٹھ کرتے تھے۔وہ بار بار کہتے تھے کہ لوگوں کو دھرم کے نام پر نہیں لڑنا چاہیےکیونکہ سارے مذاہب کے راستے ایک ہی خدا کے پاس آتے ہیں۔ گاندھی جی نے اپنی مذکورہ تقریر میں اس بات کا اعتراف کیا ہےکہ جیل کے ووران انہوں نے مولانا شبلی نعمانی ؒکی سیرت البنی ؐ پڑھی اور حضور ؐکے بارے میں جانا۔ اپنے مطالعہ کی بنیاد پر گاندھی جی نے کہا کہ پیغمبرؐ حق کی تلاش کرتے رہتے تھے۔ وہ خدا سے ڈرتے تھے۔ آپؐ نے بے پناہ ظلم و ستم کا سامنا کیا۔ آپ ؐ بہادر تھے، جو صرف خدا کے علاوہ اور کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ بغیر پروا کیے آپ ؐ نے وہی کیا جو صحیح تھا۔ آپؐ کےقول و فعل میں کوئی فرق نہیں تھا۔ آپؐ فقیر تھے۔آپؐ نے سب کچھ کو ترک کر دیا۔ اگر آپؐ چاہتے توآپ ؐکے پاس مال ہی مال ہوتا ۔

آج اسی گاندھی کے ملک میں پیغرم اسلامؐ کے خلاف گستاخی کی جارہی ہے۔ دن رات مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا جا رہا ہے اور بھارت کے سیکولر آئین پر گہری چوٹ کی جا رہی ہے۔آج ملک اس حالت میں پہنچ گیا ہے کہ اقلیتوں کے عقیدہ کو فُٹ بال کی طرح ٹھوکر مارا جا رہا ہے۔ پہلے تو بھاجپائیوں کو یہ لگ رہا تھا کہ بے سہارا مسلمان اور کمزور سیکولر اپوزیشن ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہے۔ اس لیے بی جے پی زہر اُگلنے والے عناصر کو در پردہ حمایت دے رہی تھی۔ مگربزرگ کہتے ہیں کہ پاپ کا گھڑا ایک نہ ایک دن پھر ہی جاتا ہے اور ایسا ہی ہوا۔ عرب ممالک میں بی جے پی ترجمان نُپور شرما کے بیان پر ہنگامہ برپا ہو گیا۔ امریکہ سمیت مغربی ممالک پہلے سے ہی بھارت میں بڑھ رہے مسلم مخالف ماحول سے کافی افسردہ ہیں۔ بات تو اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ امریکہ نے اپنی ایک حالیہ رپورت میں ہندی مسلمانوں کے مذہبی مقامات پر ہو رہے حملوں پر گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ در اصل یہ بات صرف ایک بیان یا پھر فرد واحیدکا خیال نہیں ہے۔ یہ بات ایک پیٹرن کی ہے۔ ۲۰۱۴ کے بعد سے مسلمانوں کو وِلن بنا کر اور ان کے مذہب کا خوف دکھا کر اکثریت طبقہ سے بھگوا سیاسی جماعت ووٹ مانگ رہی ہے۔ نفرت انگیز سیاست نے بی جے پی کو اقتدار میں تو لا دیا ہے ، مگر اس سے دیش کا بڑا نقصان ہوا ہے۔ ملک کی سیکولر شبیہ خراب ہو گئی ہے۔ یہ بات بر سر اقتدار بی جے پی جتنی جلدی سمجھ لے اتنا ہی سب کے لیے اچھا ہوگا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مضمون نگار جے این یو سے تاریخ میں پی ایچ ڈی ہیں

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply