اگلی سویر جب میں دوکان کھول کر جھاڑ پونچھ کر رہا تھا تو محلے کی مسجد کمیٹی کے رکن حاجی دلبر نازل ہو گئے۔ حاجی صاحب کا سراپا نعمتوں کے کثرت استعمال سے ایسا ہو چکا تھا کہ جناب سر تا پا پیٹ ہی پیٹ نظر آتے تھے ۔یوں سمجھیے کہ پیٹ انکی شناختی علامت بن چکی تھی۔ موٹر سائیکل پر سوار ہوتے تو تشریف تو بے شک گدی پر رکھتے مگر پیٹ میٹر کی بلائیں لے رہا ہوتا تھا ۔
“اسلام علیکم قریشی صاحب ” حاجی صاحب نے حلق کی گہرائیوں سے گرج دار سلامتی برآمد کی اور میرا استخوانی ہاتھ اپنے مگدر سے ہاتھوں میں لے کر کچھ ایسا مصافحہ کیا کہ مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ اب مذکورہ دست نازک سے میں سوا مکھیاں اڑانے کے کوئی اور کام نہ کر سکوں گا۔ ان کے پنجہ استبداد سے بمشکل اپنا ہاتھ آزاد کراتے ہوئے میں نے انہیں بیٹھنے کو کہا اور دل ہی دل میں اکلوتی کرسی کی خیریت کا طالب ہوا مگر حاجی صاحب نے بیٹھنے سے معذرت کرتے ہوئے جیب سے ایک مڑی تڑی سی پرچی نکالی اور میرے سامنے دھرتے ہوئے بولے” قریشی صاحب یہ سامان مقدار کے خاص دھیان کے ساتھ باندھ دیجئے، میں ذرا جلدی میں ہوں ” میں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے پرچی پر درج سامان پڑھنا شروع کیا ۔”بادام آدھا کلو۔۔کشمش آدھا کلو۔۔۔خشخاش ،بھنے مغز، مصری۔” ۔ہر شے آدھ کلو کے لاحقے کے ساتھ درج تھی۔۔”حاجی صاحب! کیا گیارہویں شریف کی نیاز دلانے کا ارادہ ہے؟ ؟”میں نے سامان کی مقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے دریافت کیا ۔جوابا حاجی دلبر صاحب حیرت انگیز طور پر شرما اور لجا گئے اور شرمیلی سی ہنسی ہنسنے لگے جس میں ان کا پیٹ بھی برابر کا شریک تھا اور میں احمقوں کی طرح منہ کھولے حاجی دلبر کو تھرتھراتے ہوئے دیکھنے لگا۔بالآخر وہ اپنے وائبریشن موڈ سے باہر آئے اور جیب سے سستے قسم کی عطر میں ڈوبا رومال نکالا،سرمہ لگی مکارانہ آنکھوں کو پونچھا جن میں کثرت ہنسی سے پانی آ گیا تھا،ریش مبارک کو انگلیوں سے سہلایا اور سر جھکا کر شرما کر بولے “نہیں نہیں حضرت! دراصل بات یہ ہے کہ ۔”وہ ذرا اٹکے اور پھر گویا ہوئے ” دراصل گھر میں کوئی ننھی سی قلقاری گونجے عرصہ دراز ہو گیا ہے اور سچ پوچھیے تو جی کو بڑا ہی خفقان لاحق ہوتا ہے ۔کل ہی جرمن دوا خانے سے دوا لائی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ضعف کے رد کے لئیے کشتہ بنوانا ہے۔۔بس اسی لیے۔۔۔” آخر پہ وہ پھر شرما گئے اور میں لفظ ضعف پہ کپکپا ہی گیا کہ یارب جس وجود میں اتنی چربی ذخیرہ ہے کہ اگر صابن بنانے والی فیکٹری سے ٹھیکہ کر لیں تو سال بھر کی چربی محض پیٹ سے ہی فراہم کر سکتے ہیں، اسے آخر کس قسم کا ضعف لاحق ہے؟ اسی سوچ بچار کے عالم میں میں نے طاقتی اجزا کا لفافہ انکی سمت بڑھایا جسے انہوں نے بصد شوق تھاما اور سامان کی ادائیگی کے بعد خراماں خراماں چلتے دکان سے نکل گئے۔۔
میں انگشت بدنداں، تصویر حیرت بنا کھڑا رہ گیا اور پھر میرے ضمیر نے مجھے ہلکے ہلکے اکسانا شروع کیا کہ اے ناکام شخص! آنگن تو تیرا بھی سونا ہی ہے۔کچھ سیکھ چوہدری اور حاجی دلبر سے۔ اور نیو جرمن دوا خانے سے ملنے والے بیجوں سے اپنے سونے آنگن میں پھول کھلا دے۔۔
میں نے فٹافٹ ضمیر کی آواز پہ لبیک کہا اور دوپہر میں دوا خانے کی معجزاتی دنیا کی سیر کا مصمم ارادہ کرتے ہوئے گاہکوں کے ساتھ مصروف ہو گیا۔۔۔مگر تب تک جانتا نہ تھا کہ ضمیر اس لیے بے خوف و خطر اکساتا رہتا ہے کہ مابعد اثرات اس اکساہٹ کے صرف تن خاکی بھگتتا ہے ضمیر کو ایسے کوئی مسائل لاحق نہیں ہوتے ہیں مثلا ً ضمیر کی آواز پہ لبیک کہتے ہوئے اگر آپ نے کسی سر راہ ہوئی ڈکیتی کی گواہی دینے کی ٹھان لی یا کرپشن کا باسی بھانڈا پھوڑنے پر تل گئے تو یقین کرلیجیے کہ اول صورت میں نقصان مالی و بدنی ہے اور دوسری گھمبیر صورتحال میں آپ بآسانی صفحہ ہستی سے غائب ہو سکتے ہیں اور رہ گیا ضمیر تو وہ ہاتھ جھاڑتا کسی اور کو اکسانے چل پڑے گا ۔
دوپہر کے قریب جب گاہکوں کی آمد کے امکانات خاصے کم ہو گئے تو میں نے تالا لگایا اور ایک سرخوشی کے عالم میں دوا خانے کی جانب چل پڑا ۔ وہاں اچھا خاصا رش تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا گویا شہر کا شہر ہی فقط اس دوا خانے کے انتظار میں اب تک جیے جا رہا تھا ۔
تقریبا ً آدھے گھنٹے کے کٹھن انتظار کے بعد مجھے اس طلسماتی مطب کے اندر داخلے کی سعادت نصیب ہو ہی گئی۔ میں دل کی تیز دھڑکن سنبھالتے ہوئے اور حکیم مذکور کے سوالات کے لیے خود کو تیار کرتا ہوا اندر داخل ہوا اور اس چھوٹے سے کمرے میں جس میں طرح طرح کی ادویات، معجون اور ماورائے کائنات نظر آتے قسم قسم کے روغن بھرے ہوئے تھے ایک بنچ پر جا بیٹھا ۔
“جی بزرگوار! مسئلہ اندرونی ہے یا بیرونی” ایک منخنی سی آواز دواوں کی بوتلوں کی قطار سے برآمد ہوئی اور میں اچھل کر رہ گیا۔”بزرگوار! ؟؟ “۔۔۔ ادھر ادھر دیکھا تو اپنے سوا کسی کو موجود نہ پایا،تو گویا اس خطاب کا مخاطب یہ حقیر ناچیز ہی تھا۔ غصہ ضبط کرتے ہوئے آواز کا منبع تلاش کیا تو ایک مہندی رنگی داڑھی کے ساتھ دو چھوٹی چھوٹی آنکھوں کو بھی بوتلوں کی قطار کے درمیان سے جھانکتے پایا۔ اور دو تین منٹ بعد حکیم صاحب پورے برآمد ہو کر سامنے آ گئے ۔ میرے ارمانوں پہ دو چار کلو اوس تو حکیم صاحب کا حلیہ دیکھ کر ہی پڑ گئی۔ سوکھے چمرخ سے ناتواں بدن پہ کپڑے مانگے کے معلوم ہوتے تھے۔ داڑھی کے بال خال خال ہی تھے اور اس چگی داڑھی کو بھی سرخ مہندی سے رنگ رکھا تھا، پیشانی اور سر کے درمیان خط متارکہ جانے کب کا ٹوٹ چکا تھا یعنی صفا چٹ چندیا تھی۔ بخدا اگر ہاتھ میں قرولی ہوتی تو حافظ کے مشہور کردار میاں خوجی کا چلتا پھرتا پرتو تھے۔
“اگر اپنی حکمت سے یہ خود ہی فیضیاب نہ ہو سکے تو میرا مداوا کیا کریں گے” میں نے مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتے ہوئے سوچا۔
“میاں صاحب! قوت گویائی سے محروم ہیں کیا؟ ؟” حکیم نے اپنے تئیں میرا ٹھٹھا اڑاتے ہوئے پوچھا۔
“جی نہیں حکیم صاحب! آلہ گویائی اور قوت گویائی دونوں خدا کے فضل سے سلامت ہیں، کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے “میں نے اپنے حسابوں خاصا طنزیہ جواب دیا مگر انہیں شاید اس سے سروکار نہ تھا ۔فٹافٹ ایک پرچی اور قلم گھسیٹا اور انکی زبان یوں رواں ہوئی جیسے چھپڑ ہوٹل والے چھوٹے کی مینیو سناتے ہوئے رواں ہوتی ہے ” جی حضرت؟؟ بواسیر؟ خفقان،خشکی،قبض، سوزاک،خارش،ورم جگر، کالی کھانسی،یرقان،جریان۔۔۔” میں ان کی زبان سے اڑتے بیماریوں کے چھینٹوں سے شرابور ہو کر رہ گیا۔ “نہیں نہیں حکیم صاحب ذرارکیے” اس سے پہلے کہ وہ زنانہ بیماریوں کا رخ کرتے، میں نے انہیں زبردستی روک دیا۔ وہ خاموش ہو کر مجھے گھورنے لگے۔ “فرماو میاں کیا مسائل ہیں ” انہوں نے تیوری چڑھا کر پوچھا انداز ایسا تھا گویا کہتے ہوں بک بھی چکو بڑے میاں !
میں نے کچھ شرماتے ،کچھ لجاتے اور کچھ گھبراتے مدعا علیہ سامنے رکھا اور عرض کی کہ “آرزو تو چپڑی اور دو دو کی ہے مگر ۔۔ایسا نہ بھی ہو سکے تو پہلے سے موجود سوکھی کو ہی چپڑی بنانے کا نسخہ کیمیا عطا ہو” ۔ ۔
حکیم صاحب نے اپنی گول گول آنکھوں سے میرا ایکسرے مکمل کیا، زبان،نبض اور آنکھیں دیکھیں اور نسخہ گھسیٹ دیا۔ میں نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ معاملہ انہی غیر ضرر رساں اعضاء کے معائنے پر ہی ٹل گیا۔ کھیسے سے ہزار روپے کا کڑکدار نوٹ حکیم صاحب کی نذر کیا اور دوا کی تھیلی سنبھالے مطب سے باہر آ گیا ۔
دل میں ہزاروں ارمان چٹکیاں لیتے تھے اور میں پہلی بار ابا سے چوری چھپے منڈوا دیکھنے والوں کی طرح گھبرایا بھی ہوا تھا اور خوشی سے نڈھال بھی تھا ۔
دکان پر پہنچ کر تسلی سے ادویات کا معائنہ کیا تو انیس بیس کے فرق کے ساتھ تمام کو ایک سا ہی پایا۔ ہدایات نامہ الگ سے درج تھا “پڑیا نمبر ایک کو رات سونے سے پہلے دودھ کے ساتھ لینا ہے،پڑیا نمبر دو نصف رات کو تخم بالنگاہ اور مصری کے شربت کے ساتھ اور پڑیا نمبر تین کو صبح کاذب کے وقت مکھن کے پیڑوں والی لسی کے ساتھ نوش جاں کرنی ہے”
صاحبان! میں تو چکرا کر ہی رہ گیا کہ تمام شب میں اگر صرف پڑیاں ہی نوش کرتارہوں گا تو گوہر مقصود کیسے حاصل ہو گا؟ ۔
خاصی سوچ بچار کے بعد حل یہ نکالا کہ رات والی پڑیا شام کو کھا لی جائے اور نصف شب اور صبح کاذب والی پڑیاں رات دس بجے ایک ساتھ استعمال میں لائی جائیں تاکہ جلد از جلد ضعف رفع ہو۔لسی اور شربت کو بھی میں نے لسٹ سے خارج کیا اور گرم دودھ پر ہی اکتفا کرنے کی ٹھان لی۔
رات ہوتے ہوتے میری آرزوؤں کا محل بھی پہلے دو اور پھر سہ منزلہ ہو گیا اور کھانا کھاتے ہی میں نے باورچی خانے میں چپکے سے جا کر دودھ گرم کیا اور لرزتے کانپتے ہاتھوں سے پڑیا نمبر ایک کو حلق میں انڈیل لیا ” اوہ خدایا! اگر آج ہی حکیم کو ہزار روپے نہ دئیے ہوتے تو دنیا کی کوئی شے مجھے اس بدذائقہ واہیات معجون کو کھانے پہ مجبور نہ کر سکتی تھی۔ ایسا لگتا تھا نسوار تمباکو اور چرس کو ملا کر اس میں مصبر اور کیکر کی چھال کی آمیزش کر دی گئی ہے ۔ دل پہ جبر کرتے ہوئے پڑیا نگلی اور چینی کے دو چار پھنکے لگا کر منہ کی کڑواہٹ زائل کرنے کی کوشش کی۔
بیگم جانے کس جہاں کے قصے سنائے جا رہی تھی مگر میں پڑیا کے نتائج کے بارے میں اندازے لگا لگا کر ہلکان ہوا جا رہا تھا۔ بیگم نے میری بے توجہی بھانپ لی اور یکدم زور سے بولی ” اے سنتے بھی ہو؟؟ کن خیالوں میں گھوم رہے ہو؟ ” گھبراہٹ کے عالم میں میرے منہ سے بے ساختہ “پڑیا” نکل گیا جسے بیگم نے اپنی مرضی سے بڑھیا سنا اور رات گئےتک اہل محلہ نے ساتویں سر میں میری مداح سرائی بزبان بیگم سنی۔
بارے گھڑی نے رات کے دس بجائے تو میں چپکے سے اٹھا ، باورچی خانے میں جا کر ناک چٹکی میں دبائی اور دونوں پڑیاں حلق میں انڈیل کر غٹاغٹ دودھ کا گلاس چڑھایا اور واپس آ کر کھاٹ پر لیٹ رہا۔ آدھا گھنٹہ تو میں معجونوں کے اثرات ظاہر ہونے کا انتظار کرتا رہا مگر ہنوز خاموشی ہی خاموشی تھی ارمان بھی غالبا ً نیند کی دوا کھا کر سو گئے تھے۔ رفتہ رفتہ نیند میری بھی آنکھوں میں آن بسی اور سہانے خوابوں کی امید نے تھپکیاں دے دے کر مجھے سلا دیا۔ رات کا جانے کون سا پہر تھا جب ایک عجیب سے احساس نے مجھے بستر سے اٹھا کر بٹھا دیا ۔دل عجیب رفتار سے دھڑک رہا تھا اور چہرہ تپ رہا تھا، جسم کو جیسے چیونٹیاں نوچ رہی تھیں ۔ پہلے لگا کہ وقت آخر قریب آن پہنچا پھر دھیان میں وہ پڑیاں ناچ اٹھیں جو آج نوش فرمائیں تھیں تو دل کو دلاسا دیا کہ غالباً یہ دوا کے اثر پذیر ہونے کی علامت ہے ۔دو گلاس پانی کے سوکھتے حلق میں انڈیلے،کچھ دیر میں طبعیت بحال ہو گئی تو میں نے بھی کمبل تان لیا۔
صبح بیگم نے ناشتہ میرے سامنے دھرنے سے پہلے اعلان کیا کہ وہ دو چار دن کو شبو کے ہاں جانا چاہتی ہے تاکہ اپنی اس اداس بے رس زندگی میں لذیذ زنانہ گفتگو بالفاظ دیگر غیبت کی چاشنی بھر سکے۔
میں نے بھی کسی قسم کی دخل در معقولات نہ کی کہ بیگم کی غیر موجودگی میں میں بآسانی اپنی بحالی کے عمل کو انجام دے سکتا تھا ۔
ناشتہ کرنے کے بعد میں دکان پر اور بیگم شبو کے سسرال روانہ ہوئی ۔۔میں اسے تانگے میں بٹھا کر لوٹا تو یہ خبر نہ تھی کہ بیگم سے اگلی ملاقات اب ہسپتال کے بستر پہ ہو گی ۔
یہ غالبا ً بیگم کے جانے کے بعد دوسری رات کا ذکر ہے، میں فون پر ایک طویل ہدایت نامہ بیگم سے وصول کر کے اور نیو جرمن دوا خانے کی پڑیاں انڈیل کر سونے کی تیاری کر رہا تھا کہ یکدم میرے سینے میں درد کی لہر کاٹ دار تلوار کی مانند پیوست ہو گئی۔
میں ماہی بے آب کی مانند تڑپا اور پھر پھڑکنے لگا۔ معدہ میں آتش جہنم سلگ رہی تھی ۔جلن اس قدر شدید تھی مانو کھال میں انگارے بھرے گئے ہوں ۔ میں فرش پہ دوہرا ہوا تڑپ رہا تھا اور سایہ بیگم سے محروم ہونے کے سبب کسی امداد کی امید بھی کھو بیٹھا تھا ۔ وقت آخر اس حال میں آئے گا کبھی سوچا بھی نہ تھا مگر حضرت عزرائیل کو ٹالنے کی تاب کون رکھتا ہے ۔؟؟ دل ہی دل میں بیگم سے کردہ و ناکردہ گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے کلمہ شہادت کا ورد کیا اور پھر جانے کون سے جھٹکے نے مجھے دنیا و مافیا سے بیگانہ کر دیا۔
میں اس کسمپرسی کے عالم میں جانے کتنی دیر پڑا رہا ہوں گا،کچھ خبر نہ تھی۔ بالآخر ہوش و حواس واپس لوٹے تو ہمت متجمع کرتے ہوئے فرش سے اٹھا اور کسی نہ کسی طور کھاٹ تک پہنچ ہی گیا ۔ جلن اور درد میں معمولی سی کمی تھی مگر ایک اور مصیبت میرے بدن پر جابجا ابھرنے والے آبلوں کی صورت میں سامنے آئی تھی۔ زبان چمڑے کے ٹکڑے کی طرح سوکھ چکی تھی اور آبلوں میں ہونے والی خارش مجھے بھٹی میں بھنتے مکئی کے دانے کی مانند حرکت میں رکھے ہوئے تھی ۔ مجھے اس ساری مصیبت کی وجہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بیٹھے بیٹھے مجھ پہ یہ کیا بلائے ناگہانی آن پڑی ہے ۔کل کی کسے خبر مگر بچ رہا تو سب سے پہلے ڈاکٹر کے پاس حاضری دوں گا،یہ عزم کر کے بقیہ رات میں نےآیت قرآنی کا ورد کرتے گزاری ۔
گور میں مردہ بھی کیا ہی منکر نکیر کے انتظار میں ہلکان ہوتا ہو گا جو میں سورج نکلنے کے انتظار میں ہوا۔ بار بار اٹھنے والی درد کی لہروں کو سہتے ہوئے اور کھاٹ پر ٹاپتے ہوئے خدا خدا کر کے سپیدہ سحر نمودار ہونے کے آثار نظر آئے تو میں نے بھی کچھ سکون کا سانس لیا کہ چراغ سحری میں کچھ نہ کچھ تیل ابھی باقی ہے۔
جونہی شاہ خاور نے چہرہ کرایا، میں خود کو گھسیٹ گھساٹ کر اٹھا، کواڑ مقفل کیے اور پڑوس کے غفور بھائی کو جا جگایا ۔ انہیں ساری صورتحال تو بتانے کی ہمت نہ تھی مختصرا ً طبیعت کی ناسازی کا بتا کر ڈاکٹر صاحب تک لے جانے کی استدعا کی۔
تمام راستے وہ پر تشویش حالت میں میری طرف دیکھتے رہے کہ کہیں مر مرا گیا تو انہیں لینے کے دینے ہی نہ پڑ جائیں اور نیکی برباد گناہ لازم والا معاملہ ٹھہرے۔ مگر میں زندہ سلامت ہسپتال کے احاطے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا،گویا ایک مرحلہ تو عبور ہوا۔
ڈاکٹر صاحب کی آمد کا وقت سرکار نے تو آٹھ بجے مقرر کر رکھا تھا مگر وہ شاید سول نافرمانی کی تحریک کے کرتا دھرتا تھے جو صبح دس بجے تک بھی ان کی آمد کے کوئی آثار دکھائی نہ پڑتے تھے ۔اس دوران میں دو بار مزید غش کھا چکا تھا اور غفور بھائی بھی یہ کہہ کر میرا ساتھ چھوڑ گئے تھے کہ وہ بھی بال بچوں والے آدمی ہیں، کل کو کون تھانہ کچہری میں خوار ہو گا یعنی میاں یہاں تک تو لے آیا آگے آپ بھگتو ۔
تیسرا دورہ بھگتے آدھا گھنٹہ گزرا تھا کہ مسیحائے انسانیت یعنی ڈاکٹر صاحب تشریف لے آئے اگرچہ کہ چہرے سے قصاب معلوم پڑتے تھے مگر روئے زمین پہ مجھے اس وقت ان سے زیادہ پرنور اور فرشتہ کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ میں سٹنگر میزائل کی طرح اڑا اور کسی بی کلاس فلم کی ایکسٹرا کی طرح ڈاکٹر صاحب کے قدموں میں جا پڑا ۔اس اچانک حملے سے ڈاکٹر صاحب گھبرا کر اچھل پڑے مگر میں اب اذیت برداشت کرتے کرتے عاجز آ چکا تھا لہٰذا اس قصاب کے قدموں سے پیر تسمہ پا کی مانند پیوست ہو گیا اور رو رو کر داستان غم سنانے لگا۔ ڈاکٹر نے تماشہ ختم کرنے کے لیے اور اپنے پاوں آزاد کرانے کے لیے مجھے معائنے کے کمرے میں آنے کو کہا۔
صاحبو! پس ثابت ہوا کہ تماشا ہمیشہ سے مطلوبہ نتائج کے حصول کا بہترین ذریعہ رہا ہے اتنا کہ آپ کسی سربراہ مملکت کو بھی اس کے ذریعے گھر واپسی کی راہ دکھا سکتے ہیں بھلے بعد میں وہ ہر جگہ “مجھے کیوں نکالا” کا سلوگن تھامے ایک اور تماشہ کرتا نظر آئے ۔ خیر ! ڈاکٹر صاحب نے مجھے ٹھونک بجا کر دیکھا اور ایک عجیب انداز میں مسخرے کی مانند بولے ” آہا! یہ تو زہر خورانی کا معاملہ معلوم ہوتا ہے” میں اس بھیانک انکشاف پہ جہاں لرز کر رہ گیا وہیں اس قصاب کے خسر پر بھی تاو چڑھا کہ اس میں “آہا” کا کیا مقام ہے؟؟ وہ تو بعد میں پتا چلا کہ “آہا” انکا تکیہ کلام ہے ۔ ” مگر میں نے خود کشی کی کوئی کوشش نہیں کی ڈاکٹر صاحب اور نہ ہی میرا کسی سوئس بینک میں کھاتہ ہے، نہ ہی پاناما کیس میں میرا نام آیا ہے کہ منی ٹریل نہ دے سکنے پر زہر کھا کر جان چھڑا سکوں، خدا کے لیے مجھے بچا لیجئے ” میں زاروقطار روتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کے سامنے دوزانو ہو گیا۔ڈاکٹر نے میرے واویلے پر کان نہ دھرتے ہوئے میری سوکھی بانہہ سے سرنج بھر خون نکالا ، اسے کمپوڈر کے حوالے کر کے مختلف ٹیسٹ کروا لانے کا کہا اور خود میری تفتیش میں مصروف ہو گئے کہ پچھلی رات کیا کیا کھایا اور پیا تھا۔ انہیں تفصیلات بتاتے ہوئے جب میں نیو جرمن دوا خانے کی پڑیوں کے مقام پر پہنچا تو ڈاکٹر صاحب بیٹھے سے کھڑے ہو گئے ” آہا! تو یہ ہے فساد کی جڑ! بڑے میاں جانے تم لوگوں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ ریس میں دوڑنے کی بھی ایک عمر ہوتی ہے۔۔ اب “نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں ” کے مقام پر اگر تم خود کو اسپ تازی جانتے ہو تو ماسوائے ذلالت کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ” واقعی! ذلالت کا یہ جدید چال چلن بہت سوں کو خوار کر چکا ہے اور مزید بھی کرتا ہی رہے گا۔ ڈاکٹر صاحب کا بیان عالمانہ جاری ہی تھا کہ کمپوڈر خون کے نمونے کا نتیجہ لیے اندر داخل ہوا ۔ اس نے پرچہ ڈاکٹر صاحب کی میز پہ دھرا اور ڈاکٹر صاحب نے اسے پڑھتے ہوئے مجھ پر نیوکلیائی ہتھیاروں کا حملہ شروع کیا” آہا! پارہ، گندھک، ہائی پوٹینسی سٹیرائیڈز، مرکیورک آکسائیڈز، پھٹکڑی۔۔۔۔” وہ ایک سانس میں ایسے دھاتوں کے نام گنوا رہے تھے گویا میں کوئی کان ہوں ۔ ” بزرگوار آپ کے خون میں یہ سب اجزا شامل پائے گئے ہیں اور اگر مزید کچھ برس کی زندگی چاہتے ہیں تو معدہ کی دھلائی کرنی ہو گی۔بصورت دیگر آپ اپنے معدے کے ساتھ ساتھ گردوں سے بھی فارغ ہو رہیں گے ۔
پھر تو گویا چراغوں میں روشنی نہ رہی اور میں نے اپنے آپ کو مکمل طور پر ڈاکٹر صاحب کے حوالے کر دیا کہ جو مزاج یار میں آئے۔ اگلے کچھ گھنٹوں تک جو ذلالت میں نے اٹھائی اسکا احوال پھر کبھی سہی، قصہ مختصر جب معدے کی دھلائی کے بعد میری آنکھ کھلی تو میں ہسپتال کے بستر پہ دراز تھا ۔منہ میں ایک واہیات سی نلکی ٹھنسی ہوئی تھی اور نصف درجن نالیاں، سوئیاں اور پٹیاں میرے تن خستہ میں پیوست تھیں ۔
سامنے کرسی پر بیگم سوجھی ہوئی آنکھیں لیے بیٹھی تھی۔ مجھے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے دیکھ کر وہ جھٹ سے میرے پاس لپک آئی۔ اور میرا ڈرپ سے سجا ہوا بازو ہلا ہلا کر “اے میاں ٹھیک تو ہو، مجھے پہچان تو رہے ہو ناں “کا راگ الاپنے لگی۔ اب اگر میرے منہ میں نلکی نہ ٹھنسی ہوتی تو میں اس کم عقل گائے کو سمجھاتا کہ احمق! دھلائی معدے کی ہوئی ہے، یادداشت کی نہیں ۔مگر اس وقت بے بس تھا ۔
خدا خدا کر کے شام تک مجھے ان نلکیوں اور سوئیوں سے نجات ملی تو بیگم کی جے آئی ٹی میں پیش ہوا۔واضح رہے کہ ایک اکیلی بیگم سو جے آئی ٹی پر بھاری ہے۔
مگر میں نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں اور اس کے ہر “ہوا کیا تھا” کے جواب میں میں بس یہی کہتا رہا کہ نکڑ کے ہوٹل سے چنے پٹھورے کھا لیے تھے تو طبیعت بگڑ گئی تھی۔ سچ بات بتانے کا متحمل میں کسی صورت میں نہیں تھا کہ اس کے عواقب اور نتائج بے حد بھیانک ہو سکتے تھے جن میں ہڈیوں کی توڑ پھوڑ سب سے کمترین درجے پر تھی ۔ ۔بیگم اگرچہ قائل تو نہیں ہوئی تاہم ثبوتوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ مزید بھی کچھ کہہ نہیں پا رہی تھی ۔ اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ میں دو چار روز کے واسطے ہسپتال میں محو خرام ہوں۔ چوہدری اور حاجی دلبر کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ، اس سے ابھی مجھے آگاہی نہیں ہے ۔ مگر اس ہسپتال کے پچکے ہوئے فوم کے گدے پر لیٹے ہوئے اور ایک کرخت کشمش نما نرس کی تیمار داری سے لطف اندوز ہوتے ہوئے آج کل یہ خیال شدومد سے میرے ذہن میں گردش کر رہا ہے کہ آخر ہماری معاشرتی زندگی کی ترجیحات کیا ہیں؟ اور بطور عوام ہم محض ہجوم کے طور پر کیوں شناخت کیے جاتے ہیں؟ معاشرتی برائیوں، جعل سازیوں اور ناقص حکومتی نظاموں پربھی ہم کمپرومائز کی پالیسی کو کیوں اپنائے ہوئے ہیں؟ ؟
جگہ جگہ کھلنے والے عطائیوں کے دوا خانوں کا کاروبار آخر حکومتی آشیرباد کے بغیر کیسے سہولت سے چل رہا ہے جو کشتوں اور طلوں کی آڑ میں موت کا کاروبار کرتے ہیں ؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم زہریلے مرکبات کی فراہمی کرنے والوں کو اپنے معاشرے میں ایک مسیحا کا سا مقام دئیے ہوئے ہیں ۔۔؟؟
صاحبو! ہمارا ریاستی و عدالتی نظام اس قدر لولا لنگڑا کیوں ہے کہ ہم ایسے کسی بھی معاملے کو کیفر کردار تک پہنچانے کا سوچتے تک نہیں ؟ کیا ہم من حیث القوم ناکارہ تباہ اور مفلوج ہو چکے ہیں؟
صاحبو! فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے میں ان سوالات پہ غور کر کے جواب جاننے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ آپ بھی کیجئے کہ یہ ہمارا قومی فریضہ ہے۔رہے نام اللہ کا جو مالک روز جزا کا ہے!!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں