مداوا۔۔محمد فیصل

غریبِ شہر تو فاقے سے مر گیا عارف
امیرِ شہر نے ہیرے سے خودکشی کرلی!

کہنے کو تو یہ ایک عام سا شعر ہے لیکن اس کے ذریعہ ہمارے معاشرے میں موجود طبقاتی تقسیم کی بخوبی وضاحت کی جاسکتی ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج کی دنیا میں ترقی و خوشحالی کے دعوے عام ہیں لیکن اگر اپنے خول سے نکل کر ماحول کا کھلی آنکھوں سے جائزہ لیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ اس قدر غربت اور کسمپرسی کی حالت میں بھی لوگ زندہ ہیں۔ دور کیوں جائیں، ملکِ عزیز پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے گلی کوچوں میں ہی نکل جائیں تو آدمی عجیب مخمصے کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر آپ شہر کے پوش علاقوں کی سمت دیکھیں تو بلند وبالا عمارتوں اور عظیم الشان شاپنگ سینٹروں کی ایک خوبصورت دنیا آباد دکھائی دیتی ہے۔ وسیع و عریض بنگلوں کے مالک ، نت نئے ماڈل کی مہنگی ترین گاڑیوں پر سوار، زرق برق کپڑوں میں ملبوس افراد کا ایک ایسا طبقہ دکھائی دیتا ہے جس کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ان پر کبھی دکھ اور تکلیف کا گزر بھی نہیں ہوا۔غربت و افلاس کس شے کانام ہے ؟ اس سے نا آشنا یہ متمول گروہ زندگی کی تمام رنگینیوں اور رعنائیوں سے لطف اندوز دکھائی دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں :   بچوں کی کتاب ، پہلا انشاء،سیج ، انشے سیریل ، شارق علی/قسط1

لیکن دوسری جانب آپ شہر کے غریب علاقوں کا رُخ کریں تو اگر آپ کو خالقِ کائنات کی جانب سے حساس دل ودیعت کیا گیا ہے تو اپنے آنسو روکنا آپ کے لئے مشکل ہوجائے گا۔کچرے کے ڈھیر میں اپنا رزق ڈھونڈتے معصوم بچے، بیماریوں سے نڈھال دوائیوں سے محروم ضعیف افراد، گھر کا ٹھنڈا چولہا گرم کرنے کی آس میں بیٹھی مجبور  خواتین اور روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھرتے بے شمار افراد اسی ماحول اور معاشرے کا حصہ ہیں جس میں ہم اور  آپ  سانس لیتے ہیں۔ اس شہر میں جہاں منوں کے حساب سے فاضل کھانا ہوٹلوں، شادی ہالوں اور بوفے ریسٹورینٹس میں  کچرے میں پھینک دیا جاتا ہے وہیں لوگ کھانے کے ایک ایک نوالے کو ترس رہے ہیں۔ یہاں شاپنگ کے نام پرروزانہ بلا ضرورت لاکھوں روپے اُڑا دیئے جاتے ہیں لیکن ایسے افراد کی تعداد بھی کم نہیں جن کو تن ڈھانکنے  کو  بھی پورا لباس میسر نہیں۔اگر ایک  جانب  ایسے امیر لوگ بھی ہیں جو معمولی نزلہ زکام کا علاج بھی مہنگے سے مہنگے ڈاکٹروں سے کرواتے ہیں وہیں دوسری طرف ایسے مفلوک الحال مریض بھی موجود ہیں جو کینسر جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہونے پر بھی دوا خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

یہ  سب  اپنی  جگہ  زندگی کے تلخ  حقائق  ہیں  لیکن ایسی صورتحال میں ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ ہم کس طرح اس بھوک اور افلاس کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟ کیا ہماری توجہ اور لگن سے معاشرہ کی حالت بہتر ہو سکتی ہے؟ یہ سوالات ایسے ہیں جن کا جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر ہم ابتدائے آفرینش سے تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہمیشہ دنیا میں امیر اور غریب دونوں طبقوں کا وجود رہا ہے۔ یہ دونوں گروہ ہمیشہ زندگی کی دوڑ میں شریک رہے ہیں۔ قادرِ مطلق کی حکمتِ بالغہ کے تحت دنیا میں یہ طبقاتی تقسیم ہمیشہ موجود رہی ہے۔ لہٰذا اس فکر میں پڑنا تو عبث ہے کہ دنیا سے غربت کا خاتمہ ہوجائے۔ ساتھ ہی یہ سوچ بھی نہایت مذمت کے لائق ہے کہ غربت نہ سہی غریب کا ہی خاتمہ کردو کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔

یہ بھی پڑھیں :  احوال ذلالت بطرز جدید چال چلن۔۔مریم مجید/قسط1

لیکن اس بات کی کوشش ضرور کی جاسکتی ہے کہ کم از کم غریب کو بھی ضروریاتِ زندگی کی بنیادی سہولتیں دستیاب ہوں۔ کوئی شخص بھی رات کو بھوکا نہ سوئے۔ ہر ایک کو تن ڈھانکنے کو کپڑا میسر ہو۔ بیمار کے علاج کے لئے دوا بروقت مہیا ہو۔ یہ سب امور ایسے ہیں جن سے ہر شخص بخوبی واقف ہے۔اور بحیثیت مسلمان یہ ہماری ذمہ داری بھی ہے کہ معاشرہ کے کمزور طبقہ کو نظر انداز کرنے کے بجائے اپنی استطاعت کے مطابق ان کی ہر ممکن مدد کریں۔ دینِ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات کا مالک ہے۔ اس کی تعلیمات کو اگر تہہ دل سے اپنایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے مسائل حل نہ ہوں۔ آئیے ان امور کا مختصر جائزہ لیں جن پر عمل پیرا ہونے سے ہماری مشکلات دور ہو سکتی ہیں۔

اسلام کے بنیادی ارکان میں زکوٰۃ ایک اہم رکن ہے۔زکوٰۃ کی ادائیگی سے جہاں ایک فرض کی تکمیل ہوتی ہے وہیں دوسری طرف یہ عمل مال کی حفاظت کا ضامن بھی ہے۔ انسان زکوٰۃ کے ذریعہ نہ صرف اﷲ تعالیٰ کے غضب سے بچتا ہے  بلکہ  اس فریضہ کی برکت سے قحط سالی اور بارش کے فقدان جیسی سماوی آفتوں سے بھی محفو ظ رہتا ہے ۔ غریبوں اور ناداروں کی مدد کے لئے زکوٰۃ کا نظام ایک نعمتِ خداوندی ہے جس کے تحت بغیر دستِ سوال دراز کیے  حاجت مند کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔ زکوٰۃ کے علاوہ عشر، صدقۂ فطر، کفارات، واجب و نفلی صدقات جیسے بہت سے طریقے اسلام میں مشروع ہیں جن کے ذریعہ غربت کے بوجھ کو کم کیا جا سکتا ہے۔

ایک حدیثِ مبارکہ میں حضرت اسماء رضی اﷲ عنہا سے نبی کریم حضرت محمد ﷺ کا ارشادِ مبارک مروی ہے کہ”( راہِ خدا میں) خرچ کرتی رہو اور گن گن کر مت رکھنا ورنہ اﷲ تعالیٰ بھی تجھ کو گن گن کر دیں گے(یعنی خوب زیادہ نہ ملے گا) اور مال کو بند نہ رکھنا ورنہ اﷲ تعالیٰ (بھی) اپنی بخشش روک دیں گے، جہاں تک ہو سکے تھوڑا بہت (حاجت مندوں پر) خرچ کرتی رہو”۔ یہ بات قابلِ لحاظ ہے کہ شریعت ان مواقع خیر میں خرچ کرنے میں بھی پہلے ترجیح قریبی عزیزوں اور رشتہ داروں کو دیتی ہے اور اس کو زیادہ ثواب کا باعث قرار دیتی ہے۔ اس کے بعد پڑوسیوں کا حق مقدم ہے اور ان کا خیال رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس بارے یہاں تک حدیثِ پاک میں آتا ہے کہ “جب تو شوربہ پکائے تو اس میں پانی زیادہ ڈال دے اور(اس میں سے) اپنے پڑوسیوں ( کے پاس بھیجنے) کا خاص دھیان رکھ” ۔

یہ بھی پڑھیں :  مکافات ۔۔آصف اقبال

اس طرح درجہ بدرجہ معاشرہ کے ضرورت مند افراد کا خیال رکھنے کی تاکید اسلام میں کی گئی ہے۔خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کوتو اس بات کا اتنا اہتمام تھا کہ فرماتے تھے” اگر فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا مرجائے تو عمر سے اس کی پوچھ ہوگی”۔اندازہ لگائیں کہ جس ماحول اور معاشرہ میں جانوروں تک کا اتنا خیال رکھا جارہا ہو وہاں انسانوں کی حالت کتنی بہتر ہوگی۔ اس لئے جب تک مسلمانوں میں زکوٰۃ و صدقات کی وصولی و تقسیم کا نظام درست بنیادوں میں کام کرتا رہا ، خوشحالی عام لوگوں کے بھی دسترس میں رہی۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آیا کہ زکوٰۃ لینے والا ڈھونڈنے سے بھی مشکل سے ملتا تھا۔ یہ بات ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنا ان پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث کی تصریحات کو سامنے رکھا جائے تو یہ ان کا حق ہے۔ نیز اربابِ مال کو کہا گیا کہ اپنے مال میں سے واجب و نفلی صدقات کو نکالنا ہی ضروری نہیں بلکہ مستحق افراد کو تلاش کرکے ان تک پہنچانا بھی ضروری ہے۔ بقول حضرتِ اقدس عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کہ” یہ غرباء و مساکین تو ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں کہ ہماری کرنسی ہمارے وطنِ اصلی یعنی آخرت میں ٹرانسفر کررہے ہیں”۔

یہاں ایک بات جملۂ معترضہ کے طور  پر پیشِ خدمت ہے کہ اسلام افراط اور تفریط سے پاک دین ہے۔ اس میں جہاں امراء و اغنیاء  کو ضرورت مندوں کی حاجت روائی کا حکم دیا گیا ہے وہیں مساکین کو بھی عزتِ نفس کے ساتھ رہنے اور ذلتِ سوال سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں جس شخص کے پاس ایک دن گزارہ کا سامان موجود ہو اس کے لئے سوال کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ نہ صرف بے جا سوال کو حدیث میں ذلت کہا گیا بلکہ جس شخص کے پاس بقدرِ نصاب مال موجود ہو اس کے لئے بغیر سوال کے بھی صدقہ لینا حرام قرار دیا گیا۔ غریبوں کو محنت مزدوری کی ترغیب دی گئی۔ اپنے ہاتھ کی کمائی کو باعثِ فضیلت قرار دیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ بھی پڑھیں :  عورت کی امامت: کہیں یہ کسی بڑے فتنے کا آغاز تو نہیں؟۔۔سہیل انجم

مذکورہ بالا تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ اگر صحیح ترتیب پر مال و دولت کی تقسیم شرعی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جائے تو جہاں حقدار کو اس کا حق باعزت طریقہ پر دستیاب ہو وہیں معاشرہ میں ارتکازِ دولت کے غلط رجحان کی بیخ کنی بھی ممکن ہو جس کی بدولت آج امیر تو امیر تر ہوتا جا رہا ہے جبکہ غریب افراد غربت کی آخری لکیر پر سسک سسک کر زندگی بسر کر رہے ہیں۔اس مثبت سمت میں جلد قدم اٹھانا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے اور اسی راستے پر چلتے ہوئے ہم ملک و قوم کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرسکتے ہیں۔ معاشرہ میں انتشار کی فضا کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ بدامنی، لوٹ مار، قتل و غارتگری الغرض ہر معاشرتی برائی کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس کے پیچھے امیری و غریبی کا عدم توازن کارفرما نظر آتا ہے۔ لہٰذا اس ضمن میں سب مل کر کوشش کریں کہ ملک و معاشرہ کو سدھارنے میں ہمارا بھی حصہ لگ جائے۔ابھی بھی وقت ہمارے ہاتھ میں ہے ورنہ کہیں۔۔
ایسا نہ ہو کہ درد بنے دردِ لادوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply