بنت حوا آج بھی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
بنت حوا آج تو ملالہ ہے
پھر بھی کہتی ہوں زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے
بنت حوا آج تو شرمین عبید چناٰئے ہے
پھر بھی کہتی ہوں کہ زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے
بنت حوا آج تو ویمن اسکواش چیمپیئن ماریہ طور اور جانے کیا کیا ہے پھر بھی کہتی ہوں کہ
زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے

جی ہاں میں کہتی ہوں
کیونکہ یہ صرف تصویر کا ایک رخ ہے
جب کہ تصویر کا دوسرا رخ ہمیں بتاتا ہے کہ ملالہ امن کا نوبل پرائز لے بھی لے تو ہمارے معاشرے میں یہودی ایجنٹ قرار دی جاتی ہے
شرمین عبید چنائے اگرچہ آسکر ایوارڈ لے بھی لے تو
مغلظات سننا اس کا مقدر ہے
ماریہ طور جتنی بھی بڑی کھلاڑی بن جائے ہمارا معاشرہ اسے قبول نہیں کرے گا
بنت حوا آج بھی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے
اگر چاہوں تو اس موضوع پر سندھ کی کسی ماروی
پنجاب کی زرینہ
کے پی کے کی زرمینہ
یا
بلوچستان کی کسی روزینہ کی کہانی لکھ کر ہر قاری کو رلا سکتی ہوں
لیکن
لاحاصل
لاحاصل ہوگا
کیونکہ میری نظر میں یہ کام بالکل اس طرح ہے جیسے ہم کینسر زدہ معاشرے کا علاج عام بخار سمجھ کر کر رہے ہیں
یوں بھی یہ کام تو اور بھی بہت سے لوگ کر رہے ہیں اور اپنی عورتوں کے تیزابی چہرے دکھا کر اغیار سے خوب داد وصول کر رہے ہیں
لیکن
بنت حوا آج بھی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے
اس موضوع پر ہر سال سیمنارز سجانے کے بجائے اس مسئلے کے حقیقی حل کی جانب بڑھنا ہوگا
اس مسئلے کا حقیقی حل صرف اور صرف ابن آدم کے احساس برتری کا علاج ہے
جو کہ ایک psychological بیماری ہے
ابن آدم سے انتہائی معذرت کے ساتھ
لیکن میرا مقصد اس برتری پر ابن آدم کو کمتر ثابت کرنا نہیں جوکہ اللہ کریم نے انھیں By default عطا کردی ہے
جب اللہ کریم فرماتا ہے
الرجال قوام: مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے، تو ہر ذی شعور عورت نہ صرف اس پر من و عن ایمان رکھتی ہے بلکہ مرد کو اپنے گھر کا سربراہ اور سر کا تاج مانتی ہے۔
لیکن ہاں، میرا مقصد مرد کی ان خود ساختہ بڑائیوں کا قلع قمع ضرور ہے جن میں رہ کر وہ عورت کو کمتر سمجھتا ہے
ذرا غور کیجیے ابن آدم کی چالاکیاں کہ اس نے کس خوبصورتی سے انسانی فطرت میں موجود برائیوں کو بنت حوا کی ذات کا حصہ بنا کر اسے زنجیروں میں جکڑ ڈالا
وہ اس طرح کہ
مرد عورت کو معاشرے میں کمتر ثابت کرنے کے لیے اسے کمزور ہونے کا طعنہ دیتا ہے
لیکن قارئین اب بولتا ہے شعور میرا
اب سوچتی ہے فکر سلیم
میرے شعور نے عورت کو دیے جانے والے اس کمزوری کے طعنے پر مجھے اپنے رب سے سوال کرنے پر اکسایا
تو رب کریم کی طرف سے قرآن میں جواب آیا
خلق الانسان ضعیفا
اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے
اس پر بھی میری فکر نے بس نہ کیا اور تجسسس کے ذریعے رب سے مزید سوالات کر ڈالے
پھر جب مرد عورت کو جلد باز ٹھہرا کر خود کو بردبار سمجھتا ہے
تو اللہ کریم فرماتا ہے
خلق الانسان من عجل
انسان جلد باز پیدا کیا گیا ہے
جب مرد عورت صرف عورت میں بے صبری پاتا ہے تو جواب آتا ہے
ان الانسان خلق ھلوعا یقینًا انسان بے صبر پیدا کیا گیا ہے
اس کے علاوہ بھی ناانصافی، ناشکری اور بخل جیسی برائیوں کو جب مرد عورت کے نام کرکے اس کا معاشرتی استحصال کرتا ہے تو رب کریم ان برائیوں کو بھی لفظ انسان سے منسوب کرتا ہے
اور آخر میں سب سے اہم خصوصیت، فہم و فراست
جس کی بناء پر انسان اور حیوان میں فرق کیا جاتا ہے
اسے بھی جب مرد صرف اپنی میراث سمجھ کر عورت کو عقل سے پیدل اور کم فہم قرار دیتا ہے تو رب کریم انہ کان ظلوما جھولا: انسان ہی ظالم اور جاہل ہے
کہہ کر انسانی صفت متعارف کرواتا ہے
اب جب یہ فیصلہ ہوگیا کہ یہ تمام صرف عورت میں نہیں بلکہ انسان میں موجود ہیں تو میں فیصلہ قارئین پر چھوڑتی ہوں کہ
ابن آدم یا تو یہ احساس برتری چھوڑ دیں
یا پھر خود کو انسان سمجھنا چھوڑ دیں
میرا یہ ماننا ہے کہ اگر بنت حوا کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کروانا ہے تو ابن آدم کے احساس برتری کا علاج کروانا ہے، بصورت دیگر آپ جتنے بھی مغربی حمایت یافتہ قوانین پاس کروا لیں، نتیجہ یہی ہوگا:
بنت حوا زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی ہے اور رہے گی۔۔۔۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں