• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہمارا نظام ِ تعلیم اور “چھوٹوں” کی بڑھتی تعداد۔۔رانا اورنگزیب

ہمارا نظام ِ تعلیم اور “چھوٹوں” کی بڑھتی تعداد۔۔رانا اورنگزیب

آج بالوں کی سیٹنگ کروانے کے لئے باربر شاپ پر گیا اتوار کی وجہ سے کافی رش تھا بیٹھے بیٹھے   دکان کا تفصیلی جائزہ لینا شروع کردیا۔دکان پر دو کاریگر ایک استاد جی یعنی مالک خود ،دوچودہ پندرہ سال کے بچے جو ابھی ہاف بوائلڈ ہیں۔ساری دکان میں موجود سامان اور انسانوں میں سب سے قابل توجہ چیز صرف ایک تھی وہ تھا بمشکل دس سال کا خوبصورت اور معصوم چہرے والا ابوبکر۔ اس بچے کو کام کرتے دیکھ کر مجھے ایک جھٹکا لگا مجھے لگا کہ میرا ارمان عبداللہ یہاں آن کھڑا ہوا ہے۔اس سے پہلے کہ میں بچے کے ساتھ کوئی  بات چیت کرتا استاد جی کے منہ کا گٹر ابلا اس میں سے ایسی تعفن زدہ غلاظت باہر نکلی کہ الامان الحفیظ۔

استاد نے بچے کے گال پر تین چار زور دار طمانچے جڑے ،پھر ایک لات ماری، بچہ دور جا گرا۔میں نے بچے کو پکڑ کے اٹھایا اس کو چمکارا، آنسو پونچھے پھر پوچھا بیٹا یہاں کام کیوں کرتے ہو؟۔۔ تو بولا ابا کہتے ہیں پڑھنے کے لئے پیسے نہیں ہیں تم کام سیکھ لو۔ اب میں نے استاد سے پوچھا کہ یار اتنی بے دردی سے بچے کو مارتے ہو شرم نہیں آتی۔

یہ پڑھیں   کراچی پولیس۔۔ ایک سند یافتہ مافیا۔۔منصو رندیم

استاد بولا، سر جی! اس کا باپ کام سیکھنے کے لئے چھوڑ گیا ہے اور یہ کھیل میں مشغول ہو کر کام پر توجہ نہیں دیتا اس لیے مارتا ہوں کہ یہ کام سیکھ لے اپنے جوگا ہو جاۓ۔میں نے اس کو تھوڑا بہت سمجھایا کہ یار ایسے تشدد نہ کیا کرو پیار سے سمجھا لیا کرو۔خیر جب میری باری آئی  تو رش کافی کم ہوچکا تھا استاد بھی شرمندگی محسوس کر رہا تھا اس نے بچے کو پاس بلایا پیار سے اپنے ساتھ لگا کے بیس روپے نکال کے دئیے اور کہا جا پتر کچھ کھا پی کے آ۔

اس کے جانے کے بعد استاد نے مجھ سے معذرت کی ،کہنے لگا سر کیا کریں ماریں نہ تو کام نہیں سیکھتے۔ہم نے استاد کے چھتر کھاکھا کے کام سیکھا اب اپنا روزگار ہے بہترین کما رہے ہیں۔ ستائیس دسمبر 2017 کے دن برادرم عبدالجبار دریشک کا کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں عبدالجبار صاحب رقم طراز ہیں کہ” مجھے کسی کام کے سلسلے میں کہیں جانا ہوا تو رستے میں سکول ٹیچر استاد محمد صدیق صاحب سے ملاقات ہوئی  جو سکول کی طرف پیدل جارہے تھے۔میں نے ان کو لفٹ دی تو ان کے ساتھ ایک چھوٹا بچہ بھی تھا۔جس کے بارے استاد محترم نے بتایا کہ میرے پڑوسی کا بچہ ہے اس کو پڑھنے کا شوق ہے والد مزدور وغیرہ ہے اس لیے اس کو میں سکول جاتے ہوۓ ساتھ لے جاتا ہوں اور واپسی پر ساتھ ہی لے آتا ہوں۔بچے کو گھر پہنچا کر پھر میں اپنے گھر جاتا ہوں۔میں نے استاد محترم کو نہیں دیکھا نہ ان سے ملا ہوں مگر ان سے دور بیٹھے بھی مجھے ان سے عقیدت محسوس ہوئی۔اور بے ساختہ ان کے لئے دل سے دعائیں نکلیں۔میں دل ہی دل میں ان کی عظمت کو سلام پیش کیا۔”

ستائیس دسمبر کے روزنامہ خبریں میں ایک خبر چھپی جس کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ ایک پہلی جماعت کا طالبعلم جو کہ ایک رکشہ ڈرائیور کا بیٹا بتایا جاتا ہے وہ ٹھنڈ میں کپکپاتا ہوا سکول میں داخل ہوا جہاں پہنچتے ہی اس کو سکول کی ملازمہ نے کلہاڑی پکڑاتے ہوۓ حکم دیا کیونکہ آج سردی  زیاده ہے اس لیے درخت سےلکڑیاں کاٹ کے لاؤ تاکہ آگ جلائی  جا سکے۔وہ طالبعلم جو اپنے والدین کا لاڈلا بچہ ہے اس نے لکڑیاں کاٹنے سے انکار کرتے ہوۓ کہا کہ میں چونکہ یہاں تعلیم حاصل کرنے آتا ہوں نہ کہ لکڑ ہارے کی تربیت لینے اس لیے میں یہ کام نہیں کرسکتا۔اس غریب کی اولاد کے منہ سے انکار سنتے ہی ملازمہ اندر کی طرف دوڑی اور پرائمری سکول کی خاتون ٹیچر کو سارا واقعہ سنایا۔ اب ٹیچر جو کہ اپنی جماعت کی انچارج بھی تھی اس نے طالبعلم کو بلوایا اور اس سے پوچھا کہ تم نے لکڑیاں کاٹنے سے جواب دیا ہے تو طالبعلم نے وہاں بھی جواب دے دیا۔اب استانی محترمہ نے پاس رکھی چھڑی اٹھائی  اور منہ سے کف اڑاتے ہوۓ اس پہلی جماعت کے بچے پر برسانی شروع کردی۔مارتے ہوۓ محترمہ نے نہیں دیکھا کہ بچے کے جسم کے کس کس حصے کو چھڑی نشانہ بنا رہی ہے۔

یہ پڑھیں   ڈاکٹر حسن ظفر عارف کے نام خط۔۔اظہر مشتاق

اچانک ایک چھڑی بچے کی داہنی آنکھ میں لگی اور اس کی روشنی لے گئی۔مگر استانی محترمہ کو علم ہی نہیں ہوا کہ اس نے کیا ظلم ڈھا دیا ہے۔بچے کی چیخ وپکار کو اس نے معمول کی ڈرامہ بازی پر محمول کیا اور مارتے مارتے تھک جانے کے بعد اس کو سخت سردی میں کمرہءجماعت سے باہر کھڑا کردیا۔جب بچہ تکلیف کی تاب نہ لاتے ہوۓ بیہوش ہوگیا تو اس کے کسی محلے دار نے بچے کے بڑے بھائی کو اطلاع کردی اس نے اپنے باپ کو بتایا تو وہ سکول پہنچا، بچے کو اٹھا کے ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹر نے اس کا علاج کرنے سے معذرت کرتے ہوۓ بچے کو جنرل ہسپتال لے جانے کا مشورہ دیا۔جب دکھی باپ نے تھانے میں رپورٹ کروانے کی کوشش کی تو کسی بھی جگہ ا س کی نہیں سنی گئی بلکہ پولیس نے   لیت ولعل سے کام لیا۔پھر اس باپ کو علاقے کے کھڑپنچ صلح کے لئے سمجھانے لگے۔کسی نے بھی سکول انتظاميہ یا مذکورہ استانی سے باز پرس کرنے کی جرات نہیں کی۔

یہ واقعہ کسی افریقی جنگل میں پیش نہیں آیا۔نہ صحراۓ گوبی کے دور افتادہ کسی کونے کا واقعہ ہے۔یہ پاکستان کے بھی کسی دور دراز یا پسماندہ علاقے کی خبر نہیں بلکہ پڑھے لکھے پنجاب کے اعلیٰ تعلیم یافتہ وزیراعلیٰ کی اسمبلی کے سپیکر جناب رانا محمد اقبال کے شہر پھول نگر المشہور بھائی  پھیرو کی کہانی ہے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ ضلع قصور کا مئیر صوبائی اسمبلی کا سپیکر اور بہت سے دوسرے قدآور سیاسی بت اسی شہر میں ایستادہ ہیں مگر کسی کے کان پر جوں نہ رینگی۔ہاں اسی شہر میں کوئی قبضہ مافیا، کوئی  منشیات فروش، کوئی جوے کا اڈا چلانے والا پکڑا جاۓ تو انہی سیاسی بتوں میں جان پڑجاتی ہے اور ان معززین کی گرفتاری پر بدذات خود تھانے پر چڑھائی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔جائیں جا کے معلوم کریں ان سیاسی شعبدہ بازوں کے علم میں بھی یہ واقعہ ہے یا نہیں؟)

ان تین واقعات میں ہمارے پورے معاشرے کا چہرہ نظر آتاہے۔پڑھے لکھے پنجاب کا نعرہ لگانے والے خادم اعلیٰ سے مار نہیں پیار تک کا سفر سب ان واقعات میں سمویا ہوا ہے۔خادم اعلیٰ نے اپنی تصوير ہر کتاب پر لگا کر سمجھ لیا کہ پنجاب کے تمام بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر آچکے ہیں۔جبکہ اصل صورتحال بہت خراب ہے جس ملک میں کروڑوں بچے بغیر تعلیم کے جوان ہوں گے، مہنگائی اور بیروزگاری کا شکار ہوں گے، وہاں سٹریٹ کرائم اور منشیات کے استعمال کا ایک طوفان آئےگا کہ اس کو روکنا پھر کسی کے بس میں نہ ہوگا۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری قیادت صرف ڈنگ ٹپاٶ اور چمک دمک والی پالیسیاں اختیار کرکے خود کو لمحہ موجود میں زندہ رکھنا چاہتی ہے۔کوئی لیڈر کوئی رہبر یہ نہیں چاہتا کہ آئندہ نسلیں اس کی تعریف کیا کریں اور دعائیں دیں۔ساری قوم سارا ملک جگاڑ پر چل رہا ہے۔

سرکاری سکولوں کی حالت زار پر کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں سے خبر لگ جاتی ہے جبکہ پرائیویٹ اور نجی تعلیمی اداروں کے بارے کوئی  اعدادوشمار شاید جمع ہی نہیں کیے جاتے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق دوکروڑ بچے سکول نہیں جا رہے، جن کی عمریں پانچ سے پندرہ سال کے درمیان ہیں۔پچھلے سال حکومتی دعوؤں  کے مطابق پنجاب میں پچیس فیصد  زیادہ  بچوں نے سکولوں کا رخ کیا۔اس میں سچ کتنا ہے اور زبانی جمع خرچ کتنا، اس کا علم تو اللہ کو ہوگا۔مگر اساتذہ کی کمی اور سرکاری سکولوں کی حالت زار ان دعوؤں کی قلعی کھولتی نظر آتی ہے۔بچوں کو سرکاری سکولوں میں جسمانی تشدد اور ناکافی سہولیات پڑھائی سے باغی کرنے کو کافی ہیں اوپر سے سکول میں اساتذہ کی غیر حاضری سونے پر سہاگے کا کام کرتی ہے۔

دیہاتی علاقوں کے زیادہ تر بچے ساتویں آٹھویں جماعت سے ہی سکول چھوڑ دیتے ہیں۔کم وبیش ساٹھ فیصد بچے بمشکل میٹرک کرتے ہیں۔کالج میں جانے والے بچوں کی  تعداد انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔ نجی تعلیمی ادارے اپنی من مانی تعلیمی پالیسی پر عمل پیرا ہیں گلی گلی میں کھلے یہ تجارتی مراکز رشوت اور سفارش کے زور پر بچوں کو بورڈ تک لے جاتے ہیں۔پاکستان کے تعلیمی نظام پر دوسرا بڑا سوالیہ نشان یہ کہ ایک بچہ جو اپنی زندگی کے دس بارہ سال ضائع کرکے نکلتا ہے۔وہ سکول سے کیا سیکھ کے نکلا۔نہ اس کی اخلاقی تربیت ہوتی ہےنہ وہ کسی کام کے قابل ہوتا ہے۔یہ سکول ہمارے ایک صحت مند اور چاک وچوبند بچے کو معاشرے کا ناکارہ اور بے کار پرزہ بنا کے باہر کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیتے ہیں۔اگر ہمارے سکولوں میں بچوں کو فنی تعلیم دی جاۓ کہ جب وہ سکول سے نکلے تو کسی ہنر اور پیشے کا  ماہر ہو تو معاشرے میں بیروزگاری بے چینی اور سٹریٹ کرائم میں خاطر خواہ کمی لائی  جا سکتی ہے۔

یہ پڑھیں   کراچی پولیس یا مافیا؟ عارف خٹک

ایک بچہ میٹرک یا ایف اے کرنے بعد کسی فیکٹری ،کمپنی، دکان، سٹور وغیرہ پر کام کرتا ہے اس کو کام سیکھنے کے لئے اپنے بہت سے دن مہینے سال ضائع کرنے پڑتے ہیں۔اگر وہی کام وہ میڑک تک یا میٹرک کے بعد کالج میں سیکھ کے نکلے گا تو اس کے پاس اس کام کا ڈپلوما سند یا سرٹیفکیٹ ہوگا وہ تعلیم چھوڑتے ہی معاشرے کا ایک کارآمد مکینک کاریگر ویلڈر کارپینٹر وغیرہ ہوگا تو سوچیے معاشرے میں تبدیلی کتنی جلد آۓ گی۔جب آپ سکول میں ہی اس کو کوئی  ہنر سکھائیں گے تو والدین کسی بچے کو کسی باربر شاپ ورکشاپ موٹر مکینک وغیرہ کے پاس لات مکے کھانے نہیں بھیجیں گے بلکہ خوشی خوشی بچوں کو سکول بھیجیں گے تاکہ انکا بچہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سیکھے۔ورنہ گدھے پر کتابیں لادنے سے گدھا گدھا ہی رہے گا کوئی منشی منقی  یا عالم فاضل نہیں بنے گا۔

خادم اعلیٰ صاحب  زندگی اور حکومت کا کچھ اعتبار نہیں کتنے دن گھنٹے مہینے سال چلے اگر تعلیمی اصلاحات کر جائیں گے تو رہتی دنیا تک آپ کا نام لیا جاۓ گا۔ورنہ سڑکیں اور میٹرو آپ کے قد میں اضافہ نہیں بلکہ لعنت کا باعث بن جائیں گی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا، جب لاد چلے گا بنجارہ!!!

Facebook Comments

رانا اورنگزیب
اک عام آدمی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply