میرے بچے ،میرے نونہال۔۔عظیم الرحمٰن عثمانی

یہ پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی بھرمار بہت بعد میں ہوئی ہے، سب سے پہلے پی ٹی وی کے ساتھ جو پہلا نمایاں پرائیویٹ چینل لانچ ہوا تھا اس کا نام ‘این ٹی ایم’ تھا اور جو شالیمار ٹیلی ویژن نیٹ ورک کا حصہ سمجھا جاتا ہے. ہماری انجینیرنگ کے دور میں اسی چینل کے زیر اہتمام ایک بہت بڑے تقریری مقابلے کا انعقاد کیا گیا. یہ مقابلہ کراچی کی معروف درسگاہ ‘ڈاؤ میڈیکل کالج’ میں منعقد ہوا. اپنی یونیورسٹی کی جانب سے مجھے اس میں شرکت کیلئے بھیجا گیا. یہ مقابلہ سب مقررین کیلئے اس لئے زیادہ اہمیت کا حامل تھا کہ اسے ٹی وی پر آنا تھا اور اس زمانے میں دو ٹی وی چینلز کی موجودگی میں ٹی وی پر آجانا بڑی بات تھی.

ہم جب مقابلے میں شرکت کی نیت سے نکلے تو ہماری یونیورسٹی کلاس کے دوستوں کا گروپ ساتھ چلنے پر مصر ہوگیا. ان کیلئے ایک تو دوست کی تقریر تھی، پھر ٹی وی پر آنا تھا اور سب سے بڑھ کر اس کالج میں آنکھیں سیکنا تھا جہاں لڑکیوں کی بھرمار تھی. ایسے میں کون کافر جانے کو تیار نہ ہوتا؟ لہٰذا ہمارے ساتھ ہمارے قریبی دوستوں کا ایک گروپ بھی بطور سامعین جاپہنچا. آڈیٹوریم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا. نشستیں بھری ہوئی، لڑکے لڑکیاں زمین اور سیڑھیوں تک بیٹھے ہوئے تھے. جنہیں وہاں بھی جگہ نہ ملی وہ کھڑے یا لٹکے ہوئے تھے. گویا دیکھ کر بندہ خدا عبرت لے کہ روز آخر کیسا نفسا نفسی کا عالم ہوگا؟

اسٹیج کے برابر میں ایک ریکارڈنگ روم قائم تھا. ہمارا دیگر شرکاء کی طرح ہلکا پھلکا میک اپ بھی کردیا گیا. مقابلے کا آغاز ہوا تو دو اعلانات یکے بعد دیگرے سامنے آئے. پہلا اعلان ججز کی جانب سے تھا کہ وہ لفاظی یا فقط جوش خطابت دکھانے والے مقررین کو انعامات کی فہرست سے خارج کردیں گے اور صرف ان مقررین کو پہلا دوسرا تیسرا انعام دیں گے جو خالص دلائل و منطق سے اپنی بات پیش کرے. دوسرا اعلان انتظامیہ کی جانب سے ہوا کہ بہترین ہوٹنگ کرنے والے کو بھی ایک پرائز دیا جائے گا. یہ دونوں اعلانات مجھے آغاز ہی میں ایک دوسرے کی ضد معلوم ہوئے. سامعین دلائل سے مزین سنجیدہ تقاریر اسی وقت سماعت کرتے ہیں جب انہیں نظم و ضبط میں باندھا جائے. یہاں تو ہوٹنگ کی کھلی چھٹی دے کر پروگرام کی قبر کھود دی گئی تھی.

جو ڈر تھا وہی ہوا. ہوٹنگ یعنی جملے بازی جلد ہی ہاؤلنگ یعنی ہلڑ بازی میں تبدیل ہوگئی. کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی. ایک کے بعد دوسرا مقرر اسٹیج پر جاتا اور سامعین کے ہاتھوں رسوا ہوکر نیچے اتر آتا. مجھ سمیت سب مقررین  پر اپنا حشر سوچ کر ہیبت طاری تھی. بلآخر اسی ہنگامے میں میرا نمبر قریب آپہنچا. میرے ساتھ آئے دو دوستوں نے مجھے بازو سے تھام کر منع کیا اور کہا کہ ایسے میں اوپر جانا اپنی عزت لٹوانے کے مترادف ہے. باقی دوست بھی مجھے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے چشم تصور سے میری عصمت دری کا منظر ان کے سامنے ہو. میں نے ایک لمحہ سوچا اور پھر ڈرتے دل کے ساتھ اوپر جانے کا فیصلہ کرلیا.

اعلان ہوا کہ’اب آئیں گے سرسید انجینئرنگ یونیورسٹی کے مقرر عظیم الرحمٰن !’ لفظ ‘انجینیرنگ’ سنتے ہی ‘میڈیکل’ کالج کے ان طلباء و طالبات میں روایتی مسابقت کے سبب مزید بجلی آگئی. جب میں اسٹیج کی جانب بڑھنے لگا تو سامنے والی دو قطاروں میں بیٹھی لڑکیوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر اوپر کیا اور جھوم جھوم کر گانے لگی “،ہوگا دنیا میں تو بے مثال ۔۔ میرے بچے میرے نونہال !”

پوراہال مجھ پر ہنس رہا تھا، سوائے ان چند دوستوں کے جو مجھ پر ترس بھری نگاہ رکھے ہوئے تھے. ہم اندر سے تو شدید لرزہ براندام تھے مگر چہرے پر ایک پر اعتماد مسکراہٹ سجائے ہوٹنگ کرنے والو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اسٹیج پر جا پہنچے. ٹانگیں کانپ رہی تھیں مگر بڑے اعتماد سے مائیک درست کیا، سانس اندر کھینچی اور بولنے کے لئے جیسے ہی زور لگانا چاہا تو۔۔ تو سامنے ریکارڈنگ روم سے ایک بندہ بھاگتا ہوا باہر آیا اور بولا “بھائی کچھ ٹیکنیکل فالٹ کی وجہ سے آپ کا  سٹیج پر آنا اور اعلان ریکارڈ نہیں ہو پایا، آپ پلیز دوبارہ نیچے آجائیں. آپ کا پھر سے نام بلایا جائے گا”  اب آپ سوچ سکتے ہیں کہ سامعین نے میرا کیا حال کیا ہوگا؟ میں من ہی من ریکارڈنگ والے کو کوستا ہوا واپس اپنی نشست پر آبیٹھا. دوبارہ اعلان ہوا  ‘اب آئیں گے سرسید انجینئرنگ یونیورسٹی کے مقرر عظیم الرحمٰن !’۔۔ آڈینس تو مانو انتظار میں تھی، ہر طرف صدا تھی  “ہوگا دنیا میں تو بے مثال ۔۔ میرے بچے میرے نونہال !” اسی عالم میں ہم مسکراتے ہوئے دوبارہ اسٹیج پر جاپہنچے. لیکن اس دوران میں نے اپنے آپ میں ایک فیصلہ کرلیا تھا.

فیصلہ یہ تھا کہ میں دلائل سے مزین تیار شدہ تقریر نہیں کروں گا بلکہ خالص ‘تک بندی’ سے بھرپور جوشیلی تقریر کروں گا. پھر بھلے وہ موضوع سے کم مناسبت رکھتی ہو یا ججز کے اعلان و معیار کے برخلاف ہو. یہ سوچ کر میں نے مائیک تھاما مگر دانستہ خاموش مسکراہٹ کے ساتھ سامنے سامعین کو بے نیازی سے دیکھتا رہا. سات منٹ کی تقریر میں سات سیکنڈ بھی اہم ہوتے ہیں. مگر میں نے کوئی آدھا منٹ ایک لفظ نہ بولا. بلکہ مزے سے مائیک کو انگلی سے بھی کھٹکھٹاتا رہا. اس تیس سیکنڈ میں سامنے لوگوں نے چیخ چیخ کر اپنے گلے پھاڑ لئے مگر میں مسکراتا ہوا خاموش رہا. تیس سیکنڈ تک جب میں نہ بولا تو اچانک لوگوں کا شور تھما اور انہوں نے حیرت سے اسٹیج کی طرف دیکھا کہ یہ ناہنجار بولتا کیوں نہیں؟

جیسے ہی یہ خاموش لمحہ مجھے ملا میں نے بھاری آواز میں آغاز کیا. ‘کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے’۔ لوگوں کو محسوس ہوا کہ وہ بیوقوف بن گئے ہیں تو ایک کھسیانی سی   ہنسی ہنسے. ایسے میں ایک لڑکا جو سب سے زیادہ ہوٹنگ کررہا تھا اور مجمع کا منظور نظر تھا، میں نے اس کی جانب اشارہ کرکے بات کا آغاز کیا ‘تم بتاؤ اے پاکستانی’۔۔اس کے بعد میں نے پرجوش گفتگو شروع کی، اس لڑکے نے جب میری نظروں کو اپنے اندر اترتے محسوس کیا تو آنکھیں چرانے لگا اور خاموش ہوگیا. میرا ماننا رہا ہے کہ ہوٹنگ کرنے والا مجمع خاموش مجمع سے کہیں بہتر ہوا کرتا ہے، وجہ یہ کہ وہ زندہ ہوتا ہے، اس میں انرجی ہوتی ہے. جیسے دریا غلط جانب بہہ رہا ہو تو تباہی لاتا ہے مگر اگر کسی طور آپ اس دریا کا دھارا صحیح جانب موڑ دیں تو وہ اسی زور و شور سے سیرابی کا بھی بھرپور کام انجام دیتا ہے.

کچھ ایسا ہی اس مجمع کے ساتھ ہوا. میں ان کی ہوٹنگ انرجی کو اپنی پذیرائی میں موڑنے پر کامیاب ہوگیا تھا. اب عالم یہ تھا کہ ہاتھ اٹھاتا تو تالیاں گونجتی، ہاتھ گراتا تو تالیاں رک جاتی. وقت ختم ہونے کی گھنٹی بجی تو لوگوں نے گھنٹی روک دی. کوئی زور سے چلایا ‘ اسے بولنے دو ، اسے نہیں روکو’ ۔۔ اس پر طرہ یہ کہ گھنٹی بجنے پر ہم نے برجستہ کچھ یوں شعر پڑھا.

چشم ساقی کی عنایات پر پابندی ہے
ان دنوں وقت پر، حالات پر پابندی ہے
درد اٹھتا ہے، لہو بن کر چھلکنے کیلئے
یہ ‘گھنٹی’ بجا کر کہتے ہیں جذبات پر پابندی ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی. جب اسٹیج سے اترا تو لوگوں کے جھرمٹ میں تھا. میری طویل قامت جسامت نے انہیں مجھے کاندھے پر اٹھانے سے روکے رکھا مگر آڈینس کی اس غیر معمولی پذیرائی نے ججز پر اتنا پریشر ڈالا کہ میری دلائل سے خالی تقریر پر بھی انہیں مجھے دوسرا انعام دینا پڑا. اس پر بھی لوگ غصہ تھے کہ پہلا کیوں نہ دیا؟ پہلا انعام میرے ایک دوست کو ملا جس نے فلسفیانہ استدلال سے مزین تقریر تو کی تھی مگر آڈینس میں سنا اسے کسی نے نہ تھا. افسوس کہ اس مقابلے کے کچھ ماہ بعد ہی شالیمار ٹیلی ویژن نیٹ ورک بند کردیا گیا اور میری یہ یادگار تقریر کبھی آن ائیر نہ ہوسکی.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”میرے بچے ،میرے نونہال۔۔عظیم الرحمٰن عثمانی

Leave a Reply