قومی تفاخر کے باب میں ۔۔ترجمہ ذکی نقوی

جیسا کہ میرا تعلق فانی انسانوں کی اس آوارہ قبیل سے ہے جو کہ اپنے وقت کا بیشتر حصہ کافی ہاؤس، مہمان سرائے اور دیگر عوامی جگہوں پر گزارتے ہیں سو مجھے بھانت بھانت کے کرداروں سے واسطہ رہتا ہے جو کہ کسی فطری نظارے یا کسی فن پارے سے لطف اندوز ہونے سے بڑی بھی کہیں تفریح ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسی طرح کی ایک آوارگی کے دوران مجھے کچھ ایک جگہ کچھ ایسے حضرات کی صحبت مل گئی جو ایک سیاسی مسئلے پر گرماگرم بحث میں مشغول تھے۔ چونکہ سب برابر جذباتی ہوئے جا رہے تھے، لہٰذا فیصلے کے لیے مجھے ثالث چنا گیا جس سے مجھے بھی اس گفتگو میں حصہ لینا پڑا۔
دوسرےکئی موضوعات کے تنوع میں ہمیں یورپ کی دوسری اقوام کی خصوصیات کے بارے میں بھی بات کرنے کا موقع ملا کیونکہ ایک صاحب جو کہ اپنے تئیں انگریزی خصوصیات اور انگریزی قوم کی وضعداری کی تمام خصوصیات کا علمبردار سمجھ رہے تھے، انہوں نے اعلان کر دیا کہ ولندیزی نحوست اور لالچ کے پلندے ہوتے ہیں، فرانسیسی خوشامدی اور مسخرے ہوتے ہیں، جرمن شرابی اور وحشیوں کی طرح بسیار خور ہوتے ہیں، ہسپانوی مغرور، خودبین اور ظالم ہوتے ہیں، جبکہ دلیری، سخاوت، ترحمّ اور دیگر اچھی صفتوں میں انگریز تمام دنیا سے افضل ہیں…
اس انتہائی “پڑھے لکھے” اور تقدس مآبانہ نظریے کو سب نے قبولیت اور استحسان بھری مسکراہٹ سے دیکھا ماسوائے ناچیز راقم الحروف کے۔ میں نے اپنی ناگواری کو دبانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنا سر اپنے بازو پر ٹکا دیا گویا میں فی الوقت کسی اور معاملے پر سوچ رہا ہوں اور اس موضوع میں شاملِ مباحثہ نہیں ہوں۔ اور امید تھی کہ اس طرح میں اس ناگواری سے بچ جاؤں گا جو مجھے اپنا مؤقف واضح کر کے ان صاحب کو ان کی فرضی خوشی محروم کرنے سے ہو سکتی تھی۔ لیکن ان نام نہاد محب وطن صاحب کو اتنی عقل نہ تھی کہ مجھے معاف رکھتے۔ وہ فقط اسی پر مطمئن نہ تھے کہ ان کی رائے بغیر کسی اختلاف کے قبول کی جائے گی بلکہ وہ چاہتے تھے کہ محفل میں موجود ہر شخص باقاعدہ ان کی رائے پر مہر تصدیق ثبت کرے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک بھرپور خوداعتمادی کے ساتھ مجھے مخاطب کیا گویا مجھ سے پوچھ رہے ہوں کہ آیا میں ان کی رائے سے متفق ہوں یا نہیں۔ جیسا کہ میں اپنی رائے دینے میں جلدی نہیں کرتا اور بالخصوص ایسی جگہوں پر جہاں مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ناقابلِ قبول ہو سکتی ہے۔ جب رائے دینا ناگزیر ہوتی ہے تو میں ہمیشہ اپنے واقعی جذبات کے اظہار کے لیے کسی قول کا سہارا لیتا ہوں۔ میں نے اسی لیے کہہ دیا کہ جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں اس موضوع پر اس قدر مستحکم انداز میں اس وقت تک حکم نہیں لگا سکتا جب تک میں بذات خود یورپ کا سفر نہ کر لوں اور ان اقوام کے رویوں کو احتیاط اور دوستی کے ساتھ پرکھ نہ لوں۔ پھر ایک غیر جانبدار منصف تو شاید ولندیزیوں کے بارے میں یہ بھی کہے گا کہ وہ کفایت شعار اور محنتی ہوتے ہیں، فرانسیسی متحمل اور شائستہ ہوتے ہیں، جرمن سخت جان اور سختی یا تکان کو برداشت کرنے کے اہل ہوتے ہیں اور ہسپانوی بردباری میں انگریزوں سے بہتر ہیں جبکہ انگریز جہاں شجاع اور سخی قوم ہیں وہاں تند مزاج، عزمِ صمیم والے اور جلدباز ہوتے ہیں۔ وہ خوشحالی میں بہت جلد مسرور اور بدحالی میں بہت جلد مایوس ہونے والے ہیں۔
میں بآسانی اندازہ لگا سکتا تھا کہ اس سے قبل کہ میں اپنی بات مکمل کر پاتا، تمام لوگوں نے مجھے غصے اور نفرت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا۔ وہ صاحب مجھے یوں گھور رہے تھے گویا سوچ رہے ہوں کہ؛ حیرت ہے! لوگ ایسے ملک میں کیونکر رہ رہے ہیں جس سے انہیں محبت ہی نہیں، اور ایک ایسی حکومت سے مراعات حاصل کر رہے ہیں جن کے وہ اندر سے دشمن ہیں۔ جب مجھے اندازہ ہوا کہ اپنے جذبات کا اظہار کر کے میں نے شاید جملہ حاضرین محفل کا حقِ رائے دہی ضبط کر لیا ہے اور انہیں موقع دے دیا ہے کہ وہ میرے سیاسی افکار پر بھی شک کریں، اور یہ کہ جہاں اس قدر خود پسندی ہو، وہاں کسی بحث و جرح کی کوئی افادیت نہیں، میں نے اپنی بحث کا رخ نسلی و قومی تعصبات کی بے بنیادی اور مضحکہ خیزی کی طرف موڑ دیا۔
عہدِ قدیم کے مشہور ترین اقوال زریں میں سے اپنے کہنے والے کے لیے سب سے زیادہ باعثِ عزت اور سننے والے کے لیے باعثِ مسرت قول وہ ہے کہ جب کسی فلسفی سے اس کی شہریت پوچھی گئی تو اس نے کہا تھا: “میں دنیا کا شہری ہوں”۔
دورِ جدید میں ایسے لوگ کتنے ہیں جو یہی بات کہہ سکتے ہیں۔ یا ایسے لوگ جن کا طرزِ عمل اس انداز کا ہو۔ ہم اس حد تک انگریز، ولندیزی (ڈچ)، فرانسیسی، ہسپانوی یا جرمن ہو چکے ہیں کہ ہم سیارۂ زمین کے شہری نہیں رہے۔ ہم کسی ایک خطۂ زمین یا کسی چھوٹی سی سوسائٹی کے ساتھ اس حد تک جڑ چکے ہیں کہ ہم خود کو من حیث الانسان، کرۂ ارض کا باسی سمجھتے ہی نہیں۔ ہم خود کو اس عظیم تر سوسائٹی کا فرد نہیں گردانتے جس کی تشکیل تمام بنی نوعِ انسان سے ہوتی ہے۔
کیا یہ تعصبات فقط کم وقعت کے پست ذہن لوگوں پر ہی غالب ہیں؟ انہیں تو شاید اس وجہ سے معاف کیا جا سکتا ہے کہ انہیں مطالعہ، سفر یا غیر ملکیوں سے بات چیت کے ذریعے اپنے خیالات کی اصلاح کرنے کا موقع نہیں ملا۔ لیکن مقامِ افسوس یہ بھی ہے کہ ایسے خیالات ان لوگوں میں بھی پائے جاتے ہیں جو کہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ تعصبات سے بالاتر ہونے کے علاوہ باقی تمام شریفانہ فضائل کے حامل ہوتے ہیں۔ ایک شخص پیدائشی طور پر کتنا ہی نجیب الطرفین کیوں نہ ہو، اور ان تمام خواص سے مالامال ہو جو کسی بھی شریف زادے کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں، اگر وہ نسلی و قومی تعصبات سے بالاتر نہیں ہے تو میں اسے بے دھڑک یہ کہنا پسند کروں گا کہ وہ ادنیٰ اور پست درجے کی ذہنیت کا حامل ہے اور اسے شرافت و نجابت کے دعوے کا حق حاصل نہیں ہے۔ درحقیقت وہ لوگ اپنی قوم کی خوبیوں میں خودستائی کا شکار ہوتے ہیں جن میں بذات خود وہ خوبیاں نہیں ہوتیں۔ تاک کی کمزور بیل اسی لیے مضبوط برگد سے لپٹ جاتی ہے کہ اس میں خود کو سہارا دینے کی قوت نہیں ہوتی۔
اگر قومی تعصبات کی حمایت میں یہ کہا جائے کہ وطن کے لیے محبت کا پروان چڑھنا ضروری اور عین فطری ہے اور قومی تعصب کو ختم کرنے کے لیے وطن کی محبت کو ختم کرنا ضروری ہو جاتا ہے، تو میں اس کے جواب میں یہ کہوں گا کہ یہ سراسر مغالطہ اور فریب ہے۔ اگر ایسا کہا جائے کہ یہ ہم میں وطن کے لیے محبت پروان چڑھنے کے عمل کی وجہ سے ہے، تو میں اس سے اتفاق کرتا ہوں لیکن اگر یہ کہا جائے کہ یہ فطری ہے، تو میں اسے یکسر مسترد کرتا ہوں۔
اوہام اور جذباتیت بھی مذہب سے پھوٹتے ہیں لیکن کون کہتا ہے کہ یہ مذہب جیسے مقدس ضابطے کی ناگزیر پیداوار ہیں۔ یہ تو اس مقدس ضابطے کی ناپسندیدہ شاخیں ہیں، ناکہ فطری اور حقیقی۔ اور اس شجر کے اساسی جوہر کو نقصان پہنچائے بغیر ان شاخوں کو بحفاظت کاٹ پھینکا جا سکتا ہے، بلکہ جب تک ان شاخوں کو اتار پھینکا نہیں جائے گا، یہ شجر بھرپور صحت اور توانائی کے ساتھ پھل پھول نہیں سکتا۔
کیا یہ ممکن نہیں کہ میں دوسرے ممالک سے نفرت کیے بغیر اپنے ملک سے محبت کر سکوں؟ کیا یہ واقعی ممکن نہیں کہ میں دوسری قوموں کو بزدل اور کم ہمت کہہ کر ان سے نفرت کیے بغیر ہی اپنے ملک کے آئین اور آزادی کی حفاظت میں اعلیٰ درجے کی شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ کروں؟ یقیناً ایسا ممکن ہے۔ لیکن اگر ناممکن ہے… ویسے کیا ضرورت ہے اسے ناممکن تصور کرنے کی! لیکن اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو پھر میں اپنی ذات کے لیے اس قدیم فلسفی کی دی گئی شناخت پسند کروں گا، ناکہ انگریز، فرانسیسی، یورپی یا کوئی اور خطاب…

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply