تعلیم یافتہ طبقہ میں طلاق کی بڑھتی شرح۔۔مہر ساجد شاد

ازدواجی تعلق ایک منفرد رشتہ ہے، یہ اعتماد کی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے، محنت سے خلوص و محبت کی دیواریں بنائی جاتی ہیں اور برداشت کی چھت ڈال کر اس تعلق کی اندرونی خرابیوں کو ڈھانپا جاتا ہے۔ یہ تمام اجزاء   مرد و عورت دونوں  کی طرف سے ہوں تو عمارت قائم رہتی ہے۔

ایک وقت تھا کہ شادی کے وقت  ہر لڑکی اپنے میکے سے یہ سبق پڑھ کر آتی تھی کہ یہاں سے تمہاری ڈولی جارہی ہے تو وہاں سسرال سے تمہارا جنازہ ہی نکلے۔ مطلب اب باقی زندگی کیلئے سسرال ہی تمہارا گھر اور ٹھکانہ ہے۔ جبکہ لڑکے کو یہ سبق پڑھایا جاتا تھا کہ عورت تمہاری عزت ہے ،اس کیساتھ   عزت اور رکھ رکھا ؤ سے پیش آؤ کہ وہ تمہارا اور تمہارے کنبے کیساتھ محبت و  احترام  سے پیش آئے۔ تمہارے گھر کی ہر لحاظ سے محافظ ہو اور تمہاری نسل کی بہترین تربیت کرے۔ ان وقتوں میں گھر میں موجود خواتین بہو نندیں ساس سب ہی اس گھر کے مردوں کیلئے احترام اور حیا کا رویہ رکھتی تھیں، گھر میں مرد کی آمد کیساتھ انکے لئے بستر لگانا ،کرسی میز سیدھا کرنا، بچوں کو انکے کمروں میں کھیلنے یا پڑھنے کو بھیج دینا، اپنی کوئی بھی گفتگو تلخی یا لڑائی انکی موجودگی میں جاری رکھنا، گویا خود کی بدتہذیبی کا اعلان تھا، اسی طرح میاں بیوی کی لڑائی بڑے بوڑھوں تک پہنچ جانا دونوں کے لئے شرمندگی اور بے عزتی کی بات تھی ، یہ شرم و حیا بہت سے معاملات میں انا اور خود پسندی کو پنپنے نہیں دیتی تھی اور رشتے آگے بڑھتے رہتے تھے۔

خواتین کیساتھ تشدد اور بدسلوکی کی جو مثالیں ماضی کے ادوار سے دی جاتی ہیں ویسی ہی کہانیاں آج بھی اس سے بھی زیادہ سنگینی کیساتھ موجود ہیں۔ برے انسان تب بھی تھے آج بھی اسی طرح موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ میں شرح طلاق زیادہ کیوں ہے ؟؟ اسکی کوئی ایک وجہ نہیں ہے، ہم اجمالی جائزہ لیں تو بہت سی وجوہات واضح  ہو جائیں گی۔ تعلیم کا لازمی نتیجہ شعور ہے اور شعور ہمیں اپنے حقوق و فرائض سے  آگاہ کرتا ہے، تعلیم کیساتھ ہمیں شعور تو آیا لیکن ہم نے اپنے فرائض سے غفلت برتی اور اپنے حقوق کے حصول کے لئے مستعد ہو گئے، اسی سے رشتوں اور تعلقات میں افراتفری پھیلی اور ہماری توقعات کے ڈھیر بڑے سے بڑے ہوتے گئے۔ جن معاشروں میں امن سکون بھائی چارہ اور ہم آہنگی قائم ہے وہاں افراد ذمہ داری سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ پرانے وقتوں میں ازدواجی تعلق میں عورت زیادہ قربانی دیتی تھی مشکلات برداشت کرتی تھی ،نامناسب اور متشدد رویے سہہ جاتی تھی، اس وجہ سے یہ ادارہ ٹوٹ پھوٹ سے بچا رہتا تھا۔ البتہ سنگین حالات ہونے پر ہر دو اطراف میکہ اور سسرال سے بزرگ لوگ عورت کو اپنی عزت سمجھتے تھے اور کسی صورت اس سے دستبردار نہ ہوتے تھے اور یوں لڑائی جھگڑے کا حل بہرحال صلح ہی ہوتا تھا، رشتہ ختم کرنا خاندانی وقار کا قتل سمجھا جاتا تھا جو کسی کو منظور نہ تھا۔

آج تعلیم نے شعور دیا تو دونوں مرد و عورت کو اپنے حقوق کا احساس ہوا ،حالانکہ دونوں کو اپنے فرائض کا بھی ادراک کرنا چاہیے تھا۔ عورت نے خاص طور پر اپنے حقوق کے سلب ہونے پر برداشت کا دامن چھوڑ دیا اور اپنے حق کے حصول کیساتھ اپنی تذلیل پر معافی کی شرط بھی سختی سے عائد کر دی۔ ادھر مردانہ جاہ و جلال تعلیم پر حاوی ہی رہا، حق دینے پر تو اکثر سمجھوتہ ہو جاتا ہے لیکن معافی کا مطالبہ پورا کرنا لوگ اپنی توہین بنا لیتے ہیں اور یوں رشتہ ختم ہو جاتا ہے۔

اسی   طرح کئی مرتبہ عورت کی طرف سے زیادتی ہوتی ہے اور سسرال بمعہ خاوند مظلوم ہوتے ہیں ایسے میں یہ لوگ بھی خاتون کی طرف سے ظلم و زیادتی کو ترک کرنے کی یقین دہانی کیساتھ عاجز اور معذرت خواہانہ   رویہ کے طالب ہوتے ہیں جو کہ پڑھی لکھی اس عورت کے لئے اپنی انا اور اپنی شخصیت کا قتل ہوتا ہے اس صورت میں تو عورت اپنے میکے کے سمجھانے پر بھی اپنے رویے کی درستگی پر آمادہ نہیں ہوتی کیونکہ اسے زعم ہوتا ہے کہ وہ خود کفیل ہے یا اپنی تعلیم کی وجہ سے خود کفیل ہو سکتی ہے لہذا اسے سسرال یا میکے کی پرواہ نہیں ہے، اور یوں رشتہ ختم ہو جاتا ہے ۔

تعلیم کا لازمی نتیجہ شعور ہو گا اگر تعلیم کو ہم نے اپنی شخصیت پر اثر انداز ہونے دیا ہو۔تعلیم ہمیں مذہبی معاشرتی اور تاریخی رسم و رواج اور رویوں سے آشکار کرتی ہے اسکے ساتھ ساتھ ہمیں دنیا بھر میں جدید معاشرے کے زریں اصولوں سے روشناس کرتی ہے۔ ازدواجی تعلق میں مرد و عورت دونوں کیلئے کچھ یاد رکھنے کی اہم باتیں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اپنی خامیوں سے  آگاہ ہو کر انہیں خندہ پیشانی سے تسلیم کرنا اور اپنی خوبیوں اور اپنے احسانات پر گھمنڈ نہ کرنا
دوسروں کی خامیوں کو نظرانداز کرنا، ان خامیوں کی اصلاح کے لئے مناسب طریقے سے اور مناسب وقت پر انفرادی طور پر نشاندہی کرنا۔
دوسروں کے احسان اور خوبیوں کو تسلیم کرنا اور انکا شکرگزار ہونا
اپنے آپ سے یہ عہد قائم رکھنا کہ میں نے اپنے بہتر روئیے اور سلوک سے ازدواجی تعلق میں فریق ثانی سے خود کو بہتر ثابت کرنا ہے۔
اللہ زوجین میں محبت و الفت پیدا فرمائے اور زوجین کو رشتوں کے نبھانے میں آسانیاں عطا فرمائے، آمین!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply