غیر سیاسی حادثہ۔۔سلیم مرزا

“تاریک سڑک بیحد سنسان تھی ”
آغاصاحب نے کہانی شروع کی تو مجھے کہانی سننے کے بعد یاد آیا کہ
رات کے کسی پہر بھی ملتان روڈ نہ تو سنسان ہوتا ہے نہ ہی تاریک، جتنا آغاصاحب نے اپنی اس کہانی میں بتایا ہے۔آغاصاحب چونکہ سیاسی آدمی ہیں اور کہانی بھی سیاسی ہے تو میں نے زیادہ اعتراض نہیں کیا۔

آغا صاحب کہتے ہیں سڑک سنسان تھی اوربس اتنی تیزرفتاری سے جارہی تھی کہ جب انہیں سائیکل والا نظر آیا تب دیر ہوچکی تھی ۔آغا صاحب نے ہوا میں کچھ اڑتا ہوا محسوس کیا ۔اب آغا صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ سائیکل سے بس ٹکرائی یا سائیکل والا بس سے ٹکرایا ۔سب کچھ ہوا میں اڑادیا ۔میں نے قیافہ لگایا کہ وہ سائیکل تھا ۔آدمی تھا یا دونوں تھے ۔

آغا صاحب بتاتے ہیں کہ ان کے دوست صابر نے بس روکی نہیں یا شاید اس سے بس رکی نہیں ۔
آغا صاحب نے گھور کر صابر کی طرف بغور دیکھا تو اس نے بریک لگائی ۔ اتنے میں بس دوتین کلومیٹر آگے نکل آئی تھی ۔
صابر بس روکتے ہی ڈرائیونگ سیٹ سے اٹھااور پائلٹ گیٹ سے کود گیا ۔مسافروں کے کچھ سمجھنے سے پہلے ہی اصلی چرسی ڈرائیور سمجھ گیا ۔وہ فوراً اپنی سیٹ پہ آگیا ۔
صابر نے آغا صاحب کو بھی اترنے کا اشارہ کیا تو وہ بھی دوسرے دروازے سے بس سے اتر گئے ۔
بقول آغا صاحب یہ سب اتنی تیزی اور میکانکی انداز میں ہوا کہ ادھ سوئے مسافروں میں سے کسی کو خبر نہ ہوئی کہ بس رکی کیوں ۔؟

کہتے ہیں میں اس وقت مزید حیران ہوا جب بس چلی بھی گئی اب ویران سڑک پہ وہ دونوں کھڑے تھے ۔
تاریک سڑک بیحد سنسان تھی ۔

کہانی کا پہلا حصہ کچھ اس طرح  ہے، کہ آغاصاحب کا دوست صابر لاری اڈے پہ ہاکر ہے ۔ہاکر سمجھتے ہیں ناں آپ ؟۔
لاری اڈے پہ یہ لوگ سواریاں گھیر کر لاتے ہیں ۔آپ انہیں اڈے کا جہانگیر ترین سمجھ لیں۔

گزشتہ دنوں آغاصاحب کو صادق آباد جانا پڑگیا ۔لاری اڈے پہنچے تو صابر نے کہا کہ اگر بارہ بجے تک رکو تو دو فائدے ہوں گے ایک تو گڈی ایف سولہ ملے گی اور دوسرا میں بھی ساتھ چلوں گا ۔آغا صاحب مان گئے ۔آغاصاحب عموماً مان جاتے ہیں ۔

ٹھیک بارہ بجے بس اڈے سے نکلی تو ڈرائیور کے ساتھ صابر انجن پہ تھا اور آغا سب سے آگے بائیں طرف ۔

لہور سے ساہیوال تک صابر ڈرائیور کو قائل کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا کہ اپنے دوست پہ رعب ڈالنے کیلئے ساہیوال سے آگے بس وہ چلائے گا ۔ ساہیوال سے بس نکلی تو صابر ڈرائیونگ سیٹ پہ تھا اور آغا انجن پہ ،آغا صاحب والی سیٹ پہ ڈرائیور چرس کے سگریٹ کا سوٹا لگا کر آغا صاحب کو پکڑاتا ،جسے آغا صاحب انتہائی ایمانداری سے قائم مقام ڈرائیور صابر کو دیتے رہے ۔
بس ایف سولہ سے اب غوری میزائل بن چکی تھی،تبھی حادثہ ہوگیا ۔جس کی وجہ سے دونوں سڑک پہ کھڑے تھے ۔

“سڑک بیحد تاریک اور سنسان تھی ”
دونوں اس تاریکی میں لاہور کی جانب سڑک کے کنارے واپس چلنے لگے ۔صابر کہنے لگا
“یار آغا تمہاری وجہ سے میں اتر آیا، ورنہ ٹائم دی گڈی کے ساتھ ایسا ایک آدھ واقعہ ہوتا رہتا ہے، ہم نہیں رکتے “آغا صاحب جواب دینے کی بجائےسڑک کی ترائی میں دیدے پھاڑ پھاڑ مبینہ سائیکل والے کو ڈھونڈتے رہے ۔

دوگھنٹے تک سامنے سے آتی گاڑیوں کی روشنی میں دونوں نے سڑک کے کنارے کنارے تقریبا ً چار کلومیٹر کا علاقہ کھنگال ڈالا ۔نہ تو سائیکل ملا،نہ سائیکل والا ۔
صابر نے تین چار بار کہا ” آغا مٹی پاء ۔چل نکلتے ہیں ۔”؟
لیکن آغا کسی طور گمشدہ مضروب سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھا ۔ڈھونڈتے ڈھونڈتے سڑک کی دوسری طرف ایک ٹرک ہوٹل نظر آیا تو طے ہوا کہ رات یہیں سوتے ہیں اور صبح پو پھٹے ہی تلاش دوبارہ شروع کی جائے ۔

دونوں نے ایک ایک کپ چائے پی اور اسی بڑی سی چارپائی پہ ڈھیر ہوگئے ۔

صبح آٹھ بجے آنکھ کھلی ۔دوپراٹھے اور دو کپ چائے پی کر دونوں ممکنہ جائے حادثہ پہنچے ۔ اور تلاش دوبارہ شروع کردی۔
آدھ گھنٹہ ادھر ادھر دیکھ رہے تھے کہ ایک دیہاتی نظر آیا ۔
“باؤ جی، کیا ڈھونڈھ رہے ہو ”
“کل بس کی چھت سے ہمارا سائیکل گرگیا  ہے ۔وہ ڈھونڈھ رہے ہیں “صابر نے ترنت جواب دیا ۔
دیہاتی کھلکھلا کر ہنس دیا ۔کہنے لگا ۔”میل ڈیڑھ میل آگے ایک سائیکل درخت کے تنے کے ساتھ اٹکا ہوا  ہے ۔میں بھی حیران تھا کہ یہاں سائیکل کون چڑھا گیا “؟

دونوں بھاگم بھاگ وہاں پہنچے سائیکل واقعی دس گیارہ فٹ اونچا شاخوں کے سہارے ٹکا ہوا تھا لیکن انہیں زخمی کی تلاش تھی ۔جو یہیں کہیں ہونا، چاہیے تھا ۔؟

دونوں نے مزید بیس منٹ اردگرد کا علاقہ، چھان مارا ۔لیکن مجروح نہیں ملا ۔تھک ہار کر اسی درخت کے نیچے بیٹھ گئے جس پہ سائیکل ٹنگا تھا۔
“کیوں نہ سائیکل نیچے اتار لیں “آغا نے کہا تو صابر مرے دل کے ساتھ درخت پہ چڑھا ۔
بڑی مشکل سے صابر نے سائیکل اوپر سے نیچے لٹکایا ۔آغاصاحب نے اس کو نیچے پہیے سے پکڑا اب صابر اوپر سے چھوڑے تو سائیکل گھوم کر آغاجی سے ٹکرا سکتا تھا ۔ابھی دونوں کوئی دوسرا طریقہ سوچ ہی رہے تھے کہ ایک راہ چلتے آدمی رک گیا اور جھٹ سے درخت پہ چڑھ کر ان کی مدد کی ،، سائیکل بحفاظت اتر آیا ۔

جب تک صابر درخت سے نیچے آیا ۔اجنبی سائیکل کا اگلا پہیہ ٹانگوں میں پھنسا کر اس کا ہینڈل سیدھا کر  چکا تھا ۔پھر اس نے سائیکل اسٹینڈ پہ لگا کر اس کا اترا ہوا چین چڑھایا ۔
دونوں چپ چاپ دیکھتے رہے ۔لیکن جیسے ہی اس نے سیٹ پہ بیٹھ کر پیڈل پہ پاؤں رکھا تو صابر نے کیرئر پہ ہاتھ رکھ دیا ۔
“کدھر “؟
“گھر ۔اور کدھر، یہ سائیکل میرا  ہے، رات کو ایک بس والا حرامدہ ٹکر مار گیا تھا ۔میں زمین پہ گرا تھا، اور سائیکل درخت پہ ،اس وقت تو اتار نہیں سکتا تھا ۔لہذا اب آیا ہوں تو آپ دونوں اسے اتار رہے تھے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ سامنے میرا پنڈ  ہے، چاہے تو وہاں سے تصدیق کرلو ۔نہیں تو یہ دیکھو ”
اس نے پہلے گھٹنے سے شلوار اٹھائی اور پھر کہنیوں پہ لگی چوٹیں دکھائیں اور کہنے لگا
“کنجر سارا ای چھل گیا اے “۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply