• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • زیر طبع ناول “میں کون؟ ۔۔۔ کون میں؟” سے اقتباس ۔۔۔۔۔رانا اظہر کمال

زیر طبع ناول “میں کون؟ ۔۔۔ کون میں؟” سے اقتباس ۔۔۔۔۔رانا اظہر کمال

مجھے شروع ہی سے اداکاری کا شوق تھا جبکہ والد صاحب چاہتے تھے کہ میں کاروبار پر توجہ دوں لیکن میری دلچسپی ہمیشہ سے فنون لطیفہ (گوئی) میں تھی۔ انہی دنوں بھٹو صاحب نے نجی صنعتیں قومیا لیں جس سے والد صاحب کو شدید صدمہ ہوا اور انہوں نے مجھے ہاتھ پیر ہلانے کو کہا۔ ان کے طعنوں سے تنگ آکر میں نے کرکٹ کھیلنے کا فیصلہ کیا تاکہ ہاتھ پیر ہلائے جا سکیں لیکن ان دنوں قسمت ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ بھٹو دور کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آ رہا تھا، گھر میں (میری حد تک) فاقے چل رہے تھے۔ انہی دنوں والد صاحب کئی ماہ کے لیے گھر سے غائب رہے۔ بعد میں کسی نے بتایا کہ والد صاحب درجن بھر اونٹ کرائے پر لے کر عرب شریف کے سفر پر گئے تھے۔ خاندان میں میری کوئی حیثیت نہیں تھی، اس لیے مجھے یہ باتیں باہر ہی سے معلوم ہوتی تھیں۔

آخر کار جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء آ گیا۔۔۔۔ گویا گھر میں خوشیوں کی بہار آ گئی۔ والد صاحب نے مجھ پر آخری کوشش کرتے ہوئے مجھے اصغر خان کی پارٹی تحریک استقلال میں “بھرتی” کرا دیا۔ انہوں مجھے سنجیدگی اختیار کرنے کی تنبیہہ بھی کی لیکن جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اداکار رنگیلا کے فلمی کردار میرے آئیڈیل تھے، اس لیے مجھ سے سنجیدگی کی توقع رکھنا بیکار تھا۔ والد صاحب اور میرے درمیان تعلقات روز بروز سرد ہوتے چلے جا رہے تھے۔ جیب خرچ بند ہو چکا تھا۔ صرف والدہ کی وجہ سے مجھے چار وقت کا کھانا اور سونے کے لیے دو چھتی مل جاتی تھی۔

انہی دنوں بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ والد صاحب نے اس خوشی میں منوں مٹھائی تقسیم کی لیکن میرے حصے میں صرف نصف لڈو آیا۔ وہ بھی ایک ملازم نے ابا جی سے چھپا کر مجھے دیا تھا۔ ابا جی مجھ سے اور میں ان سے مایوس ہو چکا تھا۔ ایک روز گوالمنڈی میں سری پائے کھاتے ہوئے، میں نے اخبار اٹھایا کہ شوربے میں لتھڑی انگلیاں پونچھ سکوں تو دکان کے ملازم نے آواز دی: باؤ جی ۔۔۔۔ ایہہ اج دی اخبار جے۔ میں اخبار واپس رکھنے لگا تو ایک اشتہار پر نظر پڑی۔ عاق نامہ ۔۔۔۔۔ ابا جی نے مجھے عاق کر دیا تھا۔ یہ دیکھ کر میری آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا جسے میں نے دو پیالے کھد کے نوش کر کے دور کیا۔ اس روز مجھ پر خرد کے نئے در وا ہوئے ۔۔۔ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے لیے مزید کمیشن کھانے کے آئیڈیا نے بھی اسی کھد کے پیالے سے جنم لیا تھا۔ اب گھر سے ناتا ٹوٹ چکا تھا۔ دن گوالمنڈی میں گزرتے تو رات کو میں مال روڈ کے فٹ پاتھ پر جا کر سو جاتا۔ شروع میں، انارکلی چوک کے قریب سوتا تھا لیکن وہاں رات گئے تک شاعر، ادیب اور فنکار محفلیں جمائے رکھتے تھے جس سے میری نیند میں خلل واقع ہوتا تھا۔ نیند کے اسی خلل   دوران کئی اشعار میرے ذہن میں نقش ہوتے چلے گئے۔۔۔۔ یہ میری تقاریر میں اشعار کے استعمال کو عرفان صدیقی کا کارنامہ سمجھنے والوں کے لیے ایک مسکت جواب ہے۔ رفتہ رفتہ میں نے اپنے سونے کی جگہ تبدیل کی۔ پہلے ہائیکورٹ اور ریگل چوک کی طرف آیا لیکن وہاں ٹریفک اور بھکاریوں کی کثرت تھی۔ اس لیے میں نے گورنر ہاؤس کی جانب رخ کیا۔ یہ جگہ بہت پرسکون تھی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ قدرت مجھے اقتدار کے راستے پر چلا رہی تھی۔

 ایک رات میں گورنر ہاؤس کی دیوار کے ساتھ سو رہا تھا کہ گاڑیوں کی تیز لائٹس اور بھاری انجنوں کی آواز کے باعث آنکھ کھل گئی۔ درجن بھر گاڑیاں گورنر ہاؤس کی گیٹ میں داخل ہو رہی تھیں۔ اگلی صبح ابھی نیند پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ چند پولیس والوں نے مجھے اٹھایا اور کھینچتے ہوئے گورنر ہاؤس کے اندر لے گئے۔ وسیع و عریض اور سر سبز لان میں درختوں کے درمیان ایک کینوپی کے نیچے کرسیاں لگی تھیں۔ میز پر ناشتہ موجود تھا اور جنرل جیلانی مساوات اخبار کو الٹا کرکے پڑھ رہے تھے۔پولیس اہلکاروں نے مجھے جیلانی صاحب کے سامنے کھڑا کر دیا۔ انہوں سر سے پیر تک میرا جائزہ لیا اور گویا ہوئے: صورت صحت سے تو کھاتے پیتے گھر کے لگتے ہو، فٹ پاتھ پر کیوں سو رہے تھے؟ کھاتے پیتے کے الفاظ میرے کانوں میں پڑے تو جذبات کا سیلاب امڈ آیا۔ میں نے اس پر بند باندھنے کی مقدور بھر کوشش کی لیکن میز پر موجود ناشتے کا منظر آنکھوں کے راستے ذہن اور معدے میں داخل ہو چکا تھا۔ فرط جذبات سے میرے گھگھی بندھ گئی، آنسو تھے کہ رکنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ جنرل صاحب سے میری حالت دیکھی نہ گئی، انہوں ہاتھ کے اشارے سے مجھے بیٹھنے کو کہا اور ناشتہ کرنے کی ہدایت کی۔ میز پر موجود ہر چیز میرے معدے میں اتر چکی تو جیلانی صاحب نے نرمی سے پوچھا: اب بتاؤ، کیا کہنا چاہتے تھے؟ ۔۔۔۔۔

میں نے ہمت مجتمع کی رندھی ہوئی آواز میں جواب دیا: کجھ کھان نوں ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

جیلانی صاحب کے چہرے پر پہلے حیرت کے تاثرات ابھرے ۔۔۔۔۔ آہستہ آہستہ ان کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی۔ انہوں ملازم کو کجھ کھان نوں لانے کے لیے کہا اور اپنے پی ایس او سے مخاطب ہو کر بولے: یہ نوجوان پنجاب کے وزیر خزانہ کے لیے موزوں ترین ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply