کشمیر سے دستبرداری واحد حل ہے۔۔۔۔ شجاعت بشیر عباسی

جموں اور وادی میں پھیلی حالیہ بے چینی کی وجہ عمران خان کے دورہ امریکہ کے دوران امریکی صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کے بعد انڈیا کے جارحانہ اقدامات ہیں۔لیکن اگر باریک بینی سے موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے اور انڈیا پاکستان کی لیڈر شپ کے سابقہ بیانات کو سامنے رکھ کر سوچا جائے تو صورتحال کو کسی حد تک سمجھا جا سکتا ہے,مثال کے طور پر امریکی صدر ٹرمپ نے کشمیر کے مسئلے پر نریندر مودی کے اس بیان کا ذکر کیا جس میں مودی نے صدر ٹرمپ سے مسئلہ کشمیر پر مدد مانگی ۔

اسی طرح انڈیا کے الیکشن کے دوران عمران خان نے یہ بیان دیا کہ  مودی کی جیت سے مسئلہ کشمیر حل کرنے میں آسانی رہے گی۔

ان دونوں بیانات اور امریکی ثالثی کی پیشکش سے یہ بات بالکل واضح ہو چکی کہ  مسئلہ کشمیر پر دونوں ممالک کے درمیان بیک ڈور مذاکرات یا روابط پہلے سے چل رہے تھے اور بہت کچھ پہلے سے طے کیا جا چکا ہے جبکہ حالیہ اور سابقہ کشیدگی ایک دوسرے پر دباؤ  بڑھانے کے لیے برپا کی جاتی رہی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  اس بیک ڈور پالیسی سے کیا یہ دونوں ممالک اس الجھاؤ سے باعزت نکل پائیں گے اور کیا کشمیر ی قوم مطمئن ہو پائے گی؟

میرے پاس تو اس کا جواب” نہیں” میں ہے۔۔۔۔
کیونکہ اب تک جو ممکنہ حل ( جموں لداخ انڈیا کے پاس اور گلگت بلتستان پاکستان کے پاس جبکہ وادی کے دونوں حصے آزاد ہوں) جس پر سوشل میڈیا اور آف دی ریکارڈ تمام حلقے کثرت سے بحث کرتے نظر آتے ہیں اس حل سے کشمیری عوام بے چین و مضطرب اور اس حل کو ماننے سے سو فیصد انکاری نظر آتے ہیں حالانکہ اب تک دونوں ممالک نے ان افواہوں کو آفیشلی تسلیم نہیں کیا لیکن بہرحال کچھ نا کچھ صداقت ان افواہوں میں ضرور ہے۔

ایک اہم بات اور بھی ہے اب تک کشمیری رہنماؤں کی گرفتاریوں میں اکثریت خودمختار کشمیر کے حامیوں کی ہے اور الحاقی رہنماؤں پر ہاتھ ذرا نرم دکھائی دیتا ہے،اس کی وجہ کا میں اور آپ اپنے اپنے طور پر  اندازہ لگا سکتے ہیں۔

اب بات کرتے ہیں کشمیری عوام کی۔۔۔۔سابقہ ادوار میں اکثریتی کشمیری عوام الحاق پاکستان کے حامی تھے لیکن اب صورتحال کافی مختلف ہے اور ہر دس میں سے آٹھ کشمیری خودمختاری کی بات کرتے نظر آتے ہیں لیکن پاکستان کے لیے عزت و احترام اب بھی برقرار ہے جبکہ انڈین مخالفت ہر گزرتے دن بڑھتی جا رہی ہے۔

یہاں کشمیری عوام کے حوصلے ،ہمت اور قربانیوں کا تذکرہ نہ کرنا ناانصافی ہو گی۔
اگر پوری دنیا میں پھیلی آزادی کی تحریکوں کا جائزہ لیا جائے تو ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ  کشمیری عوام اپنے حقوق کے لیے جس دلیری سے سینہ سُپر ہیں اس کی مثال نہیں ملتی اور یہ جذبہ ،یہ دلیری ہی ہے کہ  ستر سال گزرنے کے باوجود بھی کشمیری عوام ایٹمی پاور کے سامنے جھکے نہیں۔۔
میں کشمیری عوام کو دنیا کی بہادر ترین قوم مانتا ہوں اور اسے اپنا فخر سمجھتا ہوں۔

مسئلہ کشمیر کا سب سے بہترین حل کشمیری خاتون رہنماء محترمہ محبوبہ مفتی کے پاس ہے لیکن بدقسمتی سے اس حل کو دونوں ممالک پذیرائی دینے سے انکاری لگتے ہیں محترمہ یہ حل کچھ اس طرح سے بیان کرتی ہیں۔۔۔
انڈیا اور پاکستان اپنی اپنی افواج کشمیر سے نکال کر اپنے بارڈرز تک محدود رکھیں اور تمام کشمیر کو فری ملٹری اسٹیٹ بنا دیں دونوں ممالک اپنے بارڈرز بے شک سیل رکھیں اور کشمیر کو تجارتی راہداری کے لیے استعمال کریں اور اس میں شریک ایک تیسرے فریق چائنا کو بھی راضی کریں۔
یہ تینوں ممالک کشمیر کے راستے سے اپنی تجارت کو فروغ دیں جس سے ناصرف یہ تینوں ممالک بلکہ کشمیری عوام بھی تجارتی خوشحالی سے مستفید ہوں گے اور خطے میں امن امان بھی برقرار رہے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہی وہ واحد اور شاندار حل ہے جس سے محروم کشمیری عوام کے دکھوں کا مداوا ہو سکتا ہے اور اسی حل سے اس پسے ہوئے خطے میں امن و امان اور خوشحالی آ سکتی ہے جبکہ ان تینوں ممالک کو تجارت کے لیے ایک محفوظ راہداری بھی میسر ہو گی۔
اللہ پاک کشمیری قوم کو آسانی عطا فرمائے
آمین۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply