لاہور: سپریم کورٹ نے زینب قتل کیس کی تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کردیا۔ عدالتی ریمارکس میں کہا گیا کہ اگر پولیس تفتیش کا روایتی طریقہ بھی استعمال کرے تو ملزم کو پکڑا جاسکتا ہے۔
سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دئے کہ پولیس ڈی این اے سے باہر نکل کر بهی تفتیش کرے۔ جو پولیس کررہی ہے، اس طرح تو اکیس کروڑ لوگوں کا ڈی این اے کرنا پڑے گا۔
اس حوالے سے جے آئی ٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ 800 مشتبہ افراد کے ڈی این اے کرلئے گئے ہیں۔
جس پر عدالت نے کہا کہ آپ صرف ایک ہی رخ پر تفتیش کررہے ہیں۔ جسٹس منظور احمد ملک کا کہنا تھا کہ پولیس ڈی این اے سے باہر نکل کر تفتیش کرے۔
عدالت نے ریمارکس دئے کہ معصوم بچی پر ہونیوالا ظلم ناقابل بیان ہے۔
ڈی جی فرانزک سائنس ایجنسی نے ان کیمرہ سماعت کی درخواست کی ۔
دوسری جانب قصور میں ننھی زینب کے قتل کو کئی روز گزر گئے۔ تفتیشی حکام زینب کے اصل قاتل تک نہ پہنچ سکے ۔
زینب کے والدین عمرے پر تھے کہ نامعلوم افراد اُسے ساتھ لے گئے اور درندگی کا نشانہ بناکر پہلے قتل کیا، پھر لاش کچرے کے ڈھیر پر پھینک گئے۔
ننھی زینب کی موت نے ہر شخص کو غمزدہ کردیا۔
قتل کیخلاف قصور میں مظاہرے پھوٹ پڑے، اِس دوران پولیس سے جھڑپوں میں دو افراد جاں بحق بھی ہوئے۔
ملک بھر میں بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ واقعہ کے بعد دباؤ بڑا تو حکومتی میشنری حرکت میں آگئی۔
تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی۔ دوران تفتیش پہلے ایک سی سی ٹی وی فوٹیج۔ پھر مبینہ ملزم کے خاکےاور پھر مختلف سی سی ٹی وی فوٹیجز منظرعام پر آنے لگیں۔
لیکن اصل ملزم کون ہے؟ پولیس پہنچ نہ سکی۔ جے آئی ٹی نے قصور میں سو سے زائد افراد کے ڈی این اے سیمپل بھی لیے ۔
اٹھارہ جنوری کو کیس میں اہم پیشرفت ہوئی۔ پولیس نے تین ملزم آصف، عمر اور بابا رانجھا کو گرفتار کرلیا۔ پولیس کے مطابق ملزم آصف زینب کو بازار سے لے گیا، اور پھر عمر کے حوالے کیا جس نے تیسرے ملزم بابا رانجھا کے ڈیرے پر ننھی زینب کو چار روز تک رکھا۔

ملزموں کی گرفتاری کو کئی روز گزرنے کے باوجود تفتیش میں یہ بات تاحال ثابت نہیں ہوسکی کہ زینب کے قتل اور زیادتی میں کیا یہی تینوں ملزم ملوث تھے یا نہیں؟
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں