رؤیت ہلال کمیٹی کو ختم کرنے کا مطالبہ /زید محسن حفید سلطان

“ملکی خزانے پر بوجھ بننے والا ادارہ رؤیت ہلال کمیٹی جس کا کام صرف چاند دیکھنا ہے، جس میں ملازمین کی تعداد 3400، تنخواہیں اور سالانہ خرچہ 743 کروڑ ہیں ، اس کو فورا ًختم کرنا چاہیے۔
اگر آپ بھی یہی چاہتے ہیں تو اس ٹرینڈ میں حصّہ لیں اور اس پوسٹ کو شئیر کریں”

پچھلے کچھ دنوں سے یہ پوسٹ دوبارہ گردش کر رہی ہے ، لیکن جس طرح بہت سارے ٹرینڈ حقیقت سے کوسوں دور ہوتے ہیں ،اس طرح اس  ٹرینڈ کا بھی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ، اس پر مستزاد یہ کہ اس پوسٹ میں کیا گیا دعویٰ کئی ایک وجوہ سے غلط ہے اور ایسا مطالبہ بھی صحیح نہیں۔

1- سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اتنے بڑے اعداد و شمار اور پھر اتنا زیادہ خرچہ یہ صرف ہود  صاحب  کی ایک   تحقیق ہے ، اور جاننے والے جانتے ہیں کہ ہود  صاحب  کی اکثر تحقیقات کا مرجع و مصدر اپنے اندر کے پراگندہ جذبات کی عکاسی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا ، بالکل ایسا ہی یہاں پر بھی ہے اور صرف جھوٹ کا ایک پہاڑ قائم کرنے کی سعی ء لا حاصل کی گئی ہے جو حقیقت سے کوسوں دور ہے۔اور حقیقت یہ ہے کہ رؤیت ہلال کے مرکزی اراکین 21 ہیں جن کیلئے مختص ہونے والا اس سال کا مالی بجٹ تیس سے پچاس لاکھ کے درمیان ہے ، اور یاد رہے اس کے اراکین صرف علما  نہیں بلکہ اسپارکو کے عہدے دار ، ماہرین موسمیات اور وزرات سائنس سے متعلقہ افسران بھی اراکین میں شامل ہیں۔

2- رؤیتِ ہلال خالص شرعی مسئلہ ہے جو ایک مسلم معاشرے کی اہم ترین ضروریات میں سے ہے ، اور اس ضرورت کو پورا کرنا ایک اسلامی ریاست کی ایسی ذمہ داری ہے جس سے اگر ساری قوم پیچھے ہٹ جائے تو سب گناہ گار ہو جائیں گے۔کیونکہ اسلام کا ایک بنیادی رکن اسی رؤیت پر منحصر ہے اور رؤیت کے مسئلے میں یہ بات مسلّم ہے کہ دیکھنا ہی امرِ لازم ہے ، فقط قرائن یا ایسے علوم جو حتمی ہونے یا حرفِ آخر ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے ان کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہو سکتے ، اور اس باب میں عدمِ رؤیت (نہ دیکھنا) حکمًا عدمِ وجود کی مانند ہوگا ، یا کم از کم بعد از رؤیت مرتب ہونے والے احکام اس وقت تک موقوف رہیں گے جب تک عدمِ رؤیت رہے ، اور رؤیت ہی ان احکام کے اجراء کا ذریعہ بنے گی ، اس لئے ایسی کمیٹی کا وجود بھی لازمی ہے۔

3-اسی طرح یہ بات بھی مسلّم ہے کہ رؤیت کی ذمہ داری عام مسلمانوں یا مسلمانوں کی مختلف جماعتوں پر نہیں ہوتی بلکہ اس کی اصل ذمہ داری حکومتِ وقت پر اور حاکمِ وقت پر ہوتی یے اور حرفِ آخر ذمہ دار ہی کی بات کو سمجھا جاتا ہے اسی لئے ایسے مسلّم معاملات کیلئے حکومتی اقدامات کو بجائے سراہنے کے نشانہِ تنقید بنانا کم از کم ایک مسلمان کو تو زیب نہیں دیتا۔

4- ویسے تو اس  الزام کی کوئی حقیقت ہے ہی نہیں اور اس کی تردید کئی ایک خبر رساں ادارے بھی کر چکے ہیں (جن کو گوگل کر کے آرام سے دیکھا جا سکتا ہے) اس کے باوجود اداروں کے حوالے سے ایک بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جو ادارے ضروری ہوں اور ان میں ایسی خرابیاں پیدا ہو جائیں جو انتہائی اقدام پر مجبور کریں تو ان کو ختم نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہمیشہ اضافی بوجھ ختم کرنے کی پالیسی کو اختیار کیا جائے اور اصلاح کی طرف توجہ دی جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب آپ ہی کہیے ،کیا آپ نے کسی کو بالوں کے بوجھ کی وجہ سے سر کٹواتے دیکھا ہے ، نہیں نا ، بال ہی کٹوائیں جاتے ہیں نا!
ایسے ہی اداروں کو سِرے سے کاٹ کر نہیں پھینکا جاتا بلکہ ان میں اصلاحات کی جاتی ہیں اور اضافی بوجھ کم کیا جاتا ہے۔

Facebook Comments

زید محسن حفید سلطان
ایک ادنی سا لکھاریسیک ادنی سا لکھاری جو ہمیشہ اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply