• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مذہب کے خلاف الحاد کا بلند و بانگ مقدمہ، ایک رواں تبصرہ۔۔۔ادریس آزاد/قسط2

مذہب کے خلاف الحاد کا بلند و بانگ مقدمہ، ایک رواں تبصرہ۔۔۔ادریس آزاد/قسط2

مذہب کے خلاف الحاد کا بلند و بانگ مقدمہ، ایک رواں تبصرہ۔۔۔ادریس آزاد/قسط1

دراصل انسانی صفات کو اگر انسانی ذات سے الگ کیا جائے تو پیچھے انسانی ذات ہی فنا ہوجاتی ہے۔مثلاً میرا قد، میرا حلیہ، میری قوم، میری زبان، میرا تجربہ، میری تعلیم، میرا مزاج، میرا رنگ ، میرا قبیلہ، میری فیملی، میرے بچے، میرا کاروبار، میرے دوست وغیرہ وغیرہ یہ سب میری صفات ہیں۔ اگر ان سب کو مجھ سے الگ کردیا جائےتو پیچھے مَیں باقی نہیں بچتا۔ میں بالکل زیروہوجاتاہوں۔ میرے لیے میری صفات لازم و ملزوم ہیں۔ خدا کی شخصیت کا میری شخصیت سے یہی بنیادی فرق ہے کہ خدا کی شخصیت ہرقسم کی صفات سے ماورا ہے۔ ذات ِ خداوندی مکمل طورپر صفات سے پاک ہے۔اسلام کی سب سے نرالی بات ہی یہی ہے کہ اسلام میں خدا کی صفات کی پوجا نہیں کرنی ہوتی بلکہ اُنہیں تسخیر کرناہوتاہے۔

چنانچہ اسلام کا مؤقف بڑا واضح اور منفرد رہاہے۔ اسلام میں خدا کی صفات کو پوجنے کی بجائے اُلٹا اُنہیں تسخیر کرنے کا حکم ہے۔علامہ اقبال نے تو ان موضوعات کی تشریحات میں ایسا سخت رویہ اختیار کیے رکھا کہ حیرت ہوتی ہے۔ سید عابد علی عابد کے بقول اقبال کے نزدیک کائنات کی ہرشئے فی الحقیقت ہماری دشمن ہے۔ ہمیں کائنات کو تسخیر کرنے کا حکم اِسی لیے دیا گیا ہے کیونکہ دشمن کو ہی تسخیر کیا جاتاہے۔ لیکن یادرہے کہ تسخیر کرنے سے مُراد تباہ کرنا ہرگز نہیں۔ یعنی اس سے یہ مُراد ہرگز نہیں کہ چونکہ کائنات کی ہرشئے ہماری دشمن ہے اِس لیے مَیں سامنے نظر آنے والی پہاڑی کو تباہ کردوں کیونکہ وہ ہماری دشمن ہے۔اِس سے ایسی مُراد اس لیے نہیں لی جاسکتی کہ دشمن کو تباہ نہیں کرنا ہوتا، اُسے تسخیر کرناہوتاہے۔ اگرکوئی شخص دشمن کو تباہ کردیتاہے تو وہ خود بھی تباہ ہوجاتاہے کیونکہ اس نے جس کو تباہ کیا اُس کی غیر موجودگی میں وہ اسے مسخر کرکے ہمیشہ کے لیے اپنا مطیع نہیں بنا سکتا۔ ہمیں کائنات کے اجزأ کو دشمن سمجھ کر اُنہیں تباہ نہیں کرنا بلکہ ہمیں ان اجزأ کو تسخیر کرناہے تاکہ ہم ان کو اپنا مطیع اور فرمانبرداربناسکیں۔ جیسے کسی دشمن کو بنایا جاسکتاہے۔ وہ (یعنی کائنات کے اجزأ) ہمارے دوست ہوئے تو ہم نہ ہی اُنہیں مسخر کریں گے اور نہ ہی تسخیر کرکے مطیع بنائیں گے۔ ہم ان کی پوجا شروع کردینگے۔ کیونکہ دشمنی کے برعکس ان سے دوستی کا نظریہ دراصل ان سے محبت اور بالاخراُن کی اطاعت پر ہی منتج ہوتاہے۔

انسان نے اسلام کے بعد جس تیزی کے ساتھ سائنسی ترقی کی ہے اس کے پیچھے فی الحقیقت یہی مؤقف تھا اوریہ مؤقف ون ہنڈرڈ پرسنٹ اسلامی تعلیمات سے برآمد ہوکر اندلس کی درسگاہوں سے یورپ پہنچا تھا۔ورنہ یورپ کے تمام ترمذاہب میں تو اجزائے کائنات کی برتری کا تصور موجود تھا۔ یونان سے لے کر مسیحیت تک یورپ کا ہرعہد اجزائے کائنات کی برتری کا عہد ہے۔ وہ جنہیں قدیم دور کے لوگ دیوتا سمجھ کر اُن کی پوجا کیا کرتے تھے، اسلام نے اُنہیں ملائکہ کہا اور اُنہیں حکم دیا کہ انسان کے آگے سجدہ ریز (یعنی مسخر) ہوجائیں۔ اہل بابل کا ربِ رع بارشیں برسانے والا دیوتاتھا جسے مسلمانوں نے بارشیں برسانے والا فرشتہ کہا اور اپنا مسجود نہیں بلکہ اپنا ساجد ومطیع مانا۔ مسیحیت کی درست تعلیمات میں اگرچہ ان ملائکہ یعنی صفاتِ خداوندی کا صحیح تصور موجودتھا لیکن اسے بعد کے عیسائیوں نے بھُلا کراس کی جگہ پیگن مذاہب کے تصورات کو دے دی۔

الغرض اسلام میں ذاتِ خداوندی کو پوجا کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ اگر آپ قران کی اس واحد آیت پر غور کریں جس میں انسانوں اور جنّوں کی پیدائش کا مقصد دوٹوک الفاظ میں بیان کیاگیاہے تو آپ کو صاف دکھائی دے گا کہ وہاں ذاتِ خداوندی براہِ راست مخاطب ہے۔

ماخلقتُ الجن ولاِنس الالیعبدون

اور ’’میں نے‘‘ جنوں اور انسانوں کو نہیں پیدا کیا مگر بندگی کے لیے۔

اس میں لفظ ’’میں نے‘‘ پر غورکریں۔ یہ صیغہ خدا اپنے لیے قران میں بہت کم استعمال کرتاہے۔عام طورپر خدا اپنے لیے ’’نحن اور نا‘‘ کا صیغہ استعمال کرتاہے، یعنی ’’ہم‘‘ یا ’’ہمارا‘‘ وغیرہ۔’’نحن اور نا‘‘ میں صفاتی رنگ غالب ہے۔ اس کے برعکس ’’میں‘‘ کا لفظ واحد متکلم کا صیغہ ہے۔ گویا یہاں خدا بطورذات کے مخاطب ہے۔ قران میں کائنات کے بنانے یا اس کی پرورش کی بات آئے تو خدا صفاتی رنگ میں بولتا ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ ذاتِ خداوندی نے کس طرح اپنی صفات کے ذریعے کائنات کا عمل جاری کیا اور جاری رکھا ہوا ہے۔ لیکن جب وحی بھیجنے کی بات آتی ہے یا مقصدِ تخلیق کا ذکر مقصود ہوتاہے تو خدا کبھی صفاتی رنگ میں بات نہیں کرتا۔ وہ ’’میں‘‘ کا صیغہ استعمال کرتاہے اور واضح کردیتاہے کہ اب ذات مخاطب ہے۔

ہم خدا کو ذات کو تسخیر نہیں کرسکتے۔ لیکن ہم جب اس کی صفات کو تسخیر کرتے ہیں تو اُس کی ذات کے قریب تر ہوجاتے ہیں۔ خدا کی صفات کو تسخیر کرنے کا مطلب ہے کہ کائنات میں علم حاصل کرنا، قوت وجبروت حاصل کرنا، صلاحیت و قدرت حاصل کرنا اور کائنات کے پست و بلند کو اپنے لیے کھولتے چلے جانا۔ جب ہم اِن صفاتِ خداوندی کو تسخیر کرتے ہیں تو ہم دراصل اپنی ہی کمزوریوں پر قابُو پاتے چلے جاتے ہیں کیونکہ خدا کی یہ تمام کی تمام صفات ہماری اپنی ذات کی وجہ سے وجود رکھتی ہیں۔ جب ہم اپنی تمام کمزوریوں پر قابُو پالینگے تو گویا ہم خود بھی اِن صفات کے چکر سے باہر آجائیں گے۔ جب ہم صفات کے خول سے باہر آکر دیکھنے کے قابل ہوگئے تو پھر ہمارے سامنے فقط ذات ہی موجود ہوگی۔ خدا نے خود یہی طریقہ وضع کیا ہے اپنی تلاش کا۔ اس نے اپنی ان تمام صفات کو اپنی نشانیاں (آیات) کہاہے۔

یہاں ایک نہایت اہم سوال پیدا ہوجاتاہے کہ اگر تصورِ خدا انسانی شخصیت پر استوار نہیں تو پھر ذاتِ خداوندی کا گیان کیسے حاصل کیا جاسکتاہے؟ دراصل خدائے شخصی اورخدائے غیر شخصی کا تصور بھی مغربی ردِ عمل کے زمانے کے تصورات ہیں۔ خدائے غیر شخصی اس قسم کے خدا کو کہتے ہیں جس کی کوئی شخصیت نہیں ہوتی۔ جیسا بدھ مت والوں کا خداہے۔ یا جیسا سپائنوزا اور آئن سٹائن کا خدا ہے۔ یعنی اگر آپ یہ کہہ دیں کہ انرجی خدا ہے، یا کائنات خداہے یا نیچر خداہے تو گویا آپ نے خدائے غیرشخصی کی بات کی۔ ایسے خدا کی شخصیت وجود نہیں رکھتی۔ مغربی فلسفے میں دوسرا تصور، خدائے شخصی کا ہے۔ یعنی ایسا خدا جس کی شخصیت ہم انسانوں کی شخصیت جیسی ہے۔ جو ہماری طرح علم رکھتاہے، جوہماری طرح آنکھوں سے دیکھتاہے، جوہماری طرح قدرت کا استعمال کرتاہے، جو ہماری طرح معاملات میں اچانک دخل دے سکتاہے۔ غرض جو بالکل اور بعینہ ہماری طرح ہے۔ یہ تصور عیسیٰ علیہ السلام کی ذات وصفات کے تصورپرقائم تھا چنانچہ مکمل طورپر انسانی شخصیت کی نقل تھا۔ اسلام میں ایسا کوئی تصور نہیں ہے۔ اسلام کا خدا نہ خدائے شخصی ہے اور نہ ہی خدائے غیر شخصی۔ کیونکہ شخصیت ہمیشہ صفات سے متصف ہوتی ہے۔ جیسے ہماری انسانی شخصیت صفات سے متصف ہے۔ اسلام کا خدا ایک خالص ذات ہے، جو ہرطرح کی صفات سے پاک ہے۔اس کی تمام تر صفات زمانی ومکانی ہیں جب کہ وہ خود زمان ومکاں سے ماورا ہے۔چنانچہ یہ سوال درست ہے کہ اگر خدا نہ شخصی ہے اور نہ ہی غیر شخصی تو پھر خالص ذات کو تصورمیں کیسے لایاجائے؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خالص ذات کو تصور میں تو نہیں لایا جاسکتا البتہ اس کا عرفان حاصل کیاجاسکتاہے۔ جب ذات کے ساتھ کوئی صفاتی اِمیج (یعنی دنیا کا کوئی امیج) جُڑاہوا ہی نہیں ہے تو پھر کسی امیج یا تصویر کو ذہن میں لاکر اسے کیسے سوچا یا سمجھاجاسکتاہے؟ البتہ عرفان ایک ایسا راستہ ہے جو وجدانی علم کے ذریعے ہاتھ آتاہے۔

یہاں پھر ایک اہم سوال پیدا ہوجاتاہےکہ اگر خداکی ذات کا عرفان فقط وجدانی علم کے ذریعے ممکن ہےتوپھرکیا خدا کی ذات کا عرفان صرف ان لوگوں کو حاصل ہوگا جو مراقبے یا میڈیٹیشن کے ذریعے اُسے حاصل کرنا چاہیں گے؟ یہ سوال گویا اس غلط فہمی سے پیدا ہوا کہ عرفان بھی شاید کچھ لوگوں کی ہی صلاحیت ہے، جیسے زیادہ گہری عقلی باتیں کچھ یا چند لوگوں کی ہی صلاحیت ہوتی ہیں۔ حالانکہ قران میں ہے کہ وحی شہد کی مکھی کو بھی ہوتی ہے۔ دیکھاجائے تو سماج کی مشترکہ وحی پورے سماج پر آہستہ آہستہ نازل ہوتی رہتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ عرفان اصل میں عام ہی لوگوں کے لیے خدا تک پہنچنے کا ممکن ترین راستہ ہے۔ اورتواور یہ غلطی فہمی اقبال جیسے بڑے ذہن میں بھی جوں کی تُوں موجود تھی۔ تبھی تو انہوں نے خطبات کے دیباچے میں لکھا ہےکہ اس طرح کا تجربہ (یعنی عرفان) حاصل کرنے کی صلاحیت ہرکسی میں نہیں ہوتی۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ زیادہ گہری عقل سے زیادہ گہرا وجدان اسی سادگی کی بنیاد پر ہی الگ کیا جاسکتاہے جو عام آدمی کا خاصہ ہوتی ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ وحی و وجدان کے ذریعے حاصل ہونے والا علم سوفیصد حتمی ہوتاہے جبکہ عقل کے ذریعے حاصل ہونے والا علم نناوے فیصد سے اُوپر نہیں جاسکتا۔ وحی کے درجات ہیں۔ قران میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’میں نے شہد کی مکھی کو وحی کی‘‘۔ اسی طرح ارشاد ہے کہ ’’میں نے موسیٰ کی ماں کو وحی کی‘‘۔ اسی طرح بعض دیگر آیات میں وحی کی اصطلاح اس طریقے پر استعمال ہوئی ہے کہ جس سے معلوم ہوتاہے کہ وحی کے درجات ہیں۔ پرندے کا وہ عرفان جس کی بنا پر وہ اپنا بے نشان راستہ دیکھ لیتاہے اورایک براعظم سے دوسرے براعظم تک چلتا چلا جاتاہے ہمیشہ سوفیصد درست ہوتاہے۔ شہد کی مکھی کا وہ وجدان جس سے وہ شہد بناتی ہے ہمیشہ سوفیصد درست ہوتاہے۔ کسی درخت پر کوئی آزادانہ پھوٹتی ہوئی شاخ درخت کی وحی ہے، جس کی بنا پر وہ سوفیصددرست علم کے ذریعے شاخیں نکالتاہے۔ یہ درجات ابتدائی ہیں۔ پانی کے نشیب کی طرف بہاؤ سے لے کر انسانی وجدان تک کتنے ہی درجات ہیں جن کے ذریعے حاصل ہونے والا علم ہمیشہ سوفیصد درست ہوتاہے۔

ہم جب اپنے ہاتھ کی اُنگلی سے اپنی ناک کو چھوتےہیں تو ہم ہمیشہ سوفیصد نتیجہ وصول کرتےہیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم لقمہ تو منہ میں لے جانا چاہیں لیکن وہ لقمہ ہماری ناک میں چلا جائے۔ ہمیں کبھی آئینہ نہیں دیکھناپڑتا اپنے جسم کے کسی مقام کو اُنگلی سے چھُونے کے لیے۔ یہ ہمارا حیوانی وجدان ہے۔ کیونکہ کسی بھی جانور کو اپنا بدن چھُونے کے لیے آئینہ نہیں دیکھنا پڑتا۔ ایسے موقعوں پر ہمیشہ ہی ہمارا علم درست ہوتاہے کیونکہ یہ ہماری جبلت یعنی ہمارا وجدان یا ہماری وحی ہے۔ ایک ہاکی فٹبال یا کسی بھی کھیل کا کھلاڑی اپنے علم ، تجربے اور عقل کو استعمال کرتے ہوئے اُتنا کامیاب نہیں کھیل سکتا جتنا وہ اپنے حتمی وجدان سے کامیاب ہوتاہے۔ مشہور فٹبالر پیلے نے ایک مرتبہ گول کرنے کےلیے شاٹ لگائی۔ فٹبال پول کے اُوپر سے گزرگئی اور گول نہ ہوا۔ پیلے نے گیم رُکوا دی اور دعویٰ کیا کہ اس کی لگائی ہوئی شاٹ غلط نہیں ہوسکتی، اِس لیے پول کو چیک کیا جائے۔ پول کو چیک کیا گیا تو وہ تھوڑا چھوٹا نکلا، گویا پیلے سچ کہہ رہاتھا، چنانچہ اس کا گول تسلیم کرلیاگیا۔ کہنے کو کہا جاسکتاہےکہ یہ اس کا تجربہ تھا لیکن تحقیق شرط ہے۔ یہ تجربہ کسی اورفٹبالر کے پاس کبھی نہیں دیکھاگیا، چنانچہ یہ پیلے کا وجدان تھا۔ اِس طرح ہزاروں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ وجدان سے حاصل ہونے والا علم حتمی ہوتاہے اور معاشروں کوہمیشہ متواتر اجتماعی وجدان نصیب ہوتے رہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply