رحمت للعالمین ﷺکے نام ایک خط/محمد وقاص رشید

یا رسول اللہ ص  ! خود کو دیکھوں تو جراتِ تخاطب ہی کا یارا نہیں مگر رحمت للعالمین کا خطاب جھکے ہوئے کاندھوں پر ایک تھپکی دیتا ہے۔ قلم کی روشنائی بنتا ہے۔

“کُن ” کی اس فکری منزلت کو “فیکون” میں سے ہو کر کیسے پاؤں مگر گمان ہے کہ رب العالمین نے اس خطاب سے پہلے خصوصی طور پر تفکر کیا ہو گا کہ ذاتِ اقدس کو کیا ایسا نام دیا جائے کہ انسانی فہم کی محدودات حائل نہ ہوں۔ “وما ارسلنک الا رحمت للعالمین “۔

سلام ہے یا نبی ! کائنات رشک کرتی ہے۔ انسانیت دست بستہ ہے۔ عالمین حیرت زدہ۔ کیا کبھی کسی نے پروردگار کے سوچے سمجھے خطاب کو یوں بھی نبھایا، احساسِ ذمہ داری کی دستارِ نبوت سرِ مبارک پر یوں بھی سجائی۔ علم کی سیج کو عمل سے یوں بھی سجایا کہ جسکی حمد ساری کائنات بیان کرتی ہے اس نے آپکو ” احمد” کہا۔

اے محسنِ انسانیت ! “رحمت للعالمین” کے اس خطاب پر بڑے امتحان آئے۔ اسے طائف کی خشک پہاڑیوں میں سیرابی کی ضرورت پیش آئی تو آپ نے خونِ اقدس پیش  کر دیا۔ سماجی مقاطعہ سے شدید اذیت و تکلیف کی زد میں آکر بھی آپکی رحمدلی اسے دستار بنائے رہی۔ کہیں اس پر اونٹ کی اوجھڑی کی آلائش لگنے لگی اور دلِ دختر سے برداشت نہ ہوا تو انہیں بد دعا سے روک کر آپ نے نورِ عظمت سے اسے پھر منور کر دیا۔ ایک غزوہ کے اختتام پر جب مخالف سپہ سالار نے مفتوح و مقید ہو کر بھی گستاخی کی انتہا کر دی اور مسجدِ نبوی نیاموں سے تلواریں نکلنے کی آواز سے گونج اٹھی تو اسے آزاد کرنے اور عزت سے رخصت کرنے کا حکم یوں دیا کہ اس حسنِ اخلاق کا عمر بھر کا قیدی ہو گیا۔ اس شب تو اس خطاب کی دستار پر گویا “صداقت و امانت” کے ماہتاب و انجم جڑ دیے جب جو مارنے آ رہے تھے انہی کی امانتیں لوٹانے جنابِ علی کو اپنے بستر پر چھوڑ کر ہجرت فرما گئے۔ اور اس ہجرت سے واپسی پر اس خطابِ رحمت للعالمین ص کو امر کر دیا جب مہاجر کی حیثیت سے تشریف لے جانے والے خاتم النبین گیارہ سال بعد ایک فاتح کی حیثیت سے لوٹے تو  انسانی نفسیات کی انتقامی خو کو عام معافی کے اعلان سے سربسجود کر دیا۔ “آج کوئی ذاتی انتقام نہیں ” ۔۔۔وہ جس دربان نے کبھی نماز کے لیے کعبۃ اللہ کا دروازہ نہ کھولا تھا آج جب چابیاں اسی کے ہاتھ پکڑائیں دل پر لگا قفل کھل گیا۔ الغرض صلہ رحمی ، محبت ، شفقت ، عفو و درگزر ، عنایت و عطا ، نرم خوئی ، خندہ پیشانی اور کرم نوازی نے اس “رحمت للعالمین ” کے خطاب کو یوں عملی شکل دی کہ رب العالمین نے اپنی ابدی کتاب میں اسے سرمایہِ انسانیت قرار دے کر تاابد بہترین نمونہ قرار دے دیا۔ ” ورفعنا لک ذکرک ” کی سند کی اس سے بڑی معرفت کیا ہو کہ خدا اور اسکے فرشتے آپ پر درود بھیجتے ہیں۔ درودوسلام آقا۔

مگر اے رحمت للعالمین۔۔۔اگلی سطریں لکھتے شرمساری سے ہاتھ کانپتے ہیں۔ دل ڈوبتا ہے۔ خون آنسو بن کر آنکھوں سے بہتا ہے۔ کلیجہ حلق کو آتا ہے۔ روح جسم کی حدوں سے سر ٹکرانے لگتی ہے۔

یہ سر زمین جو اسلام کی آفاقیت پر ریاستی محدودات کے بہت بڑے سوالیہ نشان کے ساتھ وجود میں آئی۔ جس ختمِ نبوت ص و ناموسِ رسالت ص نے ” لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ ” کی پیروی میں ہمارے عمل سے نظر آنا تھا الٹا ہمارے عمل سے اسے نقصان پہنچنے لگا۔ جس اخلاقِ نبی ص نے اپنی امت کے کردار سے نظر آ کر ترویجِ اسلام کا باعث بننا تھا اسکی اخلاقیات کی تنسیخ ، تشکیکِ اسلام و الحاد کی وجہ بننے لگی۔

آقا جی ! خود کو ادنی ترین امتی کے سوا کچھ گردانتا نہیں۔ پاس کوئی عمل ہے نہ ریاضت ، نہ زعم نہ دعویٰ۔ بس جن عالمین کے لیے آپ رحمت ہیں اسکا ایک ادنی سا ذرہ ہوں۔ مگر پچھلی ایک دہائی میں جو کچھ ان آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سنا وہ بہت تکلیف دہ ہے۔

آپ نے فرمایا تھا کہ جو ملاوٹ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ یہاں جس پورے شہر میں خالص دودھ نہیں ملتا، کسی انسان کی جان لینے وہ پورے کا پورا شہر امڈ آتاہے اور کیسے کہوں کہ وہ بھی آپ کے نام پر۔

آپ نے جن ختمِ نبوت و ناموسِ رسالت کو امن ، محبت ، پیار ، بھلائی ، نرم خوئی ، حسنِ اخلاق ، عفوودرگزر اور صلہ رحمی سے تعبیر کیا تھا اور خدا نے جن سنتوں کو “اسوۃ حسنہ ” کہا تھا وہ ہم میں ناپید ہوئیں۔ یہاں تلک رہتا تو بھی شاید۔۔۔ کہیں کسی کونے گوشے میں خدا کی پناہ مل جاتی مگر یہاں تو پچھلے ایک عشرے میں ختمِ نبوت ص و ناموسِ رسالت کے نام پر جہالت و ملائیت نے دلوں میں وہ نفرت کا زہر بھرا، ذہنوں میں وہ سفاکیت و بربریت کی آگ بھری کہ کل آپکے نامِ اقدس کے نعرے زندگی دینے پر لگتے تھے ، یارسول اللہ کیسے کہوں کہ آج زندگی لینے پر۔ کل آپکے نامِ مبارک کے نعرے اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت پر لگتے تھے آج انہیں جلانے اور مسمار کرنے پر، یا رسول اللہ کیسے کہوں کہ کل آپکے نامِ اطہر کے نعرے آپکے عالمین کے لیے رحمت بننے پر لگتے تھے مگر آج وہی نعرے۔۔۔او خدایا وہی نعرے آپکی امت کے دوسروں کے لیے زحمت بننے ، خوف پھیلانے ، مارنے دھمکانے ،لوٹنے حتی کہ روح قبض کر کے لاش کی بے حرمتی کرنے پر لگتے ہیں۔ اس سے بڑی دینِ رحمت للعالمین کی توہین بھلا کیا ہو گی۔ الامان الحفیظ

اے رسولِ کریم جب یہاں رحمت للعالمین کے خطاب کی دستار اور ” لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ” پر انسانی لہو کی پہلی چھینٹ پڑی تو ظالموں نے یہ نعرہ بنایا ، اسی وقت اس ادنی سے امتی کی روح کانپ گئی، بساط بھر واویلا کیا ، ہاتھ جوڑے مگر لوگ کہتے تھے ٹھیک ہے بدزبانی کرتا ہے مگر مقصد نیک ہے، عرض کرتا رہا کہ آپ ص سے زیادہ مقصد کس کا نیک ہو گا ، حسنِ اخلاق کو نمونہ قرار دیا ، یہ کہاں چل پڑے خدارا رکو۔ مگر نکار خانے میں طوطی کی صدا کون سنتا۔

یارسول اللہ ! اظہارِ شرمساری کے لیے الفاظ نہیں کہ بتا سکوں کہ اس عہد میں زندہ ہوں کہ جس عہد میں انسانوں کے نامہِ اعمال کیمروں کی آنکھ سے مصنوعی یاداشتوں کے خزینوں میں محفوظ ہونے لگے۔ بہت شرمندہ ہوں کہ اس عہد میں فلسفہِ رحمت للعالمین کی شدید ترین توہین کی ویڈیوز ہم پاکستانی مسلمانوں نے تاقیامت محفوظ کر دیں۔ دل خون کے آنسو روتا ہے یہ سوچ کر کہ سسکاتے ، تڑپاتے ، پور پور پر چرکے لگاتے اور اذیت ناک ترین موت دیتے انسانوں پر آپکے نامِ اقدس کی گونج جب وہ عالمین سنتے ہونگے جن پر آپ رحمت ہیں تو وہ کیا سوچتے ہونگے۔ اسلام کا مطلب سلامتی و امن کیسے تسلیم کرتے ہونگے۔

اے رحمت للعالمین چشمِ تصور سے وہ منظر نامہ سوچ کر شدید اذیت ہوتی ہے بہت دکھ کہ جب فرشتے دربارِ رحمت للعالمین میں حاضر ہو کر زمین سے آنے والی “ل،ب،ی،ک کی پکاریں” پیش کرتے ہونگے تو یہ مناظر دیکھ کر دل اقدس پہ کیا بیتتی ہو گی۔۔۔۔وہ دلِ اقدس جس میں عالمین کی رحمت سمائی ہوئی ہے آقا۔۔۔ وہ جن کے لیے آپ یہاں روتے تھے ، وہاں بھی آپکو رلاتے ہیں۔ بہت نادم ہوں ۔

درودوسلام ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک امتی سرکار

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply