ناول”چھٹکی”(عارف خٹک)تبصرہ۔۔اظہر حسین بھٹی

جیسے ململ کے کپڑے کو کسی کانٹوں سے بھرپور لدی ہوئی جھاڑی پہ رکھ کر بڑی بےدردی سے کھینچا جائے ناں ،بالکل ویسی ہی اذیت سے دوچار ہوا ہوں میں یہ ناول پڑھ کر۔
“چھٹکی”محبت کے بارے میں لکھا گیا بہت ہی عمدہ اور شاہکار ناول ہے۔ محبت کے خمیر سے گندھی ایک لاجواب کہانی اور میں جو محبت کو اِس دنیا کا سب سے بڑا نشہ کہتا آیا ہوں تو یہ ناول پڑھ کر مجھے لگا کہ ” محبت” کا دوسرا نام اگر کوئی ہوتا تو “چھٹکی” ہوتا ۔
آئیے اب چند پوائنٹس میں اِس ناول کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
1- محبت اور عشق (میری نظر میں)
محبت وہ دلگداز احساس ہے جو جوان ہوتے ساتھ ہی ہمارے دل میں پنپنے لگ جاتا ہے۔ چاہنا اور چاہے  جانا کسے اچھا نہیں لگتا ۔ کوئی ایسا چہرہ ہوتا ہے جو دل کو پہلی ہی نظر میں بھا جاتا ہے اور پھر دن رات بس اسی محبوب کے خیال میں ہی گزرنے لگتے ہیں۔
لیکن کم بخت محبت میں ایک مسئلہ ہوتا ہے یہ خراج مانگتی ہے ۔ یہ چاہتی ہے کہ جتنی محبت دی جائے واپسی پہ اتنی ملے بھی ۔
کوئی بھی انسان کسی کو تاحیات محبت نہیں کر سکتا۔ اگر محبت کے بدلے میں محبت نہ ملے تو محبت آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتی ہے۔ یہ ایک طرح کی کمیٹی ہوتی ہے،جتنی ڈالو اُتنی ہی نکلنی چاہیے نہیں تو دل دُکھنے لگتا ہے ، عدم برداشت اور صدمے سے طبیعت بوجھل رہنے لگ جاتی ہے۔جبکہ عشق ذات کی نفی کا نام ہے ۔اِس میں کوئی شرط نہیں ہوتی ۔ اس میں بس دینا ہوتا ہے ۔ لینا کچھ نہیں ہوتا اور نہ ہی لینے کی کوئی چاہ دل میں موجود ہوتی ہے ۔ اس میں صرف یار کی خوشی دیکھی جاتی ہے،اور یار جس شے پہ راضی ہو    پھر اُسی میں راضی رہنا پڑتا ہے۔
جے یار میرا دکھاں اچ راضی
تے میں سکھ نوں چلے ڈانواں

عشق میں شرطیں نہیں ہوتیں۔ بس عشق ہوتا ہے۔سر جھکا ہوا بس اثبات میں ہلتا ہے۔منہ سے کچھ نکلے بھی تو بس “جی” نکلتا ہے۔ اور اِس ناول میں عارف نے محبت سے عشق تک کا سفر بڑی خوبصورتی سے طے کیا ہے۔ جو کہ پڑھنے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈالے رکھتا ہے۔۔

2- محبت کسے نہیں ہوتی  ؟
جب کوئی اِنسان بڑا سُست،ڈھیلا ڈھالا اور اَدھ موا سا دکھائی دینے لگے تو سب سے پہلے اس کا ماتھا یا کلائی دیکھ کر اس کا بخار چیک کیا جاتا ہے کہ آیا اس کی طبیعت میں یہ تبدیلی کہیں بخار کی وجہ سے تو نہیں ہو رہی ۔
بالکل ویسے ہی انسان جب بے وجہ ہنسنا شروع کر دے ، جہاں بیٹھے تو بیٹھا ہی رہ جائے، کھڑا ہے تو کھڑا رہ جائے تو فوراً سب کے دماغ میں ایک ہی بات آتی ہے کہ کہیں اِسے محبت نے تو نہیں آ گھیرا ۔
اور جب کوئی صبح دیر تک سونے والا انسان اچانک تہجد کے وقت اٹھنے لگ جائے ، باوضو رہے اور نمازی ہو جائے تو پھر یہی گمان سر اُٹھانے لگتا ہے کہ ہو نہ ہو اس بدبخت کو ہجر چمٹ گیا ہے۔ اور ہجر کا جِن کسی پیر فقیر سے نہیں نکلتا ، اس کا تو ایک ہی تعویز ہوتا ہے “وصلِ یار” ۔

عارف کی ماں بھی عارف کو سمجھا بجھا کر اور اپنی غربت اور ثقافت کے بارے میں بتا کر خود کو یہ یقین دلانے کی ناکام کوشش کر لیتی تھی کہ اب عارف محفوظ ہے مگر ہائے کہ ماں کی معصومیت کہ وہ اِس “کمبخت محبت” سے عارف کو نہ بچا پائی ۔ شاید ایسا کوئی ٹوٹکہ ابھی تک کوئی ایجاد ہی نہیں کر سکا کہ جو محبت سے بچاؤ اور حفاظت کا ضامن نکلے۔
جوانی کی سب سے بڑی دشمن “محبت” سے بھلا کس کا بیٹا بچ پایا ہے آج تک اِس جذبے نے تو جانے کتنی ہی ماؤں کی “کوکیں” اُجاڑ کے رکھ دیں ہیں۔۔۔اور یہ کام اب بھی جاری و ساری ہے۔

3- عارف نے چھٹکی کے تھپڑ پہ اتنا “ری ایکٹ” کیوں کیا؟
بڑا سادہ سا جواب ہے اِس کا اور وہ یہ کہ عارف کی محبت تب کچی تھی۔۔۔پتہ ہے کیوں؟
کیونکہ محبت ہو جائے نا  تو پھر ہجر لازم ہو جاتا ہے اور ہجر بھی ایسا کہ سزائیں کانپ اُٹھیں اور ویسے بھی محبت کو جب تک ہجر کے تتّے توے پہ سَیکا (تپش) نہ نہ لگے محبت پک کے تیار ہی نہیں ہوتی۔۔۔اور جب تک محبت پکتی نہیں، بےسوادی رہتی ہے اور بےسوادی شے انسان کو چِڑچِڑا کر دیتی ہے۔
ہجر کے تتّے توے کی تپش ایک اور کام بھی کرتی ہے اور وہ ہے اَنا کو مارنا۔کیونکہ جب تک اَنا نہیں مرتی محبت کا پودا بڑا نہیں ہوتا۔
اَنا کی موت ہی محبت کی حیات ہوتی ہے۔اور عارف نے ہجر کا اذّیت بھرا دریا عبور کر کے یہ بھی ثابت کیا کہ
یہ عشق نہیں آساں
بس اِتنا سمجھ لیجیے
اِک آگ کا دریا ہے
اور ڈوب کے جانا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

4- محبت کسے ملتی ہے۔؟
محبت اپنے آپ میں ایک بہت بڑا سکینر ہوتی ہے۔ یہ چوری کھانے والے اور خون دینے  والے مجنوؤں کو فوراً پہچان لیتی ہے۔اِس کا نظام اِتنا سخت ہوتا ہے کہ یہاں کسی کی سفارش نہیں چلتی۔
یہاں ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی بھی منہ اُٹھا کر آئے اورمحبت کا دعویٰ کر کے محبت لے جائے۔ محبت ٹھیک ٹھاک امتحان لیتی ہے اور اِس امتحان میں وہی شخص امتیازی نمبروں سے پاس ہوتا ہے جو خود کی ذات کی نفی جلدی کر لیتا ہے۔
محبت تھیوری کی بجائے عملی کام کرنے والوں کو زیادہ پسند کرتی ہے۔ اور یوں وہ آخرِکار خود کو کسی ایک شخص کے سپرد کر دیتی ہے۔
جیسے عارف خٹک کو “چھٹکی” ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply