مولانا کا کمال/اعظم سواتی

کون نہیں جانتا کہ نیازی سرکار کے خاتمے کی آرزو سب سے زیادہ مولانا فضل الرحمان کے دل میں مچل رہی تھی ۔ وہ تو ۲۰۲۰ میں ہی اسٹبلشمنٹ کے بی ٹیم کے اشارے پر آزادی مارچ کے نام سے اسلام آباد آکر بیٹھ گئے تھے۔ باجوہ کے ایکسٹنشن کا معاملہ چل رہا تھا اور جنرل سرفراز چاہتے کہ باجوہ ریٹائرڈ ہوجائے تاکہ وہ چیف بن سکے۔
اس کے لئے مولانا سے رابطہ  ہوا اور پھر سب تاریخ کا حصّہ ہے۔ شہباز شریف اور زرداری کو حقیقت معلوم تھی اس لئے انہوں نے علامتی ساتھ دیا لیکن محتاط رہے۔

ڈی چوک جانے والی رات باجوہ اور فیض سے ملاقات میں تلخ کلامی ہوئی اور پھر مولانا کے پارٹی کے ایک سینٹر کے گھر بی ٹیم والوں نے مولانا سے ملاقات میں اپنی مجبوریاں بیان کرکے مزید حمایت سے معذرت کردی۔

اس شام جب مولانا جلسے میں آئے تو وہ کافی مایوس اور دلبرداشتہ تھے ان  کی شکل رونے والی تھی۔ مولانا کو فیس سیونگ دینے کے لئے چوہدری برادران کے ذریعے یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ ایکسٹنشن کا معاملہ ہونے دیں مارچ تک ہم حکومت کو فارغ کردیں گے۔

مولانا کے نزدیک اسٹبلشمنٹ کا اس طرح کردار عین ۱۹۷۳ کے آئین کے تناظر میں تھا۔

۲۰۲۲ کو جب نیازی کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو سب سے زیادہ پُرجوش مولانا صاحب تھے۔ آج کہتے ہیں میں نے اپوزیشن کے اتحاد کو بچانے کے لئے ساتھ دیا۔ کوئی پوچھے وزارتیں اور گورنر شپ لینے میں کیا مجبوری آگئی تھی بلکہ پارلیمان کی چھوٹی جماعت ہونے کے باوجود مولانا نے اپنی  پارٹی کے لئے سب سے زیادہ حصّہ وصول کیا ۔

کل برطانوی وزیراعظم نے اسمبلی توڑ کر قبل ازوقت انتخابات میں جانے کا فیصلہ کیا لیکن مولانا فضل الرحمان آخری وقت تک انتخابات کے التوا کے لئے زور دیتے رہے۔
اسی دوران مولانا کہتے تھے کہ موجودہ اسٹبلشمنٹ معیشت کو ٹھیک کرنے کے لئے پُرعزم ہے لیکن ایک انتشاری ٹولہ سیاسی عدم استحکام کے درپے ہے۔
جب انتخابات میں بقدر خواہش حصہ نہیں ملا تو،اسی ٹولے کے ساتھ مل کر اسی اسٹبلشمنٹ کے خلاف تحریک چلانے پر آگئے۔

یہ مولانا ہی کا کمال فن ہے کہ عمران نیازی کے یہودی ایجنٹی سے عالم اسلام کی لیڈری تک کا آدھا سفر ایک بیان میں طے کردیا۔
فرماتے ہیں کہ
“ اگر ہم کسی کو انگریز کا ایجنٹ یا یہودی ایجنٹ کہتے ہیں تو یہ کوئی گالی نہیں ، اس کے جواب میں گالیاں دینے کی بجائے میرے خدشات دور کرتے ، اپنی مجبوری اور وضاحت سامنے لاتے۔ “

اب نیازی سے صرف ایک ملاقات کی دیر ہے جس کے بعد مولانا فرمائیں گے کہ
“ برخوردار محترم عمران خان صاحب سے ملاقات میں تمام امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی ، جس میں انہوں نے ہمارے ان خدشات کو دور کردیا جس کی بنا پر ہم اسے یہودیت سے  قریب  سمجھتے رہے اور ہمارے اصولی موقف کی تائید کی ،ویسے بھی ریاست مدینہ میں پیغمبر اسلام نے سب سے پہلا عہد نامہ یہود کے ساتھ کیا تھا، لہٰذا ۱۹۷۳ کے آئین کے تناظر میں ہم ملکر ایک پُرامن جمہوری جدوجہدشروع کرنے پر اکتفا کرتے ہیں”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ویسے ان باتوں سے قوم یوتھ کو تو کوئی فرق نہیں پڑنا بلکہ وہ کہیں گے کہ یہ ہمارے لیڈر کی جیت کہ مولانا جیسا سخت مخالف بھی اس کا گرویدہ ہوگیا۔
نہ مولانا کے پیروکار  سیخ پا ہوں گے کہ مذہبی کلٹ سیاسی کلٹ سے زیادہ سخت جان ہوتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply