• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • یہ محبت ہے کیا کِیا جائے؟-’فردوس سخن‘ پر کچھ باتیں/ محمد ہاشم خان

یہ محبت ہے کیا کِیا جائے؟-’فردوس سخن‘ پر کچھ باتیں/ محمد ہاشم خان

اس وقت میرے سامنے نوجوان شاعر عزیزم کاشف شکیل کا مجموعہ کلام ہے جسے میں اس کی طباعت اور ضخامت کے لحاظ سے مذاقاً QR کوڈ کہتا ہوں۔ پس محبت سے ملفوف یہ ’کیو آر کوڈ‘ میرے سامنے ہے، عبارت پر نظر پھیلتی جارہی ہے اور چشم تصور کی حیرانی بھی۔ کہاں میں بندۂ روسیاہ، ابھاگا اور نابکار اور کہاں اللہ اور اس کے رسول کی شان میں کاشف کا یہ کشف نامہ۔ معصیت میں غرق مجھ جیسا خفتہ بخت اور حب رسول میں مگن یہ سرمستِ سخن۔چشم عاری نے یہ دن بھی دیکھنے تھے، گردش افلاک یوں زبون و خوار ہونے کے سامان فراہم کرتی ہے، انفعال و پشیمانی کا احساس اس طرح بھی شرمندہ تقدیر ہوگا یہ نہ تو میرے تصور میں تھا اور نہ ہی واہمہ اتنا فراخ تھا۔ یہ غوغائے رستا خیز یقیناً بے جا اور غیر مطلوب ہے لیکن جب غوغائی کاشف شکیل ہو تو پھر یہ بخت نا رسا جہاں لے جائے، یہ محبت ہے کیا کیا جائے۔

جب سیئات اور حسنات ایک جگہ جمع ہوں تو یہ مشکل تو پیش آنی ہے کہ لب اظہار وا نہیں ہوسکتے اور اگر کھلے تو پھر سلیقہ کہاں سے لائیں، ہم انا پسند، ہم نفس پرست، فصلِ خزاں میں لالۂ تازہ کی ہوس رکھنے والے، اپنے ہی نقش پا کے عقیدت گزار لوگ، کچھ اور دیکھنے کو بصارت کہاں سے لائیں، شرح صدر ہو تو بیان کے کچھ قرینے بھی آئیں کہ فی الحال ناطقہ سربہ گریباں، خامہ انگشت بدنداں، اور ذہن زندان بنا ہوا ہے۔ فکر کے سارے دریچے بند ہیں مگر دشتِ خیال میں کہیں دور بہت دور خوابوں سے معمور ایک کھڑکی ہے جو روشن ہے، ایک حیرت سرا ہے عقیدت کی اقلیم میں، عالم امکان سے ماورا، تمنا کا دوسرا قدم ہے، نقشِ کف پائے اطہر سے منور۔ ایک روزن ہے جہاں سے حب رسول کی روشنی آتی ہے اور مرکزِ کائنات کو تاباں رکھتی ہے۔ یہ تو بات ہوئی خیال کی لیکن جب سامنے پڑے حروف سیاہ کو لفظ نہیں عقیدت کا پیکر سمجھیں گے تو ایک اور روزن دکھائی دے گا؛ جذبات کی معصومیت کا روزن۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ معصومیت کے اس روزن سے چھن چھن کر جو الفاظ آ رہے ہیں ان میں کاشف کے حسن جذبات کا غازہ بھی شامل ہے۔ یہ جذبات نقش بر آب نہیں، نقش در خواب نہیں، یہ کاشف کا ایقان و اعتقاد ہیں۔
بلاشبہ کاشف کا یہ مجموعہ فنی نقائص سے پاک نہیں، رفعت خیال سے خالی ہے، حسن آفریں تراکیب کا فقدان ہے، کلام میں رخامت ضرور ہے لیکن شعریت نہیں، سوز و ساز اور گداختگی نہیں، یوں لگتا ہے کہ کسی لوہار کے ہاتھ میں سونار کے اوزار آگئے ہیں اور انہیں ہتھوڑے کی طرح استعمال کر رہا ہے۔ کلام کا موزوں ہونا یقیناً شعری ضرورت ہے لیکن اینٹ پر اینٹ بیٹھانا مستری کا کام ہے شاعر کا نہیں۔ شاعر کا کام اینٹ میں روح ڈالنا ہے، اسے گویائی عطا کرنا اور پھر اذن تکلم دینا ہے اور یہی وہ کار گراں ہے جو کاشف شکیل سے نہیں ہو پایا ہے۔ ابھی اسے کارگہ شیشہ گری، آشوبِ آگہی، وبالِ شوریدگی اور جہان دیروز و امروز کی گیلی آگ میں مزید سلگنے کی ضرورت ہے تبھی شاعری کیمیا اور کرامت میں تبدیل ہوگی اور جب ایک بار شاعری اپنے خزانے کا در کھول دے گی تو جو چاہیں چھانٹ کر لے آئیں؛ خواہ حمد ہو یا نعت، نظم ہو غزل ہو، قصیدہ یا مرثیہ جو بھی ہوگا وہ یقیناً مثل در نایاب ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چونکہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے کہ اس مجموعے کی عمدہ ترین خاصیت جذبات کی معصومیت ہے جو منہج سلف کے تغار میں صیقل ہو کر یہاں تک آئی ہے اس لیے فنی محاسن اور شعری نقائص وغیرہ سے قطع نظر جب یہ دیکھیں گے کہ کاشف نے خیال کی ورجینِٹی کو آلودہ ہونے سے بچا لیا ہے تو پھر یہ ساری کاوش ’چیزے دیگری‘ نظر آئے گی۔ کاشف کے جذبات کی سادگی اس کے کلام کا حسن ہے اور یہ وہ کمال ہے جو بہر صورت خراج تحسین کا متقاضی ہے۔ خیال کی یہ ورجینٹی یقیناً دیکھنے کی چیز ہے کہ فی زمانہ زمانے کا یہ نیرنگ خال خال ہی نظر آتا ہے۔ جہاں کاشف کی عمر کے بچے لہو و لعب میں مبتلا ہوں، لب و رخسار سے آگے سوچنے کا ویژن نہ رکھتے ہوں، اپنی ذات اور اس کی مقصدیت سے ناواقف ہوں وہیں کاشف جیسے تخلیقی ذہن کا حب رسول میں مبتلا ہونا اور منظوم پیرایے میں اظہار کرنا واقعتاً ایک لمحہ فکریہ ہے۔ زمانے کی موجودہ روش کے مطابق اسے بہ آسانی ذہنی انحراف کہہ سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ روش کے خلاف چلنے کی ہمت و استقامت کتنے لوگوں میں ہوتی ہے؟ کاشف کا کائنات کے ساتویں در پر قدم رکھنا اسٹیریوٹائپ کے خلاف ایک اسٹیٹمنٹ ہے۔یہ ایک اسٹیٹمنٹ ہے کہ وہ بے چہرہ ہجوم کا حصہ نہیں، فکری طور پر سماج کے اوسط ذہن سے ایک پایہ بلند ہے کہ وہ فکری حسیت و مدرکت کا نقیب ہے، شناخت اس کا مقدر ہے۔یہ مجموعہ اس لائق ہے کہ اسے پڑھا جائے اور اس نوجوان شاعر کے جذبات کو خراج تحسین پیش کیا جائے۔

Facebook Comments

محمد ہاشم خان
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں (مصنف افسانہ نگار و ناقد کے علاوہ روزنامہ ’ہم آپ‘ ممبئی کی ادارتی ٹیم کا سربراہ ہے) http://www.humaapdaily.com/

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply