سماج اور سماجی حرکیات/ادریس آزاد

سماج زندہ ہے۔ سماج سانس لیتاہے۔ سماج عمرگزارتا، بڈھاہوتا اور مرجاتاہے۔ کوئی سماج ایک انفرادی انسانی زندگی کی اجتماعی شکل کا حیاتیاتی اورنامی اظہارہے۔ بالکل ویسے جیسے ایک باغ، پودے پودے سے مل کر بنتا ہے لیکن اپنی کلیّت میں وہ الگ الگ پودا نہیں بلکہ ایک باغ ہے۔ وہ کسی ایک پودے کی طرح ہی زندہ ہوتاہے۔ سماج بھی ایک زندہ جسم کی مانند ہے۔ سماج مُردہ بھی ہوتاہے۔ ایک مردہ سماج کو جامد(stagnant) سماج کہاجاتاہے۔ ایک زندہ سماج کو متحرک(dynamic) سماج کہاجاتاہے۔ ایک متحرک سماج کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ اس میں پاگل لوگ زیادہ پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو صابطوں کو شناخت تو کرلیتے ہیں لیکن ان کے پابند ہونا پسند نہیں کرتے۔ ایساسماج جس کے تمام شہری ضابطوں کے پابند ہوکر زندگی جیتے ہیں اسے جامد سماج کہاجاتاہے۔

ہرسماج میں ہمیشہ دونسلیں موجو د ہوتی ہیں۔ ایک نئی نسل اور ایک پرانی نسل۔ پرانی نسلیں قدیم رسم و رواج اور قواعد کی پابند ہوتی ہے، جبکہ نئی نسلیں ان قواعد میں رخنے تلاش کرتی اور نت نئے رسم و رواج کو پیدا کرنے کی تحریک جاری رکھتی ہے۔ جس سماج میں پرانی نسلوں کاقبضہ ہوتاہے وہاں نئی نئی رسموں کے رواج کا امکان کم ہوتاہے لیکن اس کے برعکس جس سماج پر نئی نسلوں کا قبضہ ہوتاہے وہاں آئے روز کچھ نیا ہوتا رہتاہے۔ دراصل پرانی نسلوں کو، نئی نسلوں کے اختراع و ایجاد میں اپنے سماج کے انہدام کے خطرات نظر آتے ہیں۔

سماج کے باغ کے مالی کو ریفارمر کہاجاتاہے۔ ریفارمر قدیم ادوار میں خدا کے پیغمبروں کی صورت ظاہر ہوا کرتے تھے۔ لیکن جدید ادوار کے ریفارمر پیغمبر تو نہیں ہوتے لیکن پھر بھی وہ مالی کا کردار ادا کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔ اگر کسی سماج میں کوئی ریفارمر موجود نہ ہوتو لازم ہے کہ اس سماج کے تجربہ کار اور دانا لوگ مل کر ایک مجلس ِ شوریٰ بنالیں۔ اگروہ ایسا نہیں کرتے تو افترأ کے دروازےکھل جاتے ہیں۔ مجلس ِ شوریٰ جو ریفارمز کرتی ہے اسی کو اجتہاد کہاجاتاہے۔ اگر کسی سماج میں اجتہاد کے دروازے بند ہوجائیں تو اس سماج میں افترأ کے دروازے چوپٹ کھل جاتے ہیں۔ دراصل کسی متحرک (dynamic) سماج میں تبدیلی کو روکا نہیں جاسکتا وہ خودکار ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب کسی سماج کے دانا اورتجربہ کار لوگ نت نئی رسموں کے افترأ پر چوکیداری کرنے کے اہل نہیں رہتے تو ہرقسم کی نئی رسمیں سماج میں رواج پاجاتی ہیں۔ ان میں ایسی رسمیں بھی ہوتی ہیں جو کسی سماج کو مفلوج کرناشروع کرسکتی ہیں۔ بالکل ویسے جیسے کسی باغ میں اگر آکاس بیلوں کی بہتات ہوجائے تو باغ سُوکھنے لگتاہے۔

باغ میں نت نئے پھول پودے بھی اُگتے ہیں اور نت نئی جھاڑجھنکار بھی بہتات سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر مالی (ریفارمر) بروقت اس جھاڑ جھنکار کا صفایا نہیں کرتا توجلد ہی وہ جھاڑ جھنکار اور آکاس بیلیں تناور درختوں اورہرے بھرے پودوں کا سارا خُون پی جاتی ہیں۔ یہ مالی کا کام ہے کہ وہ اپنے باغ کی حفاظت کرے۔ اس کی جھاڑیوں کو گاہے بگاہے صاف کرتا رہے۔ کسی سماج کی جھاڑیاں وہ بُری رسمیں ہوتی ہیں جو نئی نسل کی جانب سے متعارف کروائی جانے والی جھاڑ جھنکار اور آکاس بیلوں کی صورت سماج کے ہرے بھرے باغ میں اُگنے لگتی ہیں۔ نئی نسلوں کی طرف سے کسی سماج میں صرف بری رسمیں ہی نہیں آتیں بلکہ اچھی رسمیں بھی نئی نسلوں کی طرف سے ہی وارد ہوتی ہیں۔ کسی سماج کی اچھی اور بری رسموں کی پہچان کیا ہے؟َ

دراصل اچھائی اور برائی کی تعریف تو ممکن نہیں ہے لیکن اچھی رسموں اور بری رسموں کی تعریف ممکن ہے۔ اچھی رسموں کو ’’معروف‘‘ اور بُری رسموں کو’’مُنکر‘‘ کہاجاتاہے۔ معروف وہ رسمیں ہوتی ہیں جنہیں لوگ دل سے اچھا جانتے اور ان پر عمل کرنے کے پابند نہیں ہوتے ۔ اس کے برعکس بری رسمیں وہ ہوتی ہیں جنہیں لوگ دل سے برا جانتے ہیں لیکن پھر بھی ان پر عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ جیسے جہیز کی رسم ہے یا ذات پات میں ایمان کی رسم۔ تمام لوگ جہیز کی رسم کو برا جانتے ہیں لیکن پھر بھی جب اپنا وقت آتاہے تو اسے نبھانے کے پابند ہوتے ہیں۔ چنانچہ معروف اور منکر وہ اچھی اور بری رسمیں ہیں جو کسی معاشرے میں خود بخود وجود میں آتی رہتی ہیں۔ اگر کسی سماج میں ریفار مر موجود ہوتو باسانی اس سماج میں سے بری رسموں کا خود بخود خاتمہ ہوتا رہتاہے کیونکہ ریفارمر کی بنیادی تعریف میں سماج کی بری رسموں کا خاتمہ کرنے والے کی خصوصیت پہلی شرط کے طورپر شامل ہے۔ جب کسی سماج میں ریفارمر موجود نہیں ہوتا اور وہ بدستور ایک متحریک سماج کے طورپر زندہ ہوتاہے تو اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ اس سماج میں داناؤں کی کابینہ موجود ہے جو اجہتاد کے ذریعے بری رسموں کا بعینہ اسی طرح خاتمہ کرتی رہتی ہے جیسے کوئی ریفارمر کرسکتاہے۔ اگر کسی سماج میں نہ ریفارمر موجود ہو اور نہ ہی کوئی کابینہ جو اجتہاد کے فرائض انجام دے سکے تو اس سماج میں لازمی طورپرتحرّک رُک جاتاہے اور وہ سماج افترعات کی شدت کی زد میں آکر جامد ہونے لگتاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کسی متحرک سماج کی بنیادی شناختوں میں یہ شامل ہے کہ وہاں نظم و ضبط کا مکمل راج نہیں ہوتا۔ وہاں گاہے بگاہے کوئی نہ کوئی پاگل پیدا ہوتا رہتاہے، جو نظم و ضبط کو تباہ کرتا اور نت نئی اختراعات کو رائج ہونے کے مواقع فراہم کرتا رہتاہے۔ دراصل متحرک سماج کا ہرفرد پاگل ہوجانے کے لیے آزاد ہوتاہے۔ اسے اپنے سماج کے قواعد و ضوابط سے چڑ ہوتی ہے۔ متحرک (Dynamic) سماج کے متحرک ہونے کی بنیادی وجہ ہی دراصل یہی ہوتی ہے کہ اس کے افراد آزاد ہوتے ہیں۔ ہرفرد ہی اپنی ذات، شخصیت اور صلاحیتوں کا کھلم کھلا اظہارکرسکتاہے۔ صرف ایسے ہی سماج میں خیر کے رواج کا تصور ممکن ہوپاتاہے۔ فردکی آزادی اسے خیر کا اہل بنادیتی ہے، کیونکہ بقول اقبال ’’آزادی خیر کی شرطِ اوّلین ہے‘‘۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply