انسانی تاریخ کے سب سے زیادہ کامیاب اور مقبول ترین فنکار “پابلو پکاسو” کا ذکر چھیڑتے ہیں. پیکاسو “تجریدی مصوری” کا موجد تھا. “عمل کو کامیابی کا بنیادی ستون” کہنے والا پابلو پیکاسو ایک کمال انسان تھا، ایک باغی، روایت شکن اور ایک متحرک انسان…!
پیکاسو نے ابتداء عمر سے ہی روایتی تعلیم سے بغاوت کی. پیکاسو کا والد جو خود بھی ایک مصور تھا، اُس نے جب پیکاسو کی ڈرائنگ دیکھی تو اُس نے اپنا برش اور پینٹ پیکاسو کے حوالے کرتے ہوئے ہمیشہ کے لیے پینٹنگ کو خیرآباد کہہ دیا. سال 1900ء میں پیکاسو کو اپنی پہلی مصوری نمائش کی اجازت ملی، پھر پیکاسو 1904ء میں پیرس منتقل ہو گیا اور وہیں رہنے لگا. جہاں اُس نے Bateau Laboir کے نام سے اپنا سٹوڈیو بنایا. پیکاسو نے ایک بار کہیں لکھا تھا کہ “فنکاری یہ ہے کہ روح پر سے روایتی زندگی کی گرد کو صاف کیا جائے.”
پیرس میں رہتے ہوئے اُس نے ابتدا میں مایوس ، اداس اور بیمار کرداروں اور سرکس میں ناچنے والوں کی تصویریں بنائیں. یہ تصاویر خالص نیلے رنگوں میں بنائی گئی تھی، اِس لیے پیکاسو کی مصوری کے اُس دور کو “نیلا دور” کے نام سے پہچانا جاتا ہے. پھر پیکاسو کی مصوری کا “گلابی دور” شروع ہوا. اِس کے بعد پیکاسو کی باغیانہ رَگ پھر سے جاگ اُٹھی اور اُس نے مصوری کی تمام سابقہ روایات سے تعلق توڑ لیا. پھر دو سال افریقی حبشیوں کی قدیم مصوری اور سنگ تراشی کا عمیق مطالعہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ عظیم فنکار “سیزانے” کا مطالعہ بھی کیا.
بعدازاں 1909ء میں پیکاسو کی مصوری کا “کیوبزم” کا دور شروع ہوا. پھر 1920ء سے اُس نے حقیقت پہ مبنی مصوری کی. جنگ کے بعد پیکاسو نے کوزہ گری شروع کر دی. پیکاسو اپنی بےپناہ فنکارانہ صلاحیتوں کی بِنا پر عالمگیر شہرت کا حامل بنا. اُسکی کئی تصاویر ایسی ہیں جو دنیا کی مہنگی ترین مصوری میں شامل ہیں.
پیکاسو ایک ماسٹر تھا اور ایک دیو مالائی شخصیت تھا۔ بیسویں صدی کی ہر تحریک میں اس کا ہاتھ تھا اور وہ اُن تحریکوں کے اہم ترین افراد میں سے تھا. پیکاسو نے لاتعداد “جنگ مخالف” پینٹنگ بھی بنائی تھیں. مگر پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے دوران پیکاسو “غیرجانبدار” ہی رہا اور باقی افراد کے رویے کے متضاد وہ کسی بھی ملک کی فوج کشی کا حصہ نہ بنا. سپین میں “سول وار” کے دوران بھی پیکاسو کا یہی غیرجانبدار رویہ تھا.
سپین کے باقی تارکین وطن جو فرانس میں رہ رہے تھے عموماً جنگِ عظیم اور سپین سول وار کے دوران غیرجانبدار نہ رہ سکے اور مسلح جدوجہد کی مگر یہ پیکاسو تھا جو غیرجانبدار رہا اور بار بار جنگوں کے خلاف لکھتا، بولتا اور مصوری کرتا تھا. حتی کہ پیکاسو نے سپین اور یورپ کے مشہور جنرل فرانسسکو فرانکو کے خلاف مصوری شروع کر دی.
پابلو پیکاسو نے 1944ء میں کیمونسٹ پارٹی آف فرانس میں شمولیت اختیار کی اور تادمِ مرگ پارٹی کا وفادار رکن رہا. 1945ء کے دوران پیکاسو نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ “وہ ایک کمیونسٹ ہے اور اُسکی مصوری بھی کیمونسٹ ہے”. 1950ء میں اُسے لینن امن انعام دیا گیا. اُس عہد میں پیکاسو اپنے سیاسی نظریات اور وابستگیوں کی وجہ سے یورپ کی متنازعہ ترین خبروں، بحثوں اور باتوں کا مرکز تھا.
اُن دنوں ایک دوسرے مشہور مصور سلواڈور ڈالی کا طنز بہت مشہور ہوا تھا کہ:
“پیکاسو ایک مصور ہے اور میں بھی، پیکاسو سپین سے ہے اور میں بھی، پیکاسو ایک کیمونسٹ ہے مگر میں بھی نہیں.”
مشہور مصنف جان برگر نے کہیں لکھا تھا کہ
“پیکاسو کی کیمونسٹ وابستگی نے اُس کی صلاحیتوں کو قتل کردیا تھا.”
پیکاسو کے ہی دوست اور مشہور آرٹسٹ جین کاکٹیو کی ڈائری کے مطابق اُسے پیکاسو نے کیمونسٹ پارٹی آف فرانس کے حوالے سے بتایا کہ۔۔۔۔
“میں نے ایک خاندان میں شمولیت اختیار کی ہے، اور باقی خاندانوں کی مانند یہ خاندان بھی بکواسیات سے بھرا ہوا ہے.”
خیر دوسرے عظیم الشان افراد کی مانند پیکاسو کی زندگی تنازعات سے بھر پور تھی. اُس کے کئی قریبی دوست اُس کی کیمونسٹ وابستگی کی وجہ سے اُسے چھوڑ گئے. اُس کے وہ دوست جو خود بھی کیمونسٹ تھے مگر اُسکی ٹراٹسکی( مشہور سٹالن مخالف کیمونسٹ راہنما) کی حمایت نہ کرنے کے غیرمصالحانہ رویہ کی بنا پہ قطع تعلق کر گئے. لیکن پیکاسو تادمِ مرگ اپنے نظریات، خیالات اور کیمونسٹ پارٹی آف فرانس کے ساتھ ڈٹا رہا. پیکاسو اقوامِ متحدہ اور امریکہ کی پالیسیوں کا بہت بڑا ناقد تھا، خاص طور پر دوسرے خطوں کے اندر امریکی مداخلت کے خلاف…..
پابلو پیکاسو کی متنوع اور کثیرالجہت زندگی کی وجہ سے اُس کی زندگی کے کئی دوسرے امور عموماً نظرانداز کر دئیے جاتے ہیں. پیکاسو نے اپنی زندگی کے ابتدائی 53 سال شاعری یا دوسرے علمی کام پہ توجہ مرکوز نہیں کرتا رہا، مگر 1935ء میں اُس جزوقتی طور پہ مصوری ترک کردی اور ساری توجہ شاعری پہ مرکوز کر دی. اُس دوران پیکاسو نے سُو سے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں