سماج کی اخلاقیات، تفریح، تخلیق یا ادب کس قسم کا ہونا چاہیے؟
معیاری و غیر معیاری تخلیق جیسی اسناد کون عطا کرتا ہے ؟ یہ استحقاق کس کا ہونا چاہیے؟ کیا ایک فنکار، گلوکار، تخلیق کار یہ طے کرے گا کہ اسکو کیسا فن تخلیق کرنا ہے؟ یا پھر اسکے مداحین یہ معیار طے کریں گے کہ ان کو کیسی تفریح یا فن لبھاتا ہے۔؟
گزشتہ دنوں مشہورِ زمانہ ہندوستانی فلم ہدایتکار امتیاز علی نے پنجابی گلوکار “چمکیلا” کی حقیقی زندگی کو فلمایا۔ اس فلم کا بنیادی موضوع اور لُبِ لبّاب بھی یہی تھا کہ کیا ایک کلوگار کی نبض مداحین کے ہاتھ میں ہونی چاہیے ؟ یا پھر ایک گلوکار کے ہاتھ میں مداحین کی نبض ہوتی ہے۔
یہ موضوع ہمیشہ سے ادبی و تخلیقی حلقوں میں زیرِ بحث رہا ہے کہ کیا تخلیق کار کو سماج میں موجود رسوم و رواج کے زیر تابع رہ کر اپنی تخلیق کو پروان چڑھانا چاہیے یا اسکو اپنی تخلیق ان تمام پابندیوں سے آزاد ہو کر مداحین کے سامنے ترتیب دینی چاہیے، تاکہ مداحین اسکا فیصلہ کریں ،یہ تخلیق قبولیت کا درجہ رکھتی ہے یا نہیں۔
چمکیلا سے لے کر سدھو موسے والا تک، اور آنے والے دور میں بھی یہ مدعا زیرِ بحث رہے گا۔ مگر ہر فنکار اپنے فن یا تخلیق کا جواز رکھتا ہے، اسی تناظر میں کوئی بھی ادیب، مصنف، گلوکار، فنکار یا تخلیق کار جسکو مداحین قبولیت کا درجہ دے چکے ہیں اسکی تخلیق پر سوالات اٹھانا بے سود ہیں۔
دنیا بھر کے تمام ادب یا فن میں عورت اور اسکی مدح سرائی مرکزی حیثیت رکھتی ہے، لیکن صنفی امتیاز کے حق میں آواز بلند کرنے والے حلقوں میں عورت اور اسکے جسم کے گرد گھومنے والے ادب کو بے ہودگی اور لچر پن سے تشبیہ دی گئی۔ نتیجتاً عورت اور اس کو بطور آبجیکٹ بنا کر فن میں ترویج کے خلاف کچھ حلقوں میں کام شروع کیا گیا۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی فنکار، ادیب یا شاعر اپنی تخلیق میں عورت کی مدح سرائی یا اسکو مرکزی حیثیت نہیں دے گا تو اسکا متبادل کیا ہونا چاہیے؟
کیا نشہ آور مواد اور شراب اسکا بہترین متبادل ہو سکتا ہے؟
کیا ادب، فن اور تخلیق کسی مخصوص مذہب یا فرقہ کی تعلیمات کے زیرِ اثر تخلیق ہونا چاہیے؟
اگر گائیکی، اداکاری اور تخلیق کاری، مخصوص مذہبی رنگ اختیار کرے گی تو وہ اس مذہب کے پیروکاروں میں تقدیس کا روپ دھار لے گی۔ اور دوسرے مذاہب کے لیے ہمہ وقت خطرے کا سونامی بن کر ان کے عقائد کی ساحلی پٹیوں پر تباہی مچاتی رہے گی۔
تمام سماجی پہلوؤں کا تنقیدی جائزہ لیں تو شاید دنیا بھر کے تمام فنکار، گلوکار، اداکار اور تخلیق کار اپنی موت آپ مر جائیں۔ ہمیں بطور سماجی جانور فن، ادب و تخلیق کے دلدادہ ہونے پر، ایک فنکار اور تخلیق کار کو اتنا حق ضرور دینا چاہئے۔ تاکہ وہ اپنے خیالات اور سوچ کو اپنے فن کے ذریعے شائقین تک پہنچا سکے۔ اسکے معیاری و غیر معیاری ہونے کا فیصلہ مداحین پر چھوڑ دینا چاہیے۔

امر سنگھ چمکیلا کی اکھاڑوں یا اسٹوڈیوز میں اشلیل گائیکی یا پھر سدھو موسے والا کی اسلحہ سے لیس گائیکی سماج کے لیے زیادہ مہلک ثابت ہوئی یا نہیں؟ اسکا فیصلہ سماجی ٹھیکیداروں کی بجائے ان کے مداحین نے کرنا ہے۔ ایک مداح یا شائق کو کسی بھی تخلیق کار کی تخلیق میں جب تک اپنائیت کا احساس نہ ہو، وہ اسکو اپنے حواسِ خمسہ میں جگہ نہیں دیتا اور انسانی حواس تمام ادوار میں سب سے بہترین فیصلہ ساز رہے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں