تبصرہ مصری فلم ” القاہرہ 678″/منصور ندیم

اس میں کوئی شک نہیں کہ جب یہ لکھ کر کسی فلم کا تعارف لکھا جائے کہ “حقیقی واقعے پر بنائی گئی فلم” تو یہ جملہ فلم دیکھنے والوں پر پر جادوئی اثر ڈالتا ہے، کیونکہ یہ اسے ہر وہ چیز قبول کرنے پر مجبور کرتا ہے جو وہ بعد میں اسکرین پر دیکھے گا، چاہے وہ کتنا ہی عجیب کیوں نہ ہو، ظلم تشدد کوئی واقعہ، پیچیدہ حقائق یا معاشرے کا تنوع، یہ مصری فلم “678” سنہء 2010 میں ریلیز ہوئی، مگر ریلیز ہونے سے پہلے فلم 678 کا “ٹریلر” مصر کے مقامی ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا، تو اس فلم پر بہت زیادہ تنقید شروع ہو گئی تھی، اور اس کی ریلیز کو یہ کہہ کر روکنے کی کوشش کی گئی کہ اس کے ذریعے مصر کی ساکھ کو مسخ کیا گیا ہے۔ اس فلم میں عوامی جنسی زیادتی کی عکاسی اور مذمت کی گئی ہے، اسی وجہ سے اسے بہت سے حلقوں کی جانب سے شدید احتجاج کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ فلم میں دکھایا گیا تھا کہ خواتین کو اپنی حفاظت کے لیے کوئی  اوزار ساتھ رکھنا چاہیے۔ لہذا، فلم کو مصر میں کچھ حلقوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ خواتین کو تشدد کا فن سکھانے کی ترغیب دیتی ہے۔ اس وقت کے مصر میں موجود انسانی حقوق کمیٹی سے تعلق رکھنے والے محمود حنفی صاحب بھی چاہتے تھے، کہ مصری فلم “678” پر پابندی لگائی جائے کیونکہ یہ خواتین کو مردوں پر حملہ کرنے پر اکساتی ہے۔ وہاں کے اٹارنی حامد بھی نہیں چاہتے تھے کہ یہ فلم ٹیلی کاسٹ کی جائے کیونکہ اس میں مصر کے معاشرے کا ایک خراب تاثر جائے گا۔

اس فلم کے نام بھی تبدیل کیے گئے، یہ فلم شروع میں ایک شارٹ فلم پروجیکٹ تھا، جس کا عنوان تھا “67 پولیس کے ساتھ” اور اس کی واحد ہیروئن کا کردار “فائزہ” تھا، پھراسے “678” نام سے بدل دیا گیا ہے کیونکہ یہ اس بس کا نمبر ہے جس میں اسے ہراساں کیا جاتا ہے اس معاملے کی معاشرتی حساسیت کی وجہ سے پھر اسے ایک طویل فلم میں ڈھالا گیا، اس فلم کے بنیادی کرداروں میں تین خواتین کو دکھایا گیا جنہیں ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو مختلف طبقات سے ہیں، اور ایک عمومی رویے کی طرف بھی توجہ دلائی گئی کہ لباس یا شکل ہراسگی کا بنیادی سبب نہیں ہے، بلکہ انہیں ہراسگی کا سامنا صرف اس لئے کرنا پڑتا ہے کہ وہ ایک عورت ہے، اس لیے اس معاشرے میں انہیں ہراساں کیا جانا جائز اور دستیاب ہوجاتا ہے، اور اس خوف کی وجہ سے وہ بدنامی سے ڈریں گی، وہ مزاحمت نہیں کرسکتیں۔ اس فلم میں ان تین لڑکیوں کے کردار مصری اداکاروں نیلی کریم، بشریٰ اور ناہید السبیعی نے  ادا کیے  ہیں۔

اس فلم میں مصری معاشرے کے مختلف طبقات کی تین لڑکیوں کی کہانیوں کو بطور مثال ڈرامے میں پیش کیا گیا ہے، جنہیں مختلف شکلوں میں ہراساں کیا جاتا ہے، پہلی لڑکی ایک پردہ دار لڑکی دکھائی ہے جو سرکاری ملازم ہے، جو شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں ہے، وہ کام پر جاتے ہوئے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ہراساں ہوتی ہے۔ ایک ہجوم سے بھری مسافر بس جس کا نمبر “678” ہے، جس سے فلم کا ٹائٹل لیا گیا تھا، جس میں ایک شخص بس میں رش کی بنیادپر   اس کے جسم کو چھوتا ہے، اور پھر ٹرینر سے یہ سیکھتی ہے کہ جواب اسے دینا ہوگا، وہ خوفزدہ ہوتی ہے تو ٹرینر عورت اس کے اسکارف کی پن نکال کر کہتی ہے تم چاہو تو اپنی حفاظت اس سے بھی کر سکتی ہو، پھر وہ یہی کرتی ہے کہ بس میں اپنے جسم پر ہاتھ لگانے والے کو وہی اسکارف پن مارتی ہے، یہ الگ معاملہ رہتا ہے کہ بس میں اسکارف پن مارنے پر ہراساں کرنے والا مرد ہی  شور مچا دیتا ہے اور بس میں موجود تمام مرد اسی کا ساتھ دیتے ہیں۔ مگر اس کے خودکار ردِعمل پر اس شخص کو سزا مل جاتی ہے۔

دوسرا کردار ایک امیر، اور خوشحال لڑکی ہے، جس کا شوہر ایک نوجوان ڈاکٹر ہے، اسے فٹ بال میچ کے دوران ہراساں کیا جاتا ہے، تب وہ ہراساں ہونے والی خواتین کے حقوق کے دفاع کے لیے ایک سرگرم کارکن بن جاتی ہے اور انہیں یہ سکھانے کے لیے تربیتی کورسز کا انعقاد شروع کر دیتی ہے کہ وہ اپنی حفاظت کیسے کریں۔ یا ہراساں کرنے والوں کا مقابلہ کریں۔ اسی فلم کا تیسرا کردار تیسری خاتون جو ایک فون فروخت کرنے والی کمپنی میں کام کے دوران روزانہ ہراساں ہوتی ہے، اس سے قبل اس کے ساتھ گلی میں ہراساں کرنے کا واقعہ پیش آتا ہے۔ یہ تین کرداروں پر مشتمل فلم معاشرے کے نقطہ نظر کے حوالے سے مختلف نقطہ نظر پیش کرتی ہے، اس فلم کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ خواتین جو اپنی ذاتی زندگی کے مسائل، معاشرتی معاملات کے ساتھ نوکری کررہی ہیں اپنے ان تمام معاملات میں الجھنے کے ساتھ ساتھ انہیں پارک، بس عوامی اجتماعات نوکری کی جگہ غرض ہر جگہ ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، جس سے ان کی ذاتی زندگی کس درجہ متاثر ہوتی ہے، ان کیفیات کو آپ اس فلم میں محسوس کر سکتے ہیں۔

مزید المناک معاملہ یہ دکھایا ہے، جو حقیقت پر مبنی ہے کہ عوام کی اکثریت ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے لیے ذمہ دار بھی انہیں ہی سمجھتی ہے اور انہیں ہراساں کرنے والوں کے خلاف مقدمہ چلانے یا اس واقعے کو ظاہر کرنے سے سے انکار کرتے ہیں، خاص طور پر ان تینوں مردوں کے لیے جن کے پاس قانونی چارہ جوئی کے لئے حق بھی موجود ہے۔ اور ان کا ان لڑکیوں کے ساتھ تعلق بھی ہے، مگر فلم میں یہی دکھایا گیا کہ اس معاشرے میں الگ الگ ثقافتی طبقے اور سماج میں فرق ہونے کے باوجود ان تمام مردوں کا ردعمل ہراسگی کے مقابل رد عمل دینے میں تقریباً یکساں ہیں، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ اصل بحران ایک ایسے معاشرے کی ثقافت میں ہے جو ہمیشہ ” جرم چھپانے” کا تصور رکھتا ہے۔ اس فلم کے ڈائیلاگ بہت اعلیٰ  ہیں۔ یہ فلم پہلے سین سے آپ کو گرفت میں رکھے گی، اگر آپ ایسے سماجی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں، یہ ایک بہترین آگاہی کے ساتھ ساتھ خواتین کے ہراسگی کے حوالے سے احساسات کی بہترین نمائندہ فلم ہے۔

نوٹ :
1- اس فلم کا بنیادی خیال ایک حقیقی واقعہ ہے، جو مصر میں سنہء 2008 کے وسط میں ایک لڑکی کی طرف سے ایک ایسے شخص کے خلاف دائر کیا گیا پہلا مقدمہ تھا، جو لڑکا ایک لڑکی کو تسلسل سے ہراساں کررہا تھا، اور لڑکی نے جوابا ًاس پر مقدمہ کیا، یہ مصر کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا عدالتی فیصلہ تھا جس میں اس نوجوان کو تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ نصر چونکہ ایک قدامت پسند معاشرہ رہا ہے، وہاں پر جنسی ہراسگی کے واقعات کثرت سے سامنے آتے رہے، مگر محض وہ انفرادی واقعات ہی رہے، جنہیں ظاہر نہیں کیا جا سکتا تھا یا وہ آواز نہیں  بن سکے کیونکہ اس طرح ہراساں ہونے والی لڑکیاں ایسے واقعات کی رپورٹ کرنے سے انکاری ہی رہتی ہیں کیونکہ معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مگر اس عدالتی کاروائی نے ایسے واقعات کے معاملات کو منظر عام پر لانے میں اہم کردار ادا کیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

2- یہ فلم یو ٹیوب پر بھی دستیاب ہے، آپ اسے بآسانی انگریزی سب ٹائٹلز کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply