حادثہ

آسمان صاف تھا موسم خوشگوار چھٹی کا دن تھا اور کار میں میرا پہلا سفرکراچی میں آئے چند ماہ ہی گزرے تھے عصر کے وقت بنوریا ٹاون ریستورینٹ میں بےوقتی کھانے کے بعد باہر لان میں ٹہلنے لگے شام ہونے کو تھی بےچینی اور سکون کا یکسا ماحول تھا۔
اچانک ایک دھماکےدار آواز سنائی دی اور لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا اور چند ہی سیکنڈز میں ایک دھماکہ اور ہوا اور ہر طرف بھگدڑ مچ گئی میں نیم بےہوشی کی حالت میں دھندلاتی آنکھوں سے یہ نظارہ دیکھ رہا تھا وہ بےچینی اب نہیں تھی بس سکون ہی سکون تھا وہ لذت کیا لذت تھی وہ سکون کیا سکون تھا جو شاید ماں کی گود میں بھی میسر نہ ہو۔
جب گولی کی رفتار سے سفر کرتے آگ جیسے گرم لوہے کے ٹکڑے سینکڑو کی تعداد میں وجود میں سر سے لیکر پاوں تک پیوست ہوتے ہیں اور جسم کو چھلنی کرتے ہوئے خون کو نسوں کی قید سے آزاد کرتے ہیں دماغ کو درد کا احساس دلانے والی نس کام کرنا بند کر دیتی ہے خون کی بہاو کے ساتھ دماغ کی حسیں ناکارہ ہو جاتی ہیں نیند کا غلبہ طاری ہو جاتا ہے فضا ء میں اک سرور سا آجاتا ہے عجب سا سکون اور لذت محسوس ہوتی ہے آپکو کیسے سمجھاو یہ وہ پھل ہے جو کھائے بس وہ ہی جانے۔
شاید یہ لذت اسی لذت کا جز ہے جسکا طلبگار شہید جنت میں جانے کے بعد بھی رہے گا بحرحال ہسپتال میں دو مہینے جو تکلیف ملی اس نے حساب برابر کر دیا۔
یہ واقع 8 اگست 2004 کو جامع بنوریہ کے قریب پیش آیا اس وقت میں 10 برس کا تھا اس حادثے میں کئی لوگ شہید ہوئے جن میں کثیر تعداد حفظ قرآن کے طلباء کی تھی زخمیوں میں میرا چچازاد بھائی اور میں بھی شامل تھے میرا کزن بمب کے زیادہ نزدیک ہونے کی وجہ سے زیادہ زخمی ہوا اور 5 سال کی عمر میں ہی ایک آنکھ سے محروم ہو گیا۔
ہسپتال میں ورثاء اپنے لواحقین کو تلاش کر رہے تھے میرے والدین متعدد بارمیرے پاس آے مگر چہرے پر زخموں کی وجہ سے پہچان نہ پاتے اور پھر کہیں مارے مارے مجھے تلاش کرنے نکل پڑتے میں بھی بولنے سے قاصر تھا قیامت تھی قیامت ۔آخرکار ماں نے اپنے بیٹے کو پہچان لیا اور جناح ہسپتال سے لیاقت نیشنل منتقل کر دیا گیا۔
میں چند ماہ میں صحت یاب ہو گیا حکومتی تعاون کے جھوٹے وعدے سنے وقت گزرنے کی ساتھ ساتھ اندھیرے کی بادل چھٹ گئے آج بھی ایسے حادثات کی خبریں آتی ہے تو وہاں کا منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ مگر یہ دل دہلا دینے والا حادثہ اپنے پورے وسوق کے ساتھ زندگی پہ غالب نہ ہو سکا اور بھلا دیا گیا۔
لیکن زندگی رکتی نہیں غم صدا اعصاب پہ سوار نہیں رہتے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ مگر دور درشن کا پاور آن کرتے ہی خیالات بدل جاتےہیں میں ہر روز ہر شہر میں ان دھماکوں کی زد میں آتا ہوں روز مار دیا جاتا ہوں میرا بدن بہت سفاکی سی چھلنی کر دیا جاتا ہے میں مرتا ہوں تو لاہور مال روڈ کے ملازمین کو چھٹی ملتی ہے میں مرتا ہو تو میڈیا کی روزی روٹی چلتی ہے اور سیون جامشورو کے جانوروں کو رزق نصیب ہوتا ہےاگر سب مر جائیں تو یہ تماشا کون دیکھے گا ہاں یاد آیا بھٹو ہے ناجو امر ہے۔
میں مر جاو تو پھر پیدا کر دیا جاو گا مجھے فنا کرو گے پھر سے ابھر آو گا مجھے مارنا ہے تو میری سوچ کو بدل دو میراعقیدہ بدل دو مجھے مضرانسانیت بنا دو کھلونوں سی کھیلنے کی عمر میں خود کش بمبار بنا دو وہ کیسا منظر ہو گا جب قاتل و مقتول دونوں کو جنت کی بشارت ملے گی قاتل کی ذہن سازی کرنے والا اپنی کامیابی پہ مسکرائے گا۔
بس بہت ہو گیا ہمیں دشمن کی بچوں کو نہیں پڑھانا اپنے بچو کو شدت پسند ذہن سازوں سے بچانا ہے اب ردالفساد ہو گا انسان نہیں نظریات اور شدت پسند خرافات کا جنازہ نکلے گا بس اتنا یاد رکھنا سانپ کو مارنے نکلے ہو تو بے قصور انڈے کچلنے میں رحم نہ کرنا۔

Facebook Comments

سلمان داود
یونیورسٹی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply