رِستا ناسور

ماہ فروری2017ء پاکستانی قوم کے لیے مشکل ترین اور اذیت ناک رہا ہے۔ فروری کا یہ مہینہ 16دسمبر2014ء کی طرح ایک نہیں کئی زخم چھوڑ کر گیا ہے۔ لعل شہباز قلندر (سیہون شریف) کے مزار پہ خودکش حملے میں 100 کے قریب لوگ شہید ہوئے۔ لاہور ،پشاور، کوئٹہ ، ڑیرہ اسماعیل خان کے مختلف مقامات پہ خودکش حملے کیے گئے۔ خودکش حملہ بذاتِ خود دہشتگردوں کی کمزوری اور پریشانی کی علامت ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب فقط خودکش حملہ ہی نہیں بلکہ باقاعدہ آتشیں اسلحہ کے ساتھ داخل ہوتے اور حملہ کرتے تھے۔ اب خودکش حملہ ہی فقط ان کا ہتھیار رہ گیا ہے۔ پاکستانی فورسز کی جوابی کارروائی میں دہشت گردوں کی بڑی تعداد ہلاک ہوئی اور پکڑی بھی گئی ہے۔ ابھی مزید اس حوالے سے کارروائیاں جاری ہیں۔ پنجاب میں رینجرز کے ذریعے صفائی کا کام شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان کے پاس do or die کے علاوہ کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔ اب موقع ہے فقط دہشت گردوں کو ہی نہیں، ان کے سہولت کاروں کو بھی پکڑا جائے۔ صرف انھیں ہی نہیں بلکہ فرقہ واریت اور مذہب کے نام پہ دہشت پھیلانے والوں کے ساتھ بھی سختی سے نمٹا جائے کہ وہ بھی پاکستانی معاشرے میں دوبارہ سر اٹھا نے کے قابل نہ رہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان دھماکو ں نے بحیثیت قوم ہمیں صرف غمگین ہی نہیں کیا بلکہ فکر مند بھی کر دیا ہے کہ دہشت گردی کا یہ جن آخر نیشنل ایکشن پلان کی بوتل میں بند کیوں نہیں ہو رہا ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی اور متفقہ طور پر اس پہ عمل شروع ہوا۔ ان دھماکوں سے چند باتیں واضح ہوتی ہیں اور چند باتوں کی طرف توجہ ضروری ہے۔
1۔ دہشتگرد ابھی ختم نہیں ہوئے اور نہ انھوں نے ابھی ہار مانی ہے۔ یہ جملہ ”دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے“ مکمل سچ نہیں ہے۔ فو ج اور حکومت کے دہشتگردوں کےخلاف سنجیدہ اقدامات قابلِ تعریف ہیں لیکن ابھی جملہ مذکورہ کی تکمیل کے لیے وقت درکار ہے۔
2۔ لاہور صوبہ پنجاب کا دارالخلافہ ہے اور صوبہ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اگر شہر لاہور میں یہ واقعہ رونما ہو سکتا ہے جہاں سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات ہوتے ہیں تو باقی صوبوں اور شہروں کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے۔
3۔ ہمارے اداروں کا مستحکم اور مضبوط ہونا پاکستان کی بقاء کی ضمانت ہے۔ اس لیے پولیس جیسے ادارے کی خدمات تسلیم کرتے ہوئے اسے زیادہ سے زیادہ تربیت اور معاشی تعاون مہیا کیا جائے۔ ہر حادثے اور سانحے میں یہی پولیس اہلکار ہیں جو اپنی جانیں بھی قربان کرتے اور عوام کو کسی حد تک تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں۔ جدید اسلحہ فقط انہی پولیس اہلکار اور کمانڈوزکے پا س ہوتا ہے جو اہم شخصیات کی حفاظت پہ مامور ہوتے ہیں۔ عوام کی حفاظت پہ مامور پولیس اہلکاروں کی بندوقوں سے یا تو خارش کی جاسکتی ہے یا بلبل ماری جا سکتی ہے۔ عوام کو پولیس سے شکایات ہیں اور شکایات بجا بھی ہیں۔ ان کا ازالہ اسی صورت ممکن ہے جب اس ادارے میں اصلاحات لائی جائیں گی۔ یہ اصلاحات تین طریقے سے ممکن ہیں۔ پہلا طریقہ پولیس کو مکمل آزاد کر دیا جائے کہ یہ حکمران طبقے کے زیر اثر نہ رہے (جیسا کہ خیبر پختونخواہ میں کرنے کا دعویٰ ہے)۔ دوسرا طریقہ اس میں بھرتیاں میرٹ پر ہوں۔ میرٹ فقط تعلیم ہی نہیں بلکہ کردار بھی ہے۔ تیسرا طریقہ اس طبقے کی معاشی حالت کو بہتر کیا جائے۔ معاشی حالت تنخواہ و مراعات کے ذریعے بہتر کی جائے اور مجموعی طور پر اس ادارے کی Over hauling اور upgrading کی جائے۔ جب تک اس ادارے کی محرومیوں کا علاج نہیں کیا جاتا اور سیاسی وابستگیوں سے آزاد نہیں کیا جاتا اس وقت تک یہ ا دارہ اہم شخصیات اور ان کے خاندانوں کا غلام رہے گا لیکن عوام کی زندگی غیر محفوظ اور دہشت گردوں کے نشانے پہ رہے گی۔
4۔ دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کے لیے بلا تفریق اداروں، شہروں اور صوبوں میں combing opration جاری رکھا جائے ۔
5۔ ایسا لگتا ہے حکومت کہیں کہیں سیاسی مصلحت کا شکار ہو جاتی ہے۔ غیر ملکی لوگ خواہ ان کا کسی بھی ملک سے تعلق ہو وہ جہاں جہاں بھی بستیوں اور خاندانوں کی صورت میں رہتے ہیں انھیں قانونی تقاضوں کے مطابق رہنے کی اجازت دی جائے۔ جو نیشنل ایکشن پلان کے مطابق طے کیا گیا اس پہ عملدر آمد کرانا ضروری ہے۔
6۔ سیہون شریف، لاہور دھماکے یا کسی بھی ایسے سانحہ میں انڈیا کے ملوث ہونے کے واضح شواہد موجود ہوں تو پاکستان کو ان شواہد کے ساتھ عالمی فورم پہ بات کرنی چاہیے۔
7 ۔ سی پیک منصوبہ کی تکمیل کے لیے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو یک آواز ہو جانا چاہیے۔ یہ منصوبہ کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ پاکستان کا ہے۔ اگرچہ ہمارے سیاستدانوں کی تاریخ یہی ہے کہ انھوں نے ہمیشہ قومی منصوبوں کو مختلف فیہ ہی بنایا ہے جیسے کالا باغ ڈیم۔ آج کالا باغ ڈیم کا نام لینے والا کوئی نہیں ہے۔ اس منصوبے کو ایسا بدنام کر دیا گیا کہ اسے فیڈریشن اور وفاق کے ہی خلاف سمجھا جانے لگا۔ اگر سی پیک منصوبے کو نقصان پہنچا تو یہ ملک دشمنوں کے لیے فائدہ مند اور ہمارے سیاستدانوں کی بداندیشی اور کورفہمی کا ثبوت ہوگا۔ بم دھماکوں جیسے واقعات و حادثات پاکستان کو اس حوالے سے نا کام کرنے کی ایک سازش بھی ہے۔
سی پیک منصوبے پہ انڈیا کی پریشانی سرحدوں پر فائرنگ سے عیاں ہے۔ پاکستان میں جاسوسوں کے گرفتار ہونے کی اطلاعات بھی انڈیا کے لیے تکلیف کا باعث ہیں۔ اگرچہ ہمارا ملک ہر وقت نازک دور سے ہی گزرتا ہے لیکن اب واقعی نازک حالات سے گزر رہا ہے۔ دہشتگردی دم توڑ رہی ہے ۔ ملک استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایسے حالات میں دشمن کسی نہ کی حرکت سے پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس پہ گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
8۔ خارجی خطرات سے انکار ممکن نہیں لیکن خارجی سے زیادہ داخلی خطرات پاکستان پہ منڈلا رہے ہیں۔ دہشتگردی انتہا پسندی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے نظام تعلیم میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ تعلیم ہی ہمارے سماج کو ایک بہتر سماج بنا سکتی اور غربت جیسے مسائل کو حل کر سکتی ہے جس سے دہشتگردی اور انتہا پسندی پیدا ہوتی ہے۔

Facebook Comments

صاحبزادہ امانت رسول
مصنف،کالم نگار، مدیراعلیٰ ماہنامہ روحِ بلند ، سربراہ ادارہ فکرِ جدید

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply