بمبئی کی بزم آرائیاں/معصوم مرادآبادی(1)

وسطی بمبئی کا مدن پورہ علاقہ اپنی روایتی بھیڑ بھاڑ کے لیے مشہور ہے۔ اس کی ایک تنگ گلی میں واقع جونی مسجد کے پہلو میں محفل جمی ہوئی ہے۔ میں ایک نوآموز طالب علم کے طورپر اس محفل کا حصہ ہوں۔ جونی مسجد ٹرسٹ کے روح رواں یاسین انصاری محفل میں مسلسل رنگ بھررہے ہیں۔ اچانک ایک شخص کی آمد ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے”یاسین بھائی کمیونسٹ پارٹی والوں نے آج فلورا فونٹین پرکیا زبردست مورچہ نکالا ہے۔کم سے کم پچاس لاکھ آدمی تھا۔“
یاسین بھائی کہتے ہیں ”کیا بولا۔ پچاس لاکھ؟“ اس نے کہا کہ”کم سے کم پچیس لاکھ تو تھا ہی۔“ وہ پھر کہتے ہیں ”ٹھیک ٹھیک بول نا۔“وہ کہتا ہے کہ ”دس لاکھ سے کم نہیں تھا۔“ یاسین بھائی اسے پھر ٹوکتے ہیں ”سچ کیوں نہیں بولتاتو اس نے کہا ”پانچ لاکھ تو تھا ہی۔“ یاسین بھائی اپنے کارندے کو بلا کر کہتے ہیں ”چائے پلاؤ نا اس کو۔“ اس کا بیان جاری رہتا ہے۔ یاسین بھائی اب بھی مطمئن نہیں ہیں اور اسے برابر کریدتے رہتے ہیں۔ صحیح صحیح بتاکتنے لوگ تھے۔ آخر میں وہ کہتا ہے کہ قسم سے بولتا ہوں یاسین بھائی پانچ ہزار سے کم تو کسی بھی صورت نہیں تھے۔اتنے میں چائے آجاتی ہے۔ یاسین بھائی کہتے ہیں ”تو کہتا ہے تو مان لیتا ہوں ورنہ پانسو سے زیادہ نہیں ہوں گے۔“
یاسین انصاری مدنپورہ کے کارپوریٹررہ چکے تھے۔انھیں محفلیں سجانے کا شوق تھا۔علاقہ کی مقبول ترین شخصیت تھے۔ سیاہ رنگ اور اجلے دماغ کے اس شخص نے بہت سے سماجی کام کئے ہیں، جن میں سب سے نمایاں کام جونی مسجد کو چمکانے کا ہے۔ ایک بوسیدہ مسجد کی شاندار تعمیر کے لیے چندہ خوری کی بجائے ایک ٹرسٹ بنایا۔ پہلو میں خالی پڑی ہوئی جگہ پر شادیوں میں استعمال ہونے والا سامان جمع کرکے کرایہ پر دینا شروع کیا اور اچھی خاصی آمدنی کا ذریعہ پیدا کرلیا۔ جس سے شاندار مسجد کی تعمیر ممکن ہوئی۔
مذکورہ واقعہ کے کوئی چالیس برس بعد اپنے حالیہ سفر کے دوران میں مدن پورہ علاقہ میں ڈھونڈتا ہوا جونی مسجد تک تو پہنچ گیا، لیکن مجھے وہاں نہ تو یاسین بھائی ملے اور نہ ہی ان کی وہ محفل جہاں میں بمبئی کے سفر میں اکثر جایا کرتا تھا۔ یاسین بھائی اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں اور ان کی جگہ مسجد کی ذمہ داریاں دوسرے لوگوں نے لے لی ہیں۔ کوئی شناسا چہرہ نظر نہیں آیا۔ یاسین بھائی کے گھر والے بھی وہیں رہتے ہیں، لیکن شب برات کی بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے کسی سے ملاقات نہیں ہوسکی۔
یاسین بھائی سے میری ملاقات میرے کرم فرما جیلانی میاں نے کروائی تھی، جو اس وقت دہلی سے ”المیزان“ کے نام سے ایک دینی ماہنامہ شائع کرتے تھے۔میں اس کی تزئین کاری پر مامور تھا۔ اسی دوران مجھے ایک بار وہ اپنا شہر بھیونڈی دکھانے لے گئے۔ ہم نے کئی روز بمبئی میں قیام کیا۔جیلانی میاں کا تعلق کچھوچھہ شریف کی خانقاہ سے ہے۔بہت بزلہ سنج انسان ہیں۔برسوں سے ملاقات نہیں ہوئی۔ سناہے کہ ان دنوں لکھنؤ اور لندن کے درمیان سفر میں رہتے ہیں۔
یہ نوّے کی دہائی کازمانہ تھا۔ میں نیا نیا صحافت میں آیا تھا اور اس کے اسراررموز سیکھ رہا تھا۔ میرا دل درسی کتابوں سے زیادہ ایسی محفلوں میں لگتا تھا۔ اسی دوران کوئی مجھے زکریا اگھاڑی کے پاس بھی لے گیا تھا۔ دعا سلام ہی ہوئی تھی کہ ان کے فون کی گھنٹی بجی۔ زکریا اگھاڑی کا تعلق گجرات سے تھا اور وہ بمبئی کے سربرآوردہ لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ میمن بینک کے چیئرمین بھی تھے۔انھیں فون پر کسی نے بتایا کہ کسی عزیز کا گردہ خراب ہوگیا ہے۔ اسے تبدیل ہونا ہے۔ دس لاکھ کی ضرورت ہے۔ زکریا اگھاڑی نے ایک لاکھ اپنے پا س سے ڈال کر فون پر ہی باقی نو لاکھ کا انتظام کرلیا۔ صرف نوفون کالوں کے ذریعہ۔ میں سارا منظر دیکھتا رہا۔ کیا جذبہ ہے۔ بمبئی کے لوگوں میں اس جذبے کی فراوانی ہے۔ ایسے مخیر اور دل والے لوگ آپ کو بمبئی میں ہی مل سکتے ہیں۔
کچھ عرصے بعد 1986 میں جب میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس کی کوریج کے لیے بمبئی گیا تو اس دوران حج کمیٹی کے چیئرمین امین کھنڈوانی سے بھی ملا تھا۔ بمبئی کے عالیشان حج ہاؤس کی تعمیر ان ہی کوششوں سے عمل میں آئی تھی۔انھوں نے حکومت پر تکیہ کرنے کی بجائے عازمین حج سے معمولی معمولی چندہ جمع کیا اوربندرگاہ پرایک عالیشان حج ہاؤس تعمیر کردیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب بیشتر عازمین بحری جہازوں سے سفر کرتے تھے۔اب یہ حج ہاؤس تعلیمی اور سماجی سرگرمیوں کے کام آتا ہے۔ مرکزی حج کمیٹی کا دفتر بھی یہیں ہے۔ میں جب بھی بمبئی جاتا ہوں تو اس پر قرآنی خطاطی دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ یہ میرے خطاطی کے استاد محترم خلیق ٹونکی کے فن کا شاہکار ہے۔
میں نے اسی دور میں بمبئی میں مولانا ضیاء الدین بخاری، انڈرورلڈڈان کریم لالہ اور حاجی مستان کے انٹرویو بھی لیے تھے۔حاجی مستان تک لے جانے کی زحمت معروف صحافی سعید حمید نے اٹھائی تھی۔ جبکہ کریم لالہ تک شمیم طارق لے کر گئے تھے۔ بمبئی کی ایک اور سماجی شخصیت علی ایم شمسی سے بھی اسی دور میں ملاقاتیں ہوئی تھیں۔میں نے اسی زمانے میں فلم اداکار متھن چکرورتی کا بھی انٹرویو لیا تھا، جو ایک تنازعہ میں پھنس گئے تھے۔ (جاری )

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply