نظامِ تعلیم/پروفیسر رفعت مظہر

نظامِ تعلیم
حصولِ علم ہمارے دین کا جزوِلاینفک ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے “اِن سے پوچھو کیا جاننے والے اورنہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں” (الزمر آیت9)۔ سورۃ الفاطر آیت 28میں یوں ارشاد ہوا “اُس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں بیشک اللہ عزت والا بخشنے والا ہے”۔

اِس کے علاوہ بھی متعدد آیاتِ مبارکہ میں علم کی اہمیت پر زور دیاگیا ہے۔ اندازہ کریں کہ قُرآنِ مجید فرقانِ حمید کا پہلا لفظ ہی “اقراء” ہے اور علم وقلم کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ حضورِاکرم ﷺ نے حصولِ علم کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک عالم ہزار عابدوں سے وقیع ہے۔ حضورِاکرمﷺ کے نزدیک علم کی اہمیت کا اندازہ اِس سے لگایا جاسکتا ہے کہ غزوہ بدر میں اسیر ہونے والے مشرکینِ مکہ میں سے جوپڑھنا لکھنا جانتے تھے اُنہیں مدینہ کے 10 بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے پرمامور کیا۔

قیامِ پاکستان کے بعد27نومبر 1947ء کو پہلی قومی تعلیمی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں قائدِاعظمؒ نے تعلیمی خدوخال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا “ہمیں آنے والی نسلوں کے کردار کی تعمیر کرنی چاہیے جس میں وقار، راست بازی اور قوم کی بے لوث خدمت کابے پناہ جذبہ اور احساسِ ذمہ داری پیدا کردیا جائے۔ ہمیں اِس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ اِن میں اقتصادی زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرنے کی اہلیت اور صلاحیت بدرجہئی اتم موجودہو۔ اِس طرح سے کام کریں جو پاکستان کے لیے نیک نامی کاباعث بنیں” (قائدِاعظمؒ تقاریر وبیانات)۔ علامہ اقبالؒ کے نزدیک بھی حصولِ علم مسلمانوں کی گھُٹی میں پڑاہوا ہے۔ وہ بڑے دُکھ سے کہتے ہیں

حیرت ہے کہ تعلیم وترقی میں ہے پیچھے

جس قوم کا آغازہی اقراء سے ہوا ہے

اقبالؒ کی نظم “خطاب بہ جوانانِ اسلام بھی دراصل اِسی تعلیمی انحطاط کا نوحہ ہے۔ فرماتے ہیں

حکومت کاتو کیا رونا کہ وہ اِک عارضی شے تھی

نہیں دنیا کے آئینِ مسلّم سے کوئی چارا

مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی

جو دیکھیں اُن کو یورپ میں تو دِل ہوتا ہے سیپارا

قارئینِ اکرام! میں نے یہ طویل تمہید صرف اِس لیے باندھی ہے کہ نسلِ نَو کوکم از کم یہ علم توہونا چاہیے کہ دینِ مبیں میں علم کی کیا اہمیت ہے اور بانیئی پاکستان آج کے نوجوان سے کیا توقع رکھتے تھے۔ دینی لحاظ سے دیکھا جائے تو ہم نے دینی تعلیم کو صرف دینی مدرسوں تک محدود کردیا ہے اور سکولوں وکالجوں میں محض واجبی سی دینی تعلیم دی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ حصولِ علم کا مقصد محض دینی تعلیم نہیں جسے ہم نے دینی مدرسوں تک محدود کردیاہے بلکہ علم کی ہرشاخ ہے۔ حضورِاکرم ﷺ کافرمان ہے “علم حاصل کرو خواہ تمہیں کہیں سے بھی ملے (مفہوم)۔

اِس حدیثِ مبارکہ سے صاف ظاہر ہے کہ علم اگر کسی غیرمسلم کے گھر سے ملے تو حاصل کرلینا چاہیے اور ظاہر ہے کہ غیرمسلم دینی تعلیم تو نہیں دے گا۔ دوسرے ہمارے دینی مدرسوں میں اپنے اپنے فرقے اور اپنی اپنی فقہ کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے جس سے دینی تعلیم میں سلجھاؤ کی بجائے اُلجھاؤ پیدا ہوتا ہے۔ ضرورت اِس امرکی ہے کہ ہمارے اربابِ اختیار سکول کی سطح سے لے کر یونیورسٹی تک دینی تعلیم کا اہتمام کریں لیکن ہمارے ہاں تو سب سے کم بجٹ تعلیم پر رکھا جاتا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے حصولِ علم کو کبھی بھی اولیت نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ لگ بھگ 2 کروڑ بچے آج بھی نورِ علم سے محروم ہیں۔

قائدِاعظمؒ نے تو پہلی قومی تعلیمی کانفرنس میں کردارکی تعمیرپر زوردیا تاکہ ایک ایسی قوم پیدا ہو جسے نہ صرف قومی عزت ووقار کا احساس ہوبلکہ احساسِ ذمہ داری بھی پیدا ہو۔ آج مگر صورتِ حال یہ کہ ہمارے تعلیمی ادارے لغویات ومنشیات کا گَڑھ بن چکے ہیں اور احساسِ ذمہ داری تو دُورکی بات، حصولِ علم کی بجائے سیاسی گروہ بندی اپنے عروج پر اور ہرسیاسی جماعت نے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اپنے اپنے سیاسی گروہ قائم کررکھے ہیں جن کی بڑے فخر کے ساتھ سرپرستی بھی کی جاتی ہے۔ اِس ماحول میں تعلیم کاحصول کم اور سیاسی منافرت زیادہ پیدا ہورہی ہے۔ حصولِ تعلیم کا بنیادی مقصد تواسلامی نظریہئی حیات، اخلاقی اقدار، تہذیبی روایات اور جدیدترین علم ہونا چاہیے۔

حقیقت مگریہ کہ کہیں بھی اِن مقاصد کو مدِنظر نہیں رکھا جاتا۔ ہمارے ہاں تو جگہ جگہ پرائیویٹ “تعلیمی منڈیاں” قائم ہیں جہاں بڑے بڑے سیٹھ اپنی اپنی دُکانداری چمکائے بیٹھے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کا کسی نہ کسی حوالے سے سیاسی جماعتوں کے ساتھ تعلق ہے۔ حکومت خواہ کسی بھی سیاسی جماعت کی ہواِن کا احتساب کرنے کی جرآت کسی میں بھی نہیں۔ یہ اشرافیہ کے وہ ٹھکانے ہیں جن میں ہزاروں، لاکھوں روپے فیسیں ادا کرکے صرف اشرافیہ کے بچے ہی پڑھ سکتے ہیں جس سے طبقاتی کشمکش پیدا ہوتی ہے۔ یہی طبقاتی کشمکش اُس خونی انقلاب کا پیش خیمہ ہے جس سے اللہ کی پناہ۔ نعرہ مگریکساں نظامِ تعلیم کاجسے سُن سُن کر کان پَک چکے اور عمر ڈھل چکی۔

سابق وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے اپنی وزارتِ اعلیٰ کے دوران انقلابی قدم اُٹھاتے ہوئے جنوبی پنجاب کے پسماندہ اور دوردراز علاقوں کے غریب بچوں کے لیے دانش سکولوں کے قیام کا اقدام کیا۔ جہاں مستحق بچوں کو مفت اعلیٰ تعلیم اور رہائش کا انتظام کیا گیا۔ اِس وقت بھی جنوبی پنجاب کے 11000 مستحق بچے اِن سکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اِن سکولوں کامعیار وہی ہے جو پاکستان میں موجود اشرافیہ کے پرائیویٹ سکولوں کاہے۔ اِس وقت پنجاب بھرمیں 16 دانش سکول قائم ہیں۔ اب وزیرِاعظم میاں شہبازشریف نے پورے پاکستان میں دانش سکولوں کا جال بچھانے کااعلان کیا ہے۔

وزیرِاعظم صاحب کے اِس اعلان کی جتنی بھی تحسین کی جائے کم ہے لیکن اِس کے ساتھ ہی ساتھ اُنہیں گورنمنٹ سکولوں کی حالتِ زار بھی مدِنظر رکھنی چاہیے۔ اِن سکولوں کی عمارتیں بھی موجود ہیں اور اساتذہ بھی لیکن ایک عامی بھی اِن گورنمنٹ سکولوں میں اپنے بچوں کوداخل کروانے میں ہچکچاہٹ کاشکار ہے۔ اِس ہچکچاہٹ کی وجہ کیا ہے، یہ تلاش کرنا حکومت کاکام ہے۔ اگر اِن سکولوں کا معیار وہی ہوجائے جو اشرافیہ کے سکولوں کاہے تو وثوق سے کہ جاسکتا ہے کہ یہ “تعلیمی منڈیاں” یکے بعد دیگرے دَم توڑتی چلی جائیں گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

محترمہ مریم نواز نے بھی کہاتھا “نوجوانوں کی تعلیم وتربیت ہی پاکستان کی ترقی کی کلید ہے”۔ اب محترمہ پنجاب کی وزیرِاعلیٰ بھی ہیں اور ہمہ مقتدر بھی۔ ہمیں اُمید ہے کہ اُنہوں نے جوکچھ کہا اُس پر عمل کرکے بھی دکھائیں گی۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply