چھ استعماری ہتھکنڈے(حصّہ اوّل)۔۔نذر حافی

مقدمہ
استعمار شناسی ایک بہت اہم اور وسیع موضوع ہے۔ یہ موضوع عوام الناّس کی آنکھوں سے آج بھی اوجھل ہے، چنانچہ ہم استعمار کے بجائے اپنوں سے نبردآزما ہیں۔ استعمار کی ایک ہلکی سی جھلک دکھانے کیلئے ہم نے اسلام کے خلاف استعمار کے متعدد ہتھکنڈوں میں سے صرف چھ ایسے ہتھکنڈوں کا انتخاب کیا ہے، جو ہماری تحقیق کے مطابق نہایت ہی اہم ہیں۔ یہ ایسے ہتھکنڈے ہیں جو تمام ادوار میں اسلام کے خلاف یکے بعد دیگرے اور یا پھر بیک وقت آزمائے گئے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ موضوع جتنا خاص، محتویٰ جتنا مرتب اور جملہ جتنا مختصر ہو، قاری کیلئے بات کو سمجھنا اتنا ہی آسان ہوتا ہے۔ اگر ہماری بات ہمارے قارئین کو سمجھ آجائے تو ہماری ان سے گزارش یہ ہے کہ وہ صرف اسی تحقیق پر اکتفا نہ کریں بلکہ اس کے بعد استعمار شناسی کو اپنے اپنے حلقہ احباب میں تحقیقی بنیادوں پر متعارف کرائیں۔ ہمیں مل جل کر اپنے معاشرے کو اندھی عقیدت اور طرح طرح کے جذبات کی لہروں سے نکال کر شعور اور تجزیہ و تحلیل کی سطح تک لے جانا ہے۔ ایسا کرنا مشکل اور وقت طلب ضرور ہے لیکن بے ثمر نہیں۔

موضوع کی اہمیت
جس طرح توپ خانہ، دور سے گولہ باری کرکے پیادہ فوج کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے، اسی طرح استعمار کے آلہ کار، اسلامی معاشرے کے اذہان کو استعمار کے داخلے و نفوذ کے لئے آمادہ کرتے ہیں۔ آج دنیا میں استعماری طاقتوں کا بول بالا ایسے ہی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ہماری سادہ لوحی اور استعمار کے ہتھکنڈے کارفرما ہیں۔ جب تک مسلمان خود اپنی سادہ لوحی کا علاج نہیں کرتے، اغیار کے بجائے اپنوں کے قریب نہیں ہوتے اور اپنے حقیقی و دینی دشمنوں کے ہتھکنڈوں کو نہیں سمجھتے، تب تک بحیثیتِ قوم ان کی حالت تبدیل ہونے والی نہیں ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
مستشرقین اپنا کام الگ کر رہے ہیں اور دوسری طرف دنیا بھر سے مسلمانوں کو تعلیم و روزگار سمیت مختلف بہانوں سے امریکہ و یورپ لے جا کر نسل در نسل استعمار کے لے پالک تیار کئے جا رہے ہیں۔ آج سارا جہانِ اسلام انہی استعماری لے پالکوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنا ہوا ہے۔

جب ایران میں انقلاب آیا تو بانی انقلاب نے اس حقیقت کو کچھ یوں بیان کیا تھا: “امریکہ یہاں پر فوجی نہیں لائے گا، امریکہ یہاں لکھاری لے کر آئے گا، امریکہ بات کرنے والے اور بولنے والے لے کر آئے گا، امریکہ ہمارے ملک کو درہم برہم کرنے کے لئے ان لوگوں کو بھیجے گا کہ جن کی اس نے کئی سال تربیت کی ہے۔ امریکہ فوجیوں سے بدترین لوگوں کو یہاں بھیجے گا، یہ فوجیوں سے بدترین ہیں۔” مسلمانوں کی زبوں حالی کا درمان اور محکومی کے زہر کا تریاق یہی ہے کہ وہ اپنے دشمنوں و دوستوں کی صحیح شناخت پیدا کریں اور اپنے دشمنوں کے ہتھکنڈوں اور چالوں کو سمجھیں، تاکہ ان کا مقابلہ کرسکیں۔ اسی ضرورت اور اہمیت کے پیش ِنظر اس موضوع کا انتخاب کیا گیا ہے۔

استعماری ہتھکنڈے
انسان کی بقا کا انحصار دوست و دشمن کی شناخت پر ہے۔ جسے دوست اور دشمن کی شناخت نہیں، اُس کی سلامتی کی بھی کوئی ضمانت نہیں۔ شناخت عقل سے کی جاتی ہے اور عقل کا تقاضا ہے کہ دشمن کے ساتھ ساتھ اس کے ہتھکنڈوں یعنی سازشوں، چالوں اور منصوبوں کو بھی سمجھا جائے۔ اس سوجھ بوجھ اور فہم و فراست کی غذا تجربہ، علم اور تحقیق ہے۔ استعمار کئی صدیوں سے اپنے لے پالکوں کے ذریعے علم کے نام پر گمراہی، تحقیق کے نام پر کذب بیانی، سکالرز کے نام پر جاسوس اور سفارت کاری کے نام پر دھوکہ دہی میں مصروف ہے۔ مسلمان اپنی سادہ لوحی کے باعث استعماری ہتھکنڈوں کو سمجھنے میں ناکام چلے آرہے ہیں، یہ ناکامی آج بے بسی اور مستقل غلامی میں بدل چکی ہے۔ 1798ء میں جب نپولین ایک فاتح کی حیثیت سے مصر کے مسلمان مملوکی بادشاہوں کو شکست دے کر مصر میں داخل ہوا تو اس وقت اسلام اور مشرقی ممالک کے بارے میں جاننے والے غیر مسلم ماہرین (مستشرقین) کا ایک بڑا گروہ بھی اس کے ہمراہ تھا، جو قدم قدم پر اس کی رہنمائی کر رہا تھا۔

ان مستشرقین نے نپولین کو یہ سمجھایا کہ مصر کے لوگ اپنے بادشاہوں سے زیادہ دین کے بارے میں بہت حساس ہیں۔ لہذا لوگوں کو یہ باور کرایا جائے کہ ہم حملہ آور اسلام کی تعلیمات پر کامل یقین رکھتے ہیں اور اسلام کو دینِ بشریت اور دینِ ہمدردی و اخوت سمجھتے ہیں، نیز بانی اسلام کی تعلیمات کو عالم بشریت کی سعادت و خوشبختی کا باعث سمجھتے ہیں۔ چنانچہ نپولین مصر میں جہاں بھی تقریر کرتا تھا، انہی نکات کو دہراتا تھا، اس نے مصر میں پہلی انجمن شرق شناسی مصر کی بنیاد رکھی اور اہل مصر کو بہت کم فوج کے ساتھ قابو کرنے کے لئے نمازیں پڑھانے والے اماموں، قاضیوں، مفتیوں اور مقامی علمائے کرام کے لئے وظائف مقرر کئے، بعض نے حکومت سے وظائف لینے سے انکار کیا تو انہیں یہ کہا گیا کہ آپ لوگ یہ رقم اپنے لئے استعمال نہ کریں بلکہ اسلام کی خدمت کے لئے صرف کریں۔

اس نے مکمل پروٹوکول کے ساتھ جامعۃ الازہر کے ساٹھ استادوں کو فوجی چھاونی میں عربی سکھانے اور اسلامی معارف بیان کرنے کے لئے مامور کیا، تاکہ مستشرقین دینِ اسلام کے عربی متون پر اچھی طرح عبور حاصل کر پائیں۔ نپولین کی یہ حکمت عملی اتنی کارگر ثابت ہوئی کہ بہت جلد مسلمانوں نے اپنی اسلامی حکومت کے جانے کے غم کو فراموش کر دیا اور پورا مصر نپولین کے گُن گانے لگا۔ یہاں تک کہ آج بھی بعض سادہ دل مسلمان، نپولین کو عاشقِ رسولﷺ اور عاشق امام حسینؑ گردانتے ہیں۔ جب نپولین نے مصر کو چھوڑنے کا ارادہ کیا تو اپنے نائب کلبرKleber کو یہ تاکید کی کہ مستشرقین کے مشورے سے مصر کی مدیریت کی جائے۔ چونکہ اس کے علاوہ ہر طریقہ خرچے کا باعث اور احمقانہ تھا۔ یہ طریقہ کار آج بھی مسلمانوں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔

عصر حاضر میں اس کی واضح مثال یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے جو بین المذاہب دعائیہ تقریب کیپٹل ہل میں منعقد ہوئی، اس میں قرآن مجید کی تلاوت کی گئی اور اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر مائیک پینس کی واشنگٹن کے گرجا گھر میں منعقدہ ایک مذہبی تقریب کے دوران توجہ سے قرآن کریم کی تلاوت سننے کی ویڈیو بھی وائرل کی گئی۔ جب تلاوت شروع ہوئی تو خاتون اول ملنیا ٹرمپ فائل اٹھانے لگیں۔ اس دوران ٹرمپ انہیں بیٹھے رہنے کا اشارہ کرتے بھی نظر آئے۔ اس کے علاوہ مسٹر ٹرمپ کی ریاض کانفرنس کے موقع پر کی گئی یہ تقریر بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے، جس میں وہ یہ کہتے ہیں کہ اسلام دنیا کا بہترین مذہب اور امن پسند دین ہے۔ اس طریقہ کار کو سیکولر اور نام نہاد مسلمان حکمران آج بھی استعمال کرتے ہیں، جیسا کہ سعودی حکومت کی واضح مثال ہمارے سامنے ہے کہ جہاں ایک طرف تو بین الاقوامی اسلامی عسکری اتحاد تشکیل دیا جاتا ہے اور دوسری طرف فلسطین اور کشمیر کی آزادی کے لئے ایک لفظ بھی نہیں بولا جاتا۔

پہلا ہتھکنڈہ:
غیر معقول مساوات
مساوات ہر انسان کو پسند ہے، اسی طرح غیر جانبداری کا لفظ بھی بہت پیارا ہے، استعماری حلقوں کی طرف سے عوام کو انسانی مساوات اور غیر جانبداری کے بھاشن دیئے جاتے ہیں، لیکن استعمار مساوات اور غیر جانبداری کی اصطلاح کو صرف اپنے فائدے کیلئے استعمال کرتا ہے۔ وہ مساوات کے نام پر لوگوں کو یہ باور کراتا ہے کہ اسلام و کفر، حق اور باطل یہ کچھ بھی نہیں، سب لوگ، سب ادیان اور سب افکار مساوی، برابر اور ایک جیسے ہیں۔ حالانکہ یہ محض ایک دھوکہ ہے۔ ظہورِ اسلام کے وقت جب لوگ جوق در جوق مسلمان ہو رہے تھے، تو وہ کفر اور شرک، حق اور باطل نیز سچ اور جھوٹ کو سمجھ کر، اسلام کے معقول پیغام کو پرکھ اور سمجھ کر مسلمان ہو رہے تھے۔ کسی بھی مسلمان ہونے والے کو نہ ہی تو کوئی جاگیر دی جاتی تھی، نہ باغات اور نہ ہی اونٹ بلکہ مسلمان ہونے والا اسلام کی منطق اور فطرت کے مطابق معارف سے متاثر ہو کر مسلمان ہو جاتا تھا۔

مکے اور مدینے کے کفار، یہودیوں اور مسیحیوں کے علاوہ دور دراز کے ممالک سے بھی لوگ اسلام کا پیغام سننے کے لئے پیغمبر اسلام کی خدمت میں تشریف لاتے تھے، سوالات پوچھتے تھے، کبھی مسلمان ہو جاتے تھے اور کبھی مسلمان ہوئے بغیر اسی سوچ و بچار میں واپس چلے جاتے تھے۔ واپس جا کر وہ اپنی اقوام و قبائل میں اسلام کا تعارف کرواتے تھے اور یوں مزید لوگ اس پیغام کو سمجھنے کے لئے پیغمبرِ اسلام کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے۔ لوگوں کا اس طرح ذوق و شوق سے مسلمان ہونا، غیر مسلموں کے لئے سخت تشویش کا باعث تھا، بعد ازاں پیغمبرِ اسلامﷺ نے جب دیگر ممالک کے بادشاہوں کو اسلام کی قبولیت کا پیغام بھیجا تو دیگر ادیان کے دینی رہنماوں کے ساتھ ساتھ بادشاہوں کو بھی اسلام سے شدید خطرہ محسوس ہوا۔ اسی زمانے میں بہت سارے غیر مسلم اسلام کے بارے میں تحقیق میں مصروف ہوگئے اور ان میں سے بعض نے بظاہر اسلام بھی قبول کیا، جن کی باقیات آج بھی اسرائیلیات کی صورت میں اسلامی منابع کے اندر موجود ہیں۔ اسرائیلیات کے ذریعے بھی اس طرح کے غیر منطقی مطالب کو مسلمانوں کے درمیان پھیلایا گیا ہے۔

دینِ اسلام بھی مساوات کا علمبردار ہے، لیکن اسلام کی دعوتِ مساوات عقلی بنیادوں پر استوار ہے، اسلام انسانی امتیازات و حقوق کے اعتبار سے مساوات کی منطقی بات کرتا ہے۔ اسلام کی معقول و منطقی اور فطری مساوات کے مقابلے میں ایک غیر معقول مساوات کا ڈھونگ رچا کر لوگوں کو بیوقوف بنایا گیا۔ یہ فکر آج بھی ہمارے معاشرے میں راسخ ہے، خصوصاً مذہبی و تاریخی مسائل میں جو بھی ہو جائے لوگ حق و باطل کو تشخیص دینے کے بجائے یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہمارے لئے سب مساوی اور محترم ہیں۔ حالانکہ غلط لوگوں کو درست لوگوں کے اور ظالموں کو مظلوموں کے مساوی قرار دینا یہ عقل اور فطرت کے خلاف اور درست اور مظلوم لوگوں کے ساتھ خود بہت بڑا ظلم ہے۔ غیر معقول مساوات یعنی بت کو نعوذباللہ خدا کے مساوی کہنا اور یہ کہنا کہ یہ دونوں معبود مساوی ہیں یا برے کو اچھے کے مساوی کہنا، یہ اسلام کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔

دراصل اسلام اسی فکر کو مٹانے کا نام ہے۔ جب غیر مسلم دانشمند اس حقیقت کو سمجھ گئے کہ وہ تلوار کے ساتھ اسلام کا راستہ نہیں روک سکتے، چونکہ اسلام کو لوگ عقل و شعورکے ساتھ قبول کر رہے تھے۔ چنانچہ حقیقی اسلام کی تبلیغ کو روکنے کے لئے اس فکر کو عام کیا گیا کہ صحیح اور غلط کو چھوڑ کر غلط کو بھی صحیح کے مساوی کہا جائے۔ آپ کے لئے نعوذ باللہ بُت بھی اور اللہ کی ذات بھی برابر ہے، اگر آپ بتوں کے نقائص نکالتے ہیں تو پھر مساوات کے لئے معاذ اللہ، اللہ کی ذات میں بھی خامیاں تلاش کریں۔ اگر آپ تورات و انجیل میں تحریف کے قائل ہیں تو نعوذ باللہ قرآن مجید میں بھی تحریف کو قبول کریں۔ قرآن مجید میں سورہ کافرون اسی فکر کی تردید میں نازل ہوا ہے۔ مستشرقین کا یہ وہ ہتھکنڈہ تھا، جو بعد ازاں کارگر ثابت ہوا اور آج تک ہمارے درمیان اس غیر معقول غیر مساوات کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔

دوسرا ہتھکنڈہ:
روشن فکری
بطورِ کلی ایک روشن فکر ایسے انسان کو کہتے ہیں، جو کسی معاشرے اور ملک کا مقامی فرد ہوتا ہے اور اپنے معاشرے کے مسائل کے حل کے لئے تجزیہ و تحلیل کے ساتھ لائحہ عمل پیش کرتا ہے، جبکہ مستشرق (Orientalist) وہ غیر مسلم ہوتا ہے کہ جو مشرقی دنیا کا مقامی ہو یا نہ ہوو اگر وہ اسلام شناسی کے لئے تحقیق کرتا ہے تو اسے مستشرق کہتے ہیں۔ پہلے مغرب سے تعلق رکھنے والا کوئی غیر مسلم اگر شرق شناسی کرتا تھا تو اسے مستشرق کہتے تھےو لیکن اب جدید تعریف کے مطابق مغرب کی قید اٹھا دی گئی ہے اور ہر وہ غیر مسلم جو اسلام کے بارے میں تحقیق کرتا ہے، اسے مستشرق کہتے ہیں۔ جب معاشرے میں صحیح اور غلط کا جھگڑا شروع ہوتا ہے تو مختلف مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ انسان کا یہ یقین کرنا کہ وہ اپنے معاشرتی مسائل کو اپنی فکر اور سوچ و بچار سے حل کرسکتا ہے، روشن فکری کہلاتا ہے۔ ایک روشن فکر انسان اس بات کو سمجھتا ہے کہ معاشرتی مسائل خرافات و توہمات، جنگ و عداوت، تعصب و نفرت اور دباو اور طاقت سے حل نہیں ہوسکتے، چنانچہ وہ ان سب چیزوں کا نقاد ہوتا ہے۔

روشن فکری کی وضاحت
روشن فکری دو طرح کی ہے، ایک یہ ہے کہ انسانی معاشرتی مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک خدا موجود ہے، جس نے ہر دور اور زمانے کے لئے انبیا مبعوث کئے اور کتابیں نازل کیں۔ لہذا انسانی مسائل کے حل کے لئے خدا، انبیاء اور آسمانی کتابوں کی تعلیمات سے استفادہ کیا جائے اور یہ عقیدہ رکھا جائے کہ خدا دنیا کے ہر انسان کا خدا ہے، وہ ہر انسان سے محبت کرتا ہے اور تمام الٰہی ادیان اور کتابیں اپنے اپنے زمانے کے انسانوں کے مسائل کی گرہیں کھولتی تھیں۔ لہذا انسان جب کسی مسئلے کا کوئی حل پیش کرے تو وہ پورے عالمِ بشریت کو نگاہ میں رکھے۔ یہ معقول روشن فکری ہے، جبکہ غیر معقول روشن فکری یہ ہے کہ انسان خدا، فرشتوں، انبیاء، آسمانی ادیان اور الٰہی کتابوں کا انکار کرے اور انسانی مسائل کا حل صرف اور صرف اپنی سوچ و بچار کو قرار دے۔ اسے غیر معقول روشن فکری ہی کہا جا سکتا ہے، چونکہ تاریخ بشریت اس بات پر گواہ ہے کہ ہر دور میں انسانی مسائل کو حل کرنے کے لئے ادیان الہیٰ اور انبیاء لوگوں کے درمیان موجود رہے ہیں۔ لہذا اس زندہ حقیقت سے آنکھیں بند کرکے یعنی انسان خود خدا کی جگہ پر بیٹھ کر انسانی مسائل کا حل تلاش کرے، یہ غیر منطقی اور غیر عقلی کام ہے۔ مسلمانوں کے درمیان بھی ایسے غیر معقول روشن فکر ہیں، جو مستشرقین کے ہمرکاب ہوکر دینِ اسلام کے خلاف مورچہ زن ہیں۔

معقول روشن فکری کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان تعلیماتِ خدا کے مطابق صحیح اور غلط کی تشخیص دے کر صحیح کا ساتھ دیتا ہے اور غلط کا راستہ روکتا ہے، جبکہ غیر معقول روشن فکری کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان صحیح اور غلط کی تشخیص کے بجائے نیوٹرل اور غیر جانبداری کے نام پر استعمار کی حمایت کرتا ہے۔ جب مسلمانوں نے اسلامی حکومت کو ملوکیت میں تبدیل کیا اور دوسری طرف اسلام سے سہمے ہوئے غیر مسلم اسلام کے بارے میں تحقیق کرنے میں مشغول ہوگئے۔ اس وقت مجموعی طور پر تین طرح کے لوگ اسلام کے بارے میں تحقیق کرنے میں مصروف ہوئے:
۱۔ عیسائی مبلغین
۲۔ مختلف حکومتوں کے جاسوس
۳۔ سچائی کی کھوج لگانے والے

آج سے ٹھیک ایک ہزار سال پہلے اس دور میں جب مسلمان، اسلام کے پیغام کے بجائے تلواریں لے کر دنیا کو فتح کرنے نکل پڑے تھے، مغربی ممالک پر حملے کرتے تھے، شہروں کو آگ لگاتے تھے، عورتوں کو لونڈیاں بناتے تھے اور مال و اسباب لوٹ کر لے جاتے تھے۔۔۔ اس دور میں مستشرقین اس بات پر غور و فکر کرنے میں لگے تھے کہ کس طرح مسلمانوں کو مغلوب کیا جائے۔ جب ہمارے بادشاہ رنگ رلیاں منانے میں مصروف تھے، اس وقت مستشرق قرآن مجید کے تراجم میں مشغول تھے، وہ عربی سیکھ رہے تھے، مسلمانوں کے عقائد کو جانچ رہے تھے اور قرآن و حدیث پر کتابیں لکھ رہے تھے۔ یہ وہ دور تھا کہ جب عیسائی مبلغین، علم و قلم کے ساتھ عیسائیت کی بقاء کی جنگ لڑ رہے تھے، وہ لوگوں کو اسلام سے بدظن کرنے کے لئے مسلمانوں کے نکات ضعف کو برجستہ کرتے تھے، لوگوں کے ذہنوں میں اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات ایجاد کرتے تھے اور اسلام کا عیسائیت سے غلط موازنہ کرکے لوگوں کو عیسائیت کی دعوت دیتے تھے۔

آپ تحقیق کرکے دیکھ لیجئے کہ قرآن مجید کا لاطینی میں پہلا ترجمہ ۱۱۴۳؁ عیسوی میں ہوا اور ترجمہ کرنے والا کوئی مسلمان نہیں تھا اور نہ ہی کسی مسلمان حکمران نے یہ ترجمہ کیا تھا بلکہ فرانس کے کلیسا کے سربراہ یعنی کشیش جس کا نام پِطرُس تھا، اس نے یہ ترجمہ کیا۔ اگرچہ اس ترجمے میں بہت ساری غلطیاں موجود تھیں، لیکن چونکہ کسی مسلمان نے اصلاح یا نیا ترجمہ کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی، چنانچہ یہی ترجمہ جہانِ غرب میں مقبول رہا اور اسی ترجمے سے اٹلی، جرمنی اور ہالینڈ کی زبانوں میں بھی ترجمے کئے گئے۔ مستشرقین کیلئے ضروری تھا کہ وہ اپنے نظریات کو مسلمانوں میں پھیلانے سے پہلے مسلمانوں کو نیوٹرل اور غیر جانبدار کریں۔ اس کیلئے انہوں نے روشن فکر حلقوں کو خوب استعمال کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ نیوٹرل اور غیر جانبداری ایک جنگی ہتھکنڈے کے سوا کچھ نہیں۔ آپ ڈھونڈ کر دیکھئے، کہیں آپ کو کوئی غیر جانبدار آدمی نہیں ملے گا۔ حتی کہ غیر جانبداری کی تلقین کرنے والے نام نہاد روشن فکر بھی خود غیر جانبدار نہیں ہوتے۔ ایک اصول پرست اور پڑھے لکھے انسان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ خدا اور شیطان، علم اور جہالت، ظالم اور مظلوم قصوروار اور بے قصور کے درمیان ہونی والی چپقلش کو دیکھ کر غیر جانبدار ہو جائے۔ انسان کی فطرت اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ صحیح کی جانبداری کرے اور غلط کی مخالفت کرے۔

تیسرا ہتھکنڈہ:
اسلام کی غلط تصویر
لوگوں کو اسلام کی غلط تصویر دکھانا، یہ استعمار کی ایک اور اہم چال ہے۔ ابھی فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ خلیجی ریاستیں کتنی بڑی بددیانتی کر رہی ہیں، اسی طرح او آئی سی نے کشمیر کے مسئلے کو کیسے دبا کر رکھا ہوا ہے، افریقہ میں مسلمان کس بدبختی کا شکار ہیں، عرب ریاستوں میں کیسے آمریت میں جکڑے ہوئے ہیں، افغانستان و پاکستان میں کیسے فقر و فاقے اور خانہ جنگی میں پھنسے ہوئے ہیں، شام و عراق میں اپنے ہی لہو میں تر بتر ہیں، اسی طرح ہندوستان اور کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ جو ناروا سلوک ہو رہا ہے، اس کے مقابلے میں کسی بھی فورم سے مطلوبہ ردعمل کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ اس سارے ظلم کو چھپانے کیلئے مسلمانوں کو منصوبہ بندی کے ساتھ دہشت گرد بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر عالمی برادری اس لئے خاموش رہتی ہے، چونکہ اسے طالبان، القاعدہ اور داعش کی صورت میں اسلام اور مسلمانوں کی بھیانک شکل دکھائی گئی ہے۔ یہ خود ہی دینِ اسلام کی منفی اور غلط شکل تراش کر دنیا کو دکھاتے ہیں اور پھر مسلمانوں کو عالمی برادری کے درمیان تنہا کرکے اُن پر مظالم کے پہاڑ ڈھاتے ہیں۔ اگر مسلمان خود ہی واویلا کریں تو یا تو انہیں غیر جانبداری کے لیکچر دیئے جاتے ہیں اور یا پھر دہشت گرد کہہ کر ان کے احتجاج کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

چوتھا ہتھکنڈہ:
لے پالک مسلمان
وقت کے ساتھ ساتھ استعمار نے مستشرقین کے علاوہ اپنے لے پالک مسلمان بھی تیار کئے۔ انہوں نے بہت سارے ایسے لوگوں کی پرورش اور تربیت کی، جو کسی بھی لحاظ سے کم فکر تھے۔ مختلف ممالک سے مسلمانوں کو وظیفہ دے کر تعلیم کیلئے مغرب خصوصاً برطانیہ لے جانے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اسی طرح کاروبار اور ملازمتوں کے نام پر بھی ایک بڑی عوامی کھیپ کی ذہن سازی اور برین واشنگ کی گئی۔ جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی اور میڈیا کے ذریعے ایسے ذہن تیار کئے گئے کہ جو مشرق میں متولد ہونے اور رہنے کے باوجود بھی مغرب کی پرستش کرتے ہیں اور مغرب کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہیں۔ ایسے لوگ مستشرق نہیں ہیں، لیکن یہ استعمار کے جدید لے پالک ہیں۔ یہ ایسے مسلمان ہیں، جن کے مفادات کسی نہ کسی بہانے برطانیہ یا کسی مغربی ملک سے ہی وابستہ ہیں۔ نام نہاد روشن فکروں کے علاوہ استعمار کے جدید لے پالکوں میں وہ لوگ بھی آتے ہیں، جو بظاہر مسلمان علماء کے روپ میں ہوتے ہیں اور کبھی کبھار استعمار کے خلاف بیانات بھی دیتے رہتے ہیں، لیکن یہ اسلام کے منبر کو ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے اور دوریاں بڑھانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔

چونکہ ایسے لوگ اکثر مغرب میں ہی رہائش پذیر ہوتے ہیں اور یا پھر انہیں ادھر کے ویزے جلدی مل جاتے ہیں اور جو وہاں نہ بھی رہیں، اُن کے ڈونرز اور مالی معاون وہیں پر رہائش پذیر ہوتے ہیں، اس لئے دوسرے مسلمانوں کے اکابرین و مقدسات کی توہین کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ استعمار کے لے پالک جہاں مسلمانوں کو استعمار کے مقابلے میں نیوٹرل رہنے کی تلقین کرتے ہیں، وہیں لوگوں کو یہ بھی باور کراتے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد ممکن ہی نہیں، یہ مسلمانوں کو اصلاحِ احوال اور اتحاد سے مایوس کرنے کی ذمہ داری انجام دیتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کو اپنے استحکام سے مایوس کرنے، اُن میں احساسِ کمتری ایجاد کرنے، ایک دوسرے سے لڑانے اور کمزور کرنے کے فارمولے پر عمل کرتے ہیں۔ یہ ہر اُس شخص اور ہر اُس آواز کے خلاف ہوتے ہیں، جو مسلمانوں کو استعمار کے خلاف بیدار کرے اور انہیں باہمی اتحاد و وحدت کی دعوت دے۔ ان کا مشن مسلمانوں کو یہ یقین دلانا ہے کہ شیعہ و سُنی مسلمانوں کی فرقہ واریت میں استعمار اور مشتشرقین کا کوئی ہاتھ نہیں بلکہ مسلمان فطرتاً ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔

ان کے بقول مسلمان چودہ صدیوں سے ایک دوسرے پر شب خون مار رہے ہیں اور قیامت تک مارتے رہیں گے۔ یہ قرآن مجید اور سیرت النبی ؐکی اتحاد و وحدت کی تعلیمات کے برعکس ضعیف روایات اور متنازعہ تاریخی و فرقہ وارانہ واقعات کو اپنے تجزیات اور کتابوں و بیانات کی صورت میں پھیلاتے رہتے ہیں۔ ان استعماری لے پالکوں کی کاٹ مستشرقین سے بھی زیادہ ہے۔ لہذا آج کے دور میں ان کو پہچاننا اور مسلمانوں کی صفوں میں ان کی نشاندہی کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے اردگرد پیش آنے والے واقعات کے پس منظر میں جھانکنے اور ان کی فکری بنیادوں کو تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ چونکہ کہیں پر بھی نظریاتی انحراف، دہشت گردی، اغوا، ٹارگٹ کلنگ، تکفیر اور خودکش دھماکوں کی نوعیت قدرتی آفات یعنی زلزلے اور سیلاب کی مانند نہیں ہے، بلکہ جہاں پر بھی نظریاتی انحراف، دہشت گردی، اغوا، ٹارگٹ کلنگ، تکفیر اور خودکش دھماکے ہوتے ہیں، ان کے پیچھے ایک فعال، مدبر اور منصوبہ ساز انسانی دماغ اپنا کام کر رہا ہوتا ہے اور پسِ پردہ ماہر منصوبہ ساز بیٹھے ہوتے ہیں۔ لہذا ہمیں اپنی تاریخ کے کسی بھی گوشے کو بغیر تحقیق کے تاریک نہیں چھورنا چاہیئے۔ دشمن ہمیشہ تاریکی سے فائدہ اٹھاتا ہے اور سب سے خطرناک تاریکی عدمِ آگاہی، عدمِ تحقیق اور جہالت کی تاریکی ہے۔

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply