ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ماریہ عرش پر/محمد وقاص رشید

“ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ماریہ عرش پر ”
(ماریہ کی روح کا عرشِ معلیٰ پر حاضری کا چشمِ تصور سے دیکھا گیا منظرنامہ)
خدا کا دربار لگا ہوا ہے۔ فرشتے روز ہی سر جھکائے ہوتے ہیں۔ مگر آج تو گویا سر کو ڈھائے بیٹھے ہیں۔ من ہی من میں سوچتے تو ہونگے۔ یہی تو کہا تھا شہنشاہِ عالم پناہ۔۔۔۔
عجیب ہُو کا عالم ہے۔ زمین سے ایک روح کی آسمان میں آمد ہے۔ یہ ایک لڑکی ہے۔ وہ بد بخت بیٹی جسے کہنے کو رحمت کہتے ہیں۔ رحمت کے مہینے میں زمین سے ایک قیامت اپنے تن پر سہہ کر اس دنیا سے رخصت ہوئی۔ انسانی پراگندگی و غلاظت کا ایک حشر جسکی روح نے بے بس جسم سے جدا ہونے سے پہلے سہا۔ چارپائی پر اسکے ساتھ انسانیت کے ہاتھ پاؤں بھی بندھے ہوئے تھے۔
یہ ویڈیو دیکھ کر یہ عالم ہے کہ آنکھیں پتھر ہیں روح گھائل۔ جسم شل ہے۔ بے یقینی کے ایک طوق اور پژمردگی کی ایک صلیب ہے جو دل میں پیوست ہے۔ اگر وہ بد صفت ویڈیو دیکھ کر دل کا یہ عالم ہے تو اسکی کیا کیفیات ہوں گی جسکی آنکھیں یہ دیکھ کر انسانیت کی قبر کا کتبہ ہوئیں اور روح پوری کائنات کو گویا مردہ کر گئی۔ اتنی سفاکیت ، اتنی درندگی ، اتنی وحشت۔۔ اس دو ٹانگوں والے حیوان کی بربریت و سفاکیت سے تو پناہ مانگتے ہونگے کائنات کے سارے چوپائے۔ کہ ایک باپ اور بھائی۔۔۔خدا کی قسم باپ بھی ہوں بھائی بھی مگر آج ان رشتوں سے شرمسار ہوں۔ آج مرد کہلانے پر زندہ درگور ہوں۔

سچ تو یہ ہے کہ اسکی روح تو جسم سے تب ہی نکلنے کو بے قرار ہو گی جب اس کی طرف اس نے میلی نگاہ سے دیکھا جو زمین پر اسکے لیے خدا کا سایہ تھا۔ سر پر دست ِ شفقت رکھنے والا ہاتھ انسانیت کا منہ نوچ کر جب مکروہ ترین ہاتھ بن کر اسکی جانب بڑھا۔ اسی ایک لمحے ، اسی ایک لحظے۔۔پوری انسانی تاریخ پر وہ ایک لمحہ بوجھ ہے۔ تمام تر انسانی تخیلات و تصورات پر اس ایک خیال کا شائبہ کائنات کی سب سے بڑی گالی ہے۔۔۔خدا کی قسم لکھتے ہوئے ہاتھ کیا روح کانپتی ہے کہ جب کوئی باپ خود سے پیدا ہونے والی بیٹی کو۔۔۔او قلم کی قسم کھا کر اسے نا چیز کو عطا کرنے والے خدا ایک بیٹی کا باپ یہ لکھنے سے عاجز ہے۔
خدا سے ہم کلام ہوتی ہے یہ بچی اور کہتی ہے۔۔۔الہی ! کہاں بھیج دیا تھا پروردگار۔۔۔کوئی درندوں سے درندے تھے کوئی وحشیوں سے وحشی۔ ذرا نہ چوکے ، ذرا نہ ٹھٹھکے ، ذرا ترس نہ آیا۔ ذرا رحم نہ پھوٹا۔

میں تو بیٹی تھی ۔ اس سماج میں جہاں ہر کوئی عورت کے جسم کو سب سے پہلے نگاہوں کا مالِ غنیمت سمجھتا ہے پھر ہاتھوں کا اور پھر اپنی وحشت کا۔ وہاں بیٹیاں ہوس کی اس تپتی دھوپ میں جن جسموں کے سائے میں خدا کی پناہ پاتی ہیں میرے جیسی بے نصیب ان جسموں سے ہی خدا کی پناہ مانگتی رہیں۔ نہیں ملی مالک نہیں ملی۔۔۔۔

وہ باپ کہ جسکے نطفے سے میں پیدا ہوئی تیرے حکم پر۔ اس نے مجھے پیدا کر کے خود میرے جسم کو ہی اپنی نطفہ گردی کا نشانہ کیوں سمجھ لیا ۔۔۔کیوں ؟ اس نے میری جانب وہ ہاتھ بڑھاتے کیوں نہ سوچا جسکی ایک انگلی پکڑ کر میں نے چلنا سیکھا۔ وہ جسکے آنگن میں تتلی بن کر میں اڑی اسی نے اپنی کالک چھپانے کے لیے میرے پروں کے رنگ مسل دیے۔ جسکے کانوں میں میری پہلی مسکراہٹ کی کھنک پڑی، کیسے انہی کانوں نے اپنی وحشت پر میری پہلی سسکی سے لے کر نزع کی آخری ہچکی تک سنی کیسے پروردگار۔ وہ آنکھیں کیا واقعی مجھے میری ماں اور اپنی بیوی کی گود میں اس لیے دیکھ رہی تھیں کہ بس ذرا اس گود سے اتروں تو انکی حیوانیت کا سامان کروں۔ کیا واقعی یارب العالمین۔
تیری دی ہوئی زندگی پہلے برباد کرنا اور پھر چھین ہی لینا اتنا آسان کیوں ہے زمین پر۔ اتنی بھی کیا رسی دراز مالک کہ وہاں ایسے حیوانوں کے ہاتھوں رشتوں کے تقدس کی پراگندگی سے لے کر بے موت مارے جانے تک بچانے والا کوئی بھی نہ ہو۔۔۔۔تو بھی نہیں قادرِ مطلق تو بھی نہیں۔۔۔سچ تو یہ ہے کہ اسی لیے میں نے تجھے بلایا بھی نہیں۔

یاربِ ذوالجلال ! سچ تو یہ کہ میں ایسے مکروہ ، ناپاک اور ذلالت سے لتھڑے ہوئے پوتڑوں کے درمیان جینا بھی نہیں چاہتی تھی کہ جہاں ایک ہی کوک سے جنم لینے والا وہ بھائی جو دوسروں سے عصمت کا محافظ ہوتا ہے خود ہی اس پر نقب زن ہو۔ اسی لیے جب اس نے میری سانسوں کو روکا تو میں نہ تڑپی نہ روئی نہ چلائی نہ کسمسائی کہ جہاں ایسے انسان نما درندے بستے ہوں وہاں زندگی موت سے بدتر ہے۔ وہاں مرگ کا ایک لمحہ صدیوں کی حیاتِ انسانی کا خراج ہے۔

یارسول اللہ ! جب آپ وہاں تشریف لے گئے تھے تو بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔ میری بد بختی دیکھیے اے رحمت للعالمین کہ آپ ان عرب کی بیٹیوں کے لیے پیامِ حیات بن کر آئے مگر میں آپکی امتی بیٹی حسرت یہ کر رہی ہوں کہ کاش میرے باپ نے مجھے پیدا ہوتے ہی مار دیا ہوتا۔ پورے عرش پر یہ سن کر سسکیوں اور ہچکیوں کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں۔

جنابِ آدم ! میں آخر پہ آپ سے کہنا چاہتی ہوں کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں ان فرشتوں نے آپ کو سجدہ کیا تھا آج آدمی نے آدم کا وہ سجدہ بھلا دیا۔ ابلیس آپ کو سجدہ نہ کر کے راندہِ درگاہ ٹھہرا وہاں اب ابلیس آدمی کا مسجود ہے۔۔۔وہ شیطان کے جھانسے اور بہکاوے میں۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ماریہ نامی روح یہاں تلک پہنچی تھی کہ اچانک بیڑیوں کی کڑکڑاہٹ اور زنجیروں کی تڑتڑاہٹ کی آواز نے سب کو چونکا دیا۔ ماریہ کے قدموں سے آکر کوئی لپٹ گیا۔ ہچکیوں اور سسکیوں کے درمیان کہنے لگا ۔۔۔۔نہ بیٹی نہ۔۔۔۔یہ دیکھ میں اس ماہِ مبارک میں قید ہوں جکڑا ہوا ہوں۔ خدا کی قسم اگر میری قید کے اس ماہِ رحمت میں زمین پہ یہ عالم ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ میں تو فقط بدنام ہوں۔ خدا کی قسم میں آزاد بھی ہوتا تو کسی ایسے باپ سے خدا کی پناہ مانگتا جو اپنے من کی غلاظت کے نشان بیٹی کے لہو سے دھوئے۔ جسکو اسکے جسم سے سانسیں ملی ہوں ان سانسوں کا گا گھونٹتے اپنی پراگندگی کے پوتڑے کو کہے حوصلہ کرو اور یہ یہ بھیانک ترین وحشت و بربریت کا مظاہرہ کر چکنے کے بعد اسے پانی کی بوتل دے۔۔۔لے آج میں رب کی مستقل پناہ مانگتا ہوں اور پڑھتا ہوں۔
“اعوذباللہ من شیطان الرجیم”۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply