تبصرہ کتاب: “لہجہ” (شاعر: قیصر وجدی) ۔ ۔۔۔تحریر: فیصل عظیم

’’لہجہ‘‘ معروف شاعر جناب قیصر وجدی کا شعری مجموعہ ہے۔ اس کی طباعت نہایت خوبصورت اور صاف ستھری ہے اور یہ چکنے اور موٹے کاغذ پر دیدہ زیب سرورق کے ساتھ سلیقے سے چھپی کتاب ہے۔ قیصر وجدی کو دوست، نیم دوست اور نادوست، سبھی کسی نہ کسی حوالے سے جانتے ہیں۔ کتاب کا عنوان ان کی تحریروں کی خوب نمائندگی کر رہا ہے۔ نثر اور نظم دونوں میں ان کا خاص انداز نمایاں ہے۔ اس کا مقدّمہ ان کا اپنا لکھا ہوا ہے جس کا عنوان ہے ’’نوحہ‘‘۔ اس میں وجدی بھائی نے شہرت گزیدگی اور شاعروں اور شاعری کی بے توقیری پر سخت اور نرم دونوں طرح کی کاٹ دار باتیں کی ہیں۔ جون ایلیا صاحب کے ساتھ گزرے اچھے برے اور مشکل لمحات اور واقعات رقم کرتے ہوئے جون صاحب کی شخصیت اور طرزِ زندگی کے بھی کچھ ناگفتنی پہلو سامنے لائے ہیں ۔ان کے حلقے  اور ان کے نام لیوا احباب کے رویّوں پر بھی زیرِ لب تنقید کی ہے اور یادداشتوں کے ذریعے اپنے مخصوص انداز میں پیار ہی پیار میں لوگوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش بھی کی ہے۔
مجموعے میں غزلوں کے علاوہ مسدّس، آزاد نظمیں اور قطعات شامل ہیں۔ آزاد نظموں میں ’’کہانی‘‘ اور ’’وردی‘‘ کے علاوہ ایک قابلِ ذکر نظم ہے ’’ڈھکن‘‘۔ اس میں ڈھکن، بوتل کے تناظر میں آتا ہے مگر عوامی زبان میں لوگوں کو جو طنزاً ڈھکّن کہا جاتا ہے، وہ اسی طنزیہ لقب سے اچانک کام لیتے ہیں جو دلچسپ ہے۔
غزلوں کی ردیفیں اکثر طویل ہیں مگر گھسی پٹی نہیں ہیں بلکہ ان میں نیا پن محسوس ہوتا ہے اور بعض تو بہت مختلف ہیں جیسے ’’انٹا غفیل‘‘۔ یا ’’بھاڑ میں جائے‘‘ والی غزل دیکھیے جس کے سب شعر ہی جھنجھلاہٹ اور غصّے میں کہے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔
شرافت بزدلی جانی گئی ہے میری بستی میں
کہ گالی دیجیے صاحب شرافت بھاڑ میں جائے
ان کے لہجے میں تلخی ہے مگر اظہار سادہ ہے۔ ان کا طنز ایسا ہے جیسے مسکرا مسکرا کر کیا جا رہا ہو مطلب یہ کہ زہرخند کہہ لیجیے۔ ان کی غزلوں کی چھوٹی بحروں میں صفائی ایسی ہے کہ سہلِ ممتنع کے قریب پہنچ جاتی ہے۔ کچھ شعر ملاحظہ ہوں
کارِ وفا کروں تو کروں کب تلک بھلا
اے بے وفا، وفا کی ضرورت مجھے بھی ہے
ہم سفر تو ہے مرا رات کی تاریکی میں
اور پھر راستہ سنسان، خدا خیر کرے
وہ بازی جیت گیا یہ کمال ہے اس کا
کہ اس نے چال کو دیکھا، چلا تو کچھ بھی نہیں
ہم کو بھی سونپ حسن کی بانہوں میں تو کبھی
اے عشق دیکھ ہم بھی ترے کارواں کے ہیں
میں ہوں وہ انسان جس کا دین ہے انسانیت
تو وہی دنیا وہی نفرت وہی دیوانگی
سمجھ لینا جفاؤں کا وہاں پر استعارہ ہے
جہاں ہم نے کتابِ زندگی میں دوستی لکھا
جھیل میں پتھر مت پھینکو
عکس کو زندہ رہنے دو
عمر ہے اپنی پیارے دشمن داری کی
کم عمری میں یار بنائے جاتے ہیں
اپنے ہونٹوں کے تل کی کالک وہ
میرے منہ پر لگا بھی سکتے ہیں
ہائے مقتول کو خبر ہی نہیں
کس لیے خوں بہا لیا تم نے
کوچۂ رایگاں کے تھے ہی نہیں
ہم جہاں تھے، وہاں کے تھے ہی نہیں
بتائیں کیا تمھیں ہم دوستوں سے
بہت بےزار ہوتے جا رہے ہیں
سو رہا ہوگا کوئی چلتے میں
کوئی چلتے میں سو رہا ہوگا
جنگ پانی کے واسطے کب تھی
ورنہ دریا اٹھا کے لے آتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply