نظریہ، فکر اور عمل/ڈاکٹر اظہر وحید

ہمارے عمل کی بنیاد ہمارا فکر ہے اور ہمارے فکر کی اساس ہمارا نظریہ ہے۔ ہم جس نظریہ حیات کو قبول کرتے ہیں، اس کے مطابق ہمارے فکر کا رخ متعین ہوتا ہے اور پھر اس فکر کے مطابق ہم زندگی میں اپنا عمل ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسان کو دیگر ذی حیات سے ممتاز رکھنے والی چیزوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ ایک نظریہ رکھتا ہے۔ انسان، پڑھا لکھا ہو، یا ان پڑھ، مذہبی ہو یا لامذہب، مجبور ہو یا مختار، کوئی نہ کوئی نظریہ اپنے شعور کے ساتھ نتھی کیے رکھتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ، تجربات کے ساتھ اور پھر بڑھتے ہوئے شعور کے ساتھ اُس کا نظریہ حیات تبدیل بھی ہو سکتا ہے، لیکن تبدیل ہونے کے بعد بھی وہ کسی نظریے سے منسلک ضرور رہے گا۔ مادّی نظریہ حیات رکھنے والا شخص کسی روحانی تجربے کے ساتھ، کسی روحانی شخصیت کی سنگت کے زیرِ اثر بتدریج کسی روحانی نظریے کا قائل ہو سکتا ہے اور اس کے برعکس یہ بھی ممکن ہے کہ ایک دینی نظریہ رکھنے والا شخص اپنے جبلی تقاضوں کے زیرِ اثر کوئی مادّی نظریہ حیات قبول کر لے۔ بہرطور نظریہ انسان کی معنوی زندگی کے لیے ایسے ہی لازم و ملزوم ہے جیسے اُس کی مادّی زندگی کے لیے کھانا پینا، ہوا اور پانی۔

نظریے کو ماننے والے ایمان والے کہلاتے ہیں اور اس نظریے کا انکار کرنے والے اس کے کافر قرار پاتے ہیں۔ اللہ پر ایمان لانے والوں کے مقابلے میں جن لوگوں کا تذکرہ ہوا ہے، ان کے بارے میں قرآن میں کہا گیا ’’وہ لوگ جو کافر ہو گئے‘‘۔ اسی طرح اولیاء اللہ کے مقابلے میں قرآن میں اولیاء الطاغوت کا ذکر موجود ہے۔ اولیاء اللہ ایمان والوں کو ظلمت سے نکال کر نور میں داخل کرتے ہیں، جبکہ اولیاء الطاغوت انہیں نورِ ہدایت سے نکال کر کفر کے اندھیروں میں دھکیل دیتے ہیں۔

آدم تا ایں دم حضرتِ انسان دو قسم کے نظریہ حیات میں منقسم ہے۔ ایک روحانی نظریہ حیات پر یقین رکھنے والوں کا قبیلہ ہے اور دوسرا مادّی نظریہ رکھنے والوں کا قبیلہ ہے۔ مادی طرزِ فکر کے قبیل کا سردار قابیل ہے۔ روحانی نظریے کا سرخیل ہابیل ہے۔ قابیل صرف طاقت پر ایمان رکھتا ہے۔ اس کے نزدیک کوئی روحانی یا اخلاقی طاقت وجود ہی نہیں رکھتی۔ طاقت اور تعداد کے زور پر کامیاب ہونا اس کے نزدیک حقیقی کامیابی ہے۔ اس کے برعکس ہابیل کا نظریہ حیات آسمانی ہے۔ وہ زمین کو آسمان کے تحت دیکھتا ہے۔ وہ زمینی راستوں پر چلنے کے لیے بھی آسمان سے اتری ہوئی ہدایت کو تھامتا ہے۔ آسمان سے اترنے والی ہدایت کسی انسان پر اترتی ہے۔ وہ اس انسان کی تکریم کرتا ہے جس پر ہدایت نازل ہوتی ہے۔ سو! ہابیل کے فکری قبیلے سے تعلق رکھنے والے تکریم آدم و بنی آدم کے قائل ہیں۔ وہ آدم کے کسی روپ کی تذلیل نہیں کرتے۔ قابیل اور اس کے ہم نوا ہر حال میں کامیابی چاہتے ہیں، خواہ اس کے لیے انہیں انسان کا خون بہانا پڑے۔ وہ ’’محبت اور جنگ میں ہر چیز جائز ہے‘‘ کے قائل ہیں۔ اس کے برعکس ہابیل اور اس کے ہم مکتب باہمی مسابقت و مبارزت میں بھی اصول، ضابطے اور اخلاق کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ وہ مقدار کے بجائے معیار کے قائل ہیں۔ وہ طاقت کو اصول نہیں مانتے، بلکہ اصول کو طاقت مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک اگر منزل پاک ہے تو اس تک پہنچنے کا راستہ بھی پاک ہونا چاہیے۔ کوئی غلط راستہ کسی صحیح منزل تک نہیں پہنچا سکتا ہے۔ حج کے لیے کمائی بھی پاک ہونی چاہیے۔ خدمت خلق کے لیے خلق سے مال چھیننا جائز نہیں۔ مجاز تک پہنچنے کے لیے بھی حقیقت کو فراموش کر دینا درست اقدام ہرگز نہیں۔

بہر حال وہ لوگ Might is right کے قائل ہیں، صبحِ ازل سے ان لوگوں سے جدا ہیں جو Right is might کے قائل ہیں۔ طاقت اصول سے بڑی ہے یا اصول طاقت سے بڑا ہے۔ اس کے فیصلے میں ہی تاریخ اپنا فیصلہ سنا دیتی ہے۔ چھوٹا انسان طاقت کو اپنا آقا تسلیم کر لیتا ہے۔ چڑھتے سورج کی پوجا کرنا ایسے ہی لوگوں کا نظریہ حیات ہے۔ سورج ہر آن اپنا زاویہ بدلتا رہتا ہے، بس ان کا قبلہ بھی ہر بدلتے لمحے کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ طاقت کے سورج کو سجدہ کرنے والے اپنے سائے سے نجات نہیں پا سکتے۔ حق پرست اگر کسی غار میں بھی پناہ گزیں ہو جائیں تو سورج ان سے پہلو بچا کر گزرتا ہے۔ بہرطور Divine School of thought اور Darwinian School of thought میں فرق واضح ہے۔ یہ فرق نظریے سے شروع ہوتا ہے اور فکر کے راستے ہوتا ہوا عمل کی صورت متشکل ہوتا ہے۔ خون بہانے والے اور ہیں اور خون دینے والے اور، زخموں پر نمک چھڑکنے والے اور ہیں اور مرہم لگانے والے اور! ’’پہلے میں‘‘ کہنے والے اور ہیں اور ’’پہلے آپ‘‘ بولنے والے اور۔

مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے ایک مرتبہ سرِ محفل بتایا: ’’اسلام کا خلاصہ اس جملے میں ہے: My brother’s need is greater than mine۔ دین پرست دوسروں کے جان مال اور عزت کی تکریم کرتے ہیں اور دنیا پرست دنیاوی فوائد کے لیے اپنے ہم نسبوں کی جان مال اور عزت پامال کرنے میں پل بھر کا تامل نہیں کرتے۔

سیرت کی کتابوں میں درج ہے ’’آپؐ کعبہ کا طواف فرما رہے تھے اور ساتھ ہی یہ فرما رہے تھے: اے کعبہ! تُو کیا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کس قدر عمدہ ہے، تُو کتنا عظیم ہے اور تیری حرمت کتنی عظیم ہے، لیکن قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں محمدؐ کی جان ہے، مومن کی حرمت، اس کے مال و جان کی حرمت، اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے عظیم تر ہے‘‘۔

Advertisements
julia rana solicitors

عمل کی اصلاح مطلوب ہو تو فکر کی اصلاح کی طرف توجہ چاہیے۔ اگر فکر کسی الجھن یا اشکال کا شکار ہو تو دیکھنا چاہیے کہ ہم کس نظریہ حیات کی طرف کھڑے ہیں۔ فکر ہمارے اعمال کا امام ہوتا ہے، اگر امام قبلہ رُو نہ ہو تو مقتدیوں کی نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ مادّی نظریہ حیات رکھنے والا اگر بظاہر نیک صورت نظر آئے تو اس سے زیادہ چوکنا رہنا چاہیے، وہ کسی بھی لمحے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے کسی بھی اخلاقی اور روحانی اصول کا سودا کر سکتا ہے … کسی بھی انسان کو دھوکا دے سکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply