ابّا جی کا خزانہ/اقتدار جاوید

قبلہ والد کا کتب خانہ پرانے زمانے کا ایک رنگلے صندوق میں بند تھا۔کتابوں کا ایک بھرا پڑا صندوق تھا وہ وہاں سے اپنی پسند کی کتاب کس طرح ڈھونڈ لیتے تھے معلوم نہیں۔وہیں ان کے مسودے بھی پڑے ہوتے تھے۔وہ بہت خوش نویس تھے اور
گر تو می خواہی کہ باشد خوش نویس
می نویس و می نویس و می نویس
والا شعر انہی سے ہم بچپن میں سنا تھا اور یاداشت کا حصہ بنایا تھا۔اس صندوق میں ہم نے اردو، عربی اور فارسی کی کتب دیکھیں مگر کوئی پنجابی کتاب نہیں دیکھی سوائے قصیدہ غوثیہ کے منظوم ترجمہ کے جو محمد ابراہیم نامی شاعر نے کیا تھا۔یہ پاکٹ سائز کتابچہ تھا۔ قبلہ والد کی ایک عادت ثانیہ یہ بھی تھی دوران ِ مطالعہ جو جملہ جو نکتہ پسند آتا اس صفحے اور اس سطر پر اپنے دستخط کرتے اور تاریخ ضرور لکھتے۔دستخط بھی ان کیا تھے پورا نام ہی لکھ دیتے تھے۔
ابا جی کی کتب کا خزانہ بہت منتخب قسم کا تھا الا بلا قسم کی کوئی شے نہیں تھی۔وہ مذہبی شخصیت تھے مگر اولاد کو مذہبی مجادلے والی کتب سے کوسوں دور رکھا۔ خود بھی مسلکی شدت پسندی سے نالاں تھے۔پرانی تہذیب اور وضع کے مطابق زندگی بھر گھر کو دو حصوں میں منقسم کیے رکھا ایک زنان خانہ اور دوسرا مردان خانہ۔کتب ان کی زنان خانے میں ہوتی تھیں اپنے مطالعے کے لیے ایک آدھ کتاب اپنے پاس رکھتے۔حنفی بریلوی ہونے کے باوجود مولانا اشرف علی تھانوی کا ترجمہ کردہ قرآن مجید زیر مطالعہ رہتا تھا۔
الف لام میم سے والناس تک
دنیا میرے ذوق کی عرفان کی
ایک آدھ اور کتاب جیسے دیوان غالب یا دیوان حافظ۔
جہاں ان کو کوئی شعر پسند آتا وہیں دستخط کر دیتے۔
قبلہ والد ؒ نے اپنی کہی ہوئی نعتوں کا مجموعہ ترتیب دیا اور پہلی اشاعت پذیر دو کتب بہار ِخلد اور گلشن ِ قادری ( نبی کریم ﷺ کے معجزات) سے نعتیں الگ کر لیں اور نئے کلام اور ان دو کتب میں شامل نعتیں بھی اسی زیر ِ ترتیب مجموعہ میں شامل کر لیں۔کتابت کے لیے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ایک خوش اطوار نوجوان کاتب بادشاہ پور آستانے پر پہنچ گیا۔وہ علی الصبح قبلہ کی نشست کے ساتھ جائے نماز بچھا کر کتابت کرتا۔ایک دو ماہ میں وہ کتابت مکمل کر کے واپس چلا گیا۔اس نوجوان کاتب کو بڑے بھائی توقیر احمد فائق نے بھیجا تھا اور انہوں نے ہی کتابت کی ادائگی بھی کی تھی۔تب وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ڈپٹی کمشنر تعینات تھے۔اب اس مجموعے کا نام تجویز کرنے کا مرحلہ آیا تو قبلہ نے
وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک تجویز کیا۔
ہمیں بھی یہ نام بہت پسند آیا۔چند دن بعد قبلہ نے اس نعتیہ مجموعے کا نام “خزینہ ِ رحمت” رکھ کر کتاب پرنٹنگ کے حوالے کر دی۔ہم نے ان سے پوچھا کہ پہلے والا نام کیوں تبدیل کیا۔خاموش ہو گئے ہم نے از خود اندازہ لگایا اور استفسار کیا تب فرمایا میں کون ہوتا ہوں رحمت العالمین ﷺ کا ذکر بلند کرنے والا۔میں یہ نام رکھنے کا سزاوار کہاں۔یہ بات اللہ کر سکتا ہے صرف اللہ۔این کار از تو آید مردان چنین کنند!!
شوکت بک ڈپو شاہدولہ چوک گجرات کسی زمانے میں ضلع گجرات میں مذہبی اور عشقیہ داستانوں کی اشاعت کا مرکز تھا۔ان کی تصنیف مرزا صاحباں کا تو الگ ہی چرچا تھا۔اس کا دوسرا ایڈیشن 1968 میں شوکت بک ڈپو گجرات نے ہی دوسری بار شائع کیا تھا۔اس کتاب کے سرورق پر ایک خوبرو نوجوان اور ایک پنجابی مٹیار کی تصویر دیکھ کر ہی ہم نے مرزا صاحباں کی خیالی تصویر بنائی تھی۔اس کا آخری ایڈیشن لہراں ادبی بورڈ والے سید اختر حسین نے بڑی محبت سے شائع کیا تھا۔اس کی تیسری اشاعت سے قبل ہم باپ بیٹا اردو بازار کے ایک مشہور پبلشر کے پاس آئے تھے۔ہم مرزا صاحباں ان سے چھپوانا چاہتے تھے۔پنجابی ادب کے رسیا اور شائق اس تصنیف کو معرکتہ الارا مانتے ہیں۔جب اردو بازار پہنچے تو ان کو گاڑی میں بیٹھنے کو کہا اور خود پنجابی کتب کے مشہور پبلشر کی دوکان پر چلا گئے۔سلام دعا کے بعد اپنی آمد کا مقصد بتایا کہ کتاب مرزا صاحباں شائع کروانی ہے۔پبلشر فوراً بولا مرزا صاحباں اسیں صرف حافظ برخوردار، بوٹا گجراتی اور سراج قادری (قبلہ والد) کا شائع کرتے ہیں۔اس سے بات چیت کر کے واپس آیا اور خوش ہو کر ان کو سارا قصہ گوش گزار کیا۔
آہستہ سے کہا” اچھا “۔ وہ کتاب بعد میں لہراں ادبی بورڈ نے شائع کی۔مقصود ثاقب نے ان کے انتقال پر ماں بولی کا سراج قادری نمبر شائع کیا اور ان کی تصنیف سوہنی میہنوال سے منتخب کلام ماں بولی میں شائع کیا۔میں نے جب بھی قبلہ کی کافیاں یا دوسرا کلام ماں بولی کے لیے بھیجتا تو مدیر اہتمام سے آفسٹ پیپر پر ان کا کلام شائع کر کے پرچے کی زینت بناتے تھے۔ سید سبط الحسن ضیغم جیسے کھوج کار ان کے پاس حاضر ہوتے تھے۔
ان کے کتب خانے میں نادر مخطوطہ جات بھی تھے جو فارسی اور عربی زبانوں میں تھے۔حکومت پنجاب اور قومی عجائب گھر نے باقاعدہ درخواست کر کے وہ مخطوطے منگوا لیے تھے۔ان کی درخواست کے جواب میں قبلہ نے جوابی خط میں یہ ضرور لکھا کہ ان مخطوطوں کی ملکیت میری ہے اور ارسال کنندہ یا تحفہ دہندہ کا نام ضرور لکھا جائے۔یہی ان کی کمائی تھی۔ان کی مذہبی خدمات کی بنا پر ان کے مریدان ہر سال کی بیس نومبر کو بادشاہ پور منڈی بہاؤالدین میں ان کا عرس مناتے ہیں۔
ابا جی کی کتابوں کا بہت سارا خزانہ تقسیم ہو گیا۔مگر وہ کتب جو ان جی جان سے عزیز تھیں اور جن سے وہ تار تار بندھے ہوئے تھے وہ ہم نے سنبھال لیں۔ان میں مطالب الغالب نسخہ فقیر سہا، دیوان حضرت علیؓ، دیوان حضرت محی الدین عبدالقادر جیلانیؓ اور تصوف کی ایک نادر کتاب۔ ان کے علاوہ ان کی ساری شائع شدہ چھوٹی بڑی اٹھائیس کتب کا ایک ایک نسخہ اور تمام غیرمطبوعہ کلام اب ہمارے پاس محفوظ ہے۔قبلہ کی یہی کل کمائی تھی یہی کل اثاثہ تھا جو قسمت نے یاوری کی اور ہمارے حصے میں آ گیا۔کتاب نے اسی کے پاس جانا تھا جسے کتاب سے محبت تھی۔

Facebook Comments

اقتدار جاوید
روزنامہ 92 نیوز میں ہفتہ وار کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply