سر میں چڑیا کا گھونسلا۔۔امر جلیل

ملک میں اس قدر شور اور غوغا کس لئے؟ کیا ہوا ہے؟ کیا آسماں ٹوٹ کر زمین پر گر پڑا ہے؟ سمندر سوکھ گئے ہیں؟ بھائی، کوئی تو کچھ بتلائے۔ میں آپ کے ہونٹ ہلتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ شاید آپ مجھے کچھ بتلا رہے ہیں۔ مجھے آپ کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ میں بڈھا کھوسٹ ہوں۔ اونچا سنتا ہوں۔ قریب آکر اونچی آواز میں مجھے بتلایئے کہ ملک میں آخر ہوا کیا ہے؟ میرے اور قریب آیئے۔ اب میں آپ کی بات سن سکتا ہوں۔ تمہید مت باندھئے میرے بھائی۔ مجھے مت بتلایئے کہ یہ ملک کیوں اور کس مقصد کے لئے بنایا گیا تھا۔ آپ مجھے بتلایئے کہ سیالکوٹ کیا ہے اور کہاں ہے۔ اس کے بعد مجھے بتلایئے کہ سیالکوٹ میں کیا ہوا ہے کہ ملک میں اس قدر شور ہے، کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ بھائی یقین کیجئے کہ میں نہیں جانتا کہ سیالکوٹ کیا ہے اور کہاں ہے۔ میں نہیں جانتا کہ وہاں کیا ہوا ہے۔
میں آپ لوگوں کو کیسے یقین دلواؤں کہ آپ کی خرافات قطعی طور پر میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ ایسا نہیں ہے کہ بڑھاپے کی وجہ سے میں الزائمر Alzheimerمیں مبتلا ہوکر یادداشت سے محروم ہوتا جارہا ہوں۔ ایسی بات نہیں ہے۔ کبھی کبھی ہم زندگی کے کھلواڑ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پچھلے سال غلط فہمی اور غلطی کسی اور کی تھی، مگر خمیازہ مجھے بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ہمارے ملک میں ٹھیکیداروں کی کمی نہیں ہے۔ بچے کی پیدائش اور شادی بیاہ سے لے کر کفن دفن کا کام ٹھیکیدار کرتے ہیں۔ ٹھیکیدار فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ کو کیسا لباس پہننا چاہئے۔ ٹھیکیدار فیصلہ کرتے ہیں کہ کس قسم کے ڈرامے پبلک کو دکھائے جائیں۔ ٹھیکیدار فیصلہ کرتے ہیں کہ کس نوعیت کے ناول اور افسانے لکھے جائیں اور کس نوعیت کی شاعری کی جائے۔ ایک ٹھیکیدار کو ایک افسانہ نگار کسی وجہ سے اچھا نہیں لگتا تھا۔ ٹھیکیدار نے افسانہ نگار کے سر کی قیمت پچاس لاکھ روپے لگا دی۔ یعنی جو شخص ملعون افسانہ نگار کا سر کاٹ کر لے آئے گا اس شخص کو ٹھیکیدار پچاس لاکھ روپے دے گا۔ میری بدقسمتی کہ افسانہ نگار کا نام ہو بہو میرے نام جیسا تھا، اُٹھانے والے مجھے افسانہ نگار سمجھ کر اٹھا کر لے گئے۔ میرا سر کاٹ کر ادیبوں کو راہ راست پر لے آنے والے ٹھیکیدار کے پاس لے گئے۔ مجھے تعجب ہو رہا تھا کہ سر قلم ہو جانے کے باوجود میں زندہ تھا۔ میں دیکھ سکتا تھا۔ لوگوں کی باتیں سن سکتا تھا۔ اَنہونی میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔لکھنے والوں کو سدھارنے والے ٹھیکیدار نے میری کھوپڑی کھول کر دیکھی اور ٹھٹھر گیا۔ پچاس لاکھ روپے واپس لیتے ہوئے ٹھیکیدار نے میرا سر قلم کرنے والے سے کہا۔ ’’یہ کس احمق کا سر کاٹ کرلے آئے ہو؟ اس کے سر میں بھیجے کے بجائےچڑیا کا گھونسلا اور گھونسلے میں دو انڈے پڑے ہوئے ہیں۔ اٹھا یہ بیہودہ سر، اور جاکر لگا دے اس بدبخت کے کندھوں پر۔‘‘تب جاکر مجھے پتہ چلا کہ میں زندگی میں ڈانواں ڈول کیوں رہتا ہوں۔ زندگی میں آج تک میں نے کوئی تیر کیوں نہیں مارا؟ جن کی کھوپڑی میں بھیجے کے بجائے چڑیا کا گھونسلا اور گھونسلے میں دو عدد انڈے پڑے ہوئے ہوتے ہیں، وہ لوگ زندگی میں کبھی کوئی تیر نہیں مار سکتے۔ وہ صرف جھک مار سکتے ہیں۔ جن کی کھوپڑی میں بھیجے کے بجائے چڑیا کا گھونسلا ہوتا ہے وہ دہشت گردوں اور قانون شکنوں سے کامیاب مذاکرات نہیں کرسکتے۔ اسکے برعکس جن کے سر میں بھیجا فرائی ہوتا ہے وہ انسانیت کو شرمندہ کرنے والوں اور دہشت گردوں سے کامیاب مذاکرات کرتے ہیں۔ چونکہ میرے سر میں چڑیا کا گھونسلا محفوظ ہے اس لئے میں قاتلوں اور دہشت گردوں سے کامیاب مذاکرات نہیں کرسکتا۔ ایک بریانی کی پلیٹ کے عوض میں دبنگ سیاستدانوں کو ووٹ ڈالنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا۔ ایسے میں مجھے کیا معلوم کہ سیالکوٹ کہاں ہے، اور سیالکوٹ میں ایسا کیا ہوا تھاجس نے پریذیڈنٹ اور وزیراعظم سے لے کر سیانے اینکر پرسنز کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور ان کے بھیجے والے سر شرم سے جھک گئے تھے؟

Advertisements
julia rana solicitors

ہاں۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ ایک سیالکوٹ نام کے شہر میں کچھ برس پہلے جنونی وحشی ہجوم نے دو بھائیوں کو سرعام لوہے کے سریوں، ڈنڈوں، لاٹھیوں، اینٹوں اور پتھروں سے مار مار کر لہولہان کر دیا تھا۔ یہ کارنامہ غیر توں اور عزتوں کے ٹھیکیداروں نے سرانجام دیا تھا۔ اس کام میں غیرت مند ہجوم نے ان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ ہجوم کے بیچوں بیچ دونوں بھائی زخموں سے چکنارچور بے جان سڑک پر پڑے ہوئےتھے۔ غیر ت مند جنونی انہیں لاتیں، گھونسے، اینٹیں اور پتھر مار رہے تھے۔ غیرت نے مزید جوش مارا تو جنونی غیرت منددونوں بھائیوں کی لاشیں سیالکوٹ کی سڑکوں پر گھسیٹتے رہے۔ نعرے بلند کرتے رہے۔ دہشت اور خوف پھیلاتے رہے۔ آخر کار غیر ت مندوں نے ایک چوراہے کے قریب دونوں بھائیوں کی لاشیں بجلی کے ایک کھمبے سے لٹکا دیں۔ یہ واقعہ مجھے تھوڑا تھوڑا یاد ہے۔ مگر مجھے یاد نہیں کہ سیالکوٹ کہاں واقع ہے۔اس میں نہ میرا، اور نہ میری عمر رفتہ کا قصور ہے۔ میں سب کچھ بھولتا جارہا ہوں۔ سارا قصور میرے سرکا ہے، جس میں مغز کی بجائے چڑیا کا گھونسلا پڑا ہوا ہے۔ اور گھونسلے میں دو عدد چڑیا کے انڈے بھی پڑے ہوئے ہیں۔ اب آپ میری مدد کریں۔ مجھے سمجھائیں کہ یہ جو شوروغل سنائی دے رہا ہے وہ پرانے واقعہ کی بازگشت ہے، یا کہ غیر ت مندوں کی غیرت نے پھرسے جوش مارا ہے؟
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply