• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا سول حکومت ہی قصور وار ہوتی ہے، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان بن میں؟ قسط2

کیا سول حکومت ہی قصور وار ہوتی ہے، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان بن میں؟ قسط2

سترہواں جھٹکا۔ جنرل ٹکا خان کی وجہِ شہرت مشرقی پاکستان کے فوجی کمانڈر اور مارشل لا ء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر 25 مارچ 1971 کا آپریشن سرچ لائٹ ہے جس کے ذریعے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو کچلنے کی کوشش کی گئی۔ ان سے یہ فقرہ بھی منسوب ہے کہ”مجھے لوگ نہیں زمین چاہیے”۔تاہم بنگلہ دیش کی تاریخ میں انہیں قصائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اٹھارہواں جھٹکا۔ سقوطِ مشرقی پاکستان سے صرف چار ماہ پہلے 31 اگست 1971 کو یحیٰ  خان نے امریکی ٹی وی چینل این بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ‘ کیا تم نے سرحد دیکھی ہے۔ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ سرحد ہے۔ سرحد کوئی کھنچی ہوئی لکیر تو نہیں ہوتی۔ یہ تو درختوں، جھاڑیوں، دریائی نالوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ تم نے جن لوگوں کو سرحد پر دیکھا وہ مشرقی پاکستان سے انڈیا جانے والے پناہ گزین نہیں۔ میرے ساتھ چلو میں دکھاتا ہوں کہ انڈیا سے پاکستان کتنے پناہ گزیں آ رہے ہیں

انیسواں جھٹکا۔ یہ ایک مبالغہ آمیز پروپیگنڈا ہے کہ فوج یا میری حکومت مشرقی پاکستان کے عام لوگوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ فوج کبھی ظلم نہیں کرتی۔ فوج نے تو مشرقی پاکستان کے 70 ملین لوگوں کو عوامی لیگ کی مسلح علیحدگی پسند بغاوت سے بچایا ہے۔ فوجی ایکشن کے بعد مشرقی پاکستان کی اکثریت نے سکھ کا سانس لیا ہے۔میں فوجی ہوں کوئی سیاستدان نہیں۔ جس وقت بھی محسوس کیا کہ میں حقیقت سے کٹ چکا ہوں فوراً عہدہ چھوڑ دوں گا۔ مشرقی پاکستان کو میں اپنی ہتھیلی کی لکیروں کی طرح جانتا ہوں۔ جتنا میں جانتا ہوں اتنا تو کوئی مشرقی پاکستانی بھی اپنے بارے میں نہیں جانتا۔ یحیٰ  خان

بیسواں جھٹکا۔ میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا نے اپنی کتاب ’’بمبئی سے جی ایچ کیو تک‘‘ میں لکھا ہے کہ ہمارے خفیہ ادارے مشرقی پاکستان میں بنگالی سیاسی کارکنوں کو اغواء کر کے لاپتہ کر دیتے تھے۔ جنرل مٹھا نے کئی مرتبہ ملٹری انٹیلی جنس کے افسران کو کہا کہ لوگوں کو لاپتہ کرنے سے نفرتیں بڑھ رہی ہیں لیکن انہوں نے میری ایک نہ سنی۔

اکیسواں جھٹکا۔ میجر جنرل(ر) خادم حسین راجہ نے اپنی آپ بیتی “اپنے ہی ملک میں اجنبی” (A stranger in my own country)میں لکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں تعینات جرنیلوں نے حکمت سے کام لینے کی بجائے طاقت کے استعمال کو ضروری سمجھا جس سے حالا ت مزید خراب ہو گئے۔ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ۔”جنرل ٹکا خان کے بعدجب لیفٹیننٹ جنرل اے کے نیازی مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے کمانڈر بنے تو پہلے ہی ملٹری اجلاس میں وہ نشے میں گالیاں بکتے ہوئے بولے “میں اس حرامزادی قوم کی نسل بگاڑ دوں گا۔وہ مجھے کیا سمجھتے ہیں۔”مزید براں اُنہوں نے دھمکی دی کہ وہ اپنی فوج بنگالی عورتوں پر چھوڑ دیں گے۔جنرل نیازی کی باتیں سن کر ملٹری روم میں جیسے سب فوجی افسروں کو سانپ سونگھ گیا۔بعد ازاں اُنہوں نے مجھے مخاطب کر کے کہا”ابھی تم مجھے اپنی گرل فرینڈز کے فون نمبر دے دو”اس ملٹری اجلاس میں ایک بنگالی فوجی افسر میجر مشتاق بھی شریک تھا ۔وہ بعد میں غسل خانے میں گیا اور اپنے پستول سے گولی مار کر خودکشی کر لی۔

بائیسواں جھٹکا۔ ہمارا جنرل نیازی مارچ 1971ء میں بنگالیوں کی نسل بدلنے نکلا تھا۔ بنگالیوں نے بھارت کے ساتھ مل کر 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان کا جغرافیہ بدل ڈالا۔ بنگالی کہتے ہیں کہ تم لوگوں نے ہماری فاطمہ جناح کو غدار قرار دے دیا ہم پھر بھی پاکستان کے ساتھ رہے لیکن جب تمہارے جرنیل ہماری نسل بدلنے پر اُتر آئے تو ہم کیا کرتے؟

“ہم بنگالیوں کی نسل تو نہ بدل سکے مگر انہوں نے ہمارا جغرافیہ بدل ڈالا”

تئیسواں جھٹکا۔ ضیاالحق نے 90 روز میں انتخابات کروا کے جمہوریت کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھانے کے پہلے وعدے کے صرف تین ماہ بعد ستمبر 1977 میں ایک ایرانی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا ‘آئین کیا ہے؟ دس یا 12 صفحات کا کتابچہ؟ میں اسے ابھی ابھی پھاڑ کے کہہ سکتا ہوں کہ کل سے یہ ملک ایک نئے ضابطے کے تحت چلے گا۔ آج میں جہاں جاؤں لوگ پیچھے چلیں گے۔ اپنے وقت کے طاقتور بھٹو سمیت تمام سیاستدان بھی دم ہلاتے میرے پیچھے آئیں گے۔’

چوبیسواں جھٹکا۔ دس اپریل 1988 کو اوجھڑی کیمپ کا سانحہ پیش آیا۔جونیجو نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے رپورٹ میں ڈی جی ایس آئی جنرل اختر اور کچھ دوسرے فوجی جرنیلوں پر الزام عائد کیا۔ یہ رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی  مگر آرمی کو خطرہ لاحق ہوگیا کہ کہیں جونیجو آرمی کا ٹرائل نا کر لے۔آرمی کا یہ ٹرائل جنرل ضیا اور آرمی کو کسی طرح قبول نہ تھا۔

پچیسواں جھٹکا۔ 1986 میں سوویت یونین نے پیغام بھیجا کہ وہ افغانستان سے اپنی فوجیں باہر نکالنا چاہتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی وساطت سے پاکستان کو جنیوا میں ہوئے مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلہ کا کوئی حل ڈھونڈنے پر مجبور کردیا گیا۔ جنیوا معاہدے کا ڈرافٹ لے کر زین نورانی مرحوم پاکستان واپس آئے تو جونیجو مرحوم نے اس پر طویل غور کرنے کے بعد منظوری کے لیے اپنی کابینہ کا اجلاس بلا لیا ، اجلاس ابھی جاری تھا کہ وہاں جنرل ضیاءالحق انتہائی مشتعل انداز میں تشریف لے آئے۔اپنی نشست پر براجمان ہوتے ہی انہوں نے زین نورانی کی طرف اُنگلی ہلاتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر اس معاہدے پر دستخط کی منظوری دی گئی تو ”میں تمہارے…. (وہ لفظ لکھا نہیں جا سکتا) کو باندھ کر درخت سے الٹا لٹکا دوں گا۔“ یہ دھمکی دینے کے بعد وہ اجلاس سے روانہ ہوگئے۔ جونیجو کابینہ نے اس کے باوجود جنیوا معاہدے پر دستخط کر دیے اور مئی 1988ءمیں ضیاءالحق نے منتخب حکومت کو اسمبلیوں سمیت فارغ کر دیا۔
(آج بھی اس ڈرافٹ پر اگر غور کریں تو خیال آتا ہے کہ سول حکومت کے تیار شدہ معاہدے پر رضا مندی کے اظہار کے بعد دیانت داری سے فوج عمل پیرا ہوتی تو شاید ہمارے خطے میں افغانستان کے تناظر میں وہ تباہی پھیلی ہوئی نظر نہ آتی جو ان دنوں ہمارا مقدر ٹھہری نظر آرہی ہے)

جاری ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس تحریر کو لکھنے میں منیر احمد منیر(دنیا)، ڈاکٹر صفدر محمود، نصرت جاوید(نواۓ وقت)، حامد میر(جنگ)، اکمل سومرو (ڈان) منظور ال حسن (ال ماروت)اور وسعت اللہ خان صاحب (بی بی سی ) کی تحریروں سے مدد حاصل کی گئی ہے

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply