• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سیالکوٹ کا واقعہ ، قومی سلامتی اور اسلامو فوبیا(1)۔۔افتخار گیلانی

سیالکوٹ کا واقعہ ، قومی سلامتی اور اسلامو فوبیا(1)۔۔افتخار گیلانی

پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں جس طرح ایک بے قابو ہجوم نے مذہب کی آڑ لیکر سری لنکا کے 48سالہ شہری پریانتھا دیاواداناگی کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناکر اسکی لاش نذر آتش کی، اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ مذہب کے نام پر مسلم معاشرہ اور خاص طور پر پاکستان میں فسادات برپا کروانا کس قدر آسان ہے۔ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں تقریباً تین دہائیوں تک صحافتی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے ، جب بھی کبھی حساس اداروں سے وابستہ حاضر سروس یا ریٹائرڈ افسران سے آف ریکارڈ گفتگو کا موقع ملتا تھا، تو وہ بتاتے تھے ، کہ پاکستان کو الجھا ئے رکھنے کیلئے وہاں مذہب ، مسلک، لسانی و قومیت کے مسائل کو اٹھا کر آگ جلائے رکھنا ضروری ہے۔ بھارت میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی انفارمیشن ٹیکنالوجی سیل سے وابستہ ایک سابق اہلکار نے ایک بار مجھے بتایا کہ بھرتی کے دوران ان کو مسلم فرقہ کو اشتعال دلانے کی باضابطہ ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ان کو بتایا جاتا ہے کہ مسلمان جذباتی ہوتے ہیں اور جلد ہی اشتعال میں آجاتے ہیں اور اسکا فائدہ اٹھا کر ان کو الجھا کر رکھا جاسکتا ہے۔ اس سے قبل بھی ایک بار میں نے بھارت کے ایک اہم خفیہ ادارے کے ایک سابق اعلیٰ افسر مولائی کرشنا دھر کے حوالے سے تحریر کیا تھا کہ 60ء کی دہائی میں پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی کارروائیوں کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے حساس اداروں کے افسران کی ایک میٹنگ طلب کی گئی۔ اپنی ایک کتاب ’مشن ٹوپا کستان‘ میں انہوں نے لکھا ہے کہ اس میٹنگ میں طے پایا گیا کہ پاکستانی شہر کراچی میں مسلکی منافرت کو شہ دے کر پاکستانی ایجنسیوں کا دماغ ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے۔ دھر مزید لکھتے ہیں کہ انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ کے حکم پر شدت پسند نظریات رکھنے والے ہندو نوجوانوں کی ایک ٹیم تیار کی گئی اور ان کو دین اسلام کے باریک سے باریک نکات سے واقف کرایا گیا تاکہ وہ ایک جید عالم کی طرح بحث ومباحثہ کر سکیں۔ ان کی ابتدائی تربیت دہلی سے متصل ایک فارم ہائوس میں ایک افسر شیام پروہت المعروف مولوی رضوان نے کی۔حساس ادارہ جوائن کرنے سے پہلے پروہت ایک شدت پسند ہندو تنظیم کاسرگرم رکن تھا اور دین اسلام کے متعلق اسکی معلومات قابل رشک تھیں۔ابتدائی تعلیم کے بعد پروہت نے اپنے ایک شاگردگوتم رے المعروف مہم خان کو مزید تعلیم کیلئے دیوبند بھیجا۔ جہاں اس نے مناظرہ میں خاصی مہارت حاصل کی۔ فراغت کے بعد ٹریننگ کے ایک حصہ کے طور پر خان صاحب نے بریلی جاکر علمائے بریلی کو مناظرہ کی دعوت دی۔ مگر مناظرہ سے ایک رات قبل رے صاحب داد عیش دینے ایک طوائف کے کوٹھے پر جاپہنچے۔ طوائف اس بات پر حیران و پریشان تھی کہ بظاہر مولوی کی صورت والا یہ شخص آخر غیر مختون کیوں ہے ؟بعد میں جب اس دلال سے پوچھا جو مسٹر رے یا خان صاحب کو لایا تھا تو وہ بھی حیران و پریشان ہوگیا اور سیدھا خان صاحب کا تعاقب کرتا ہوا ان کی قیام گاہ تک پہنچ گیا۔ اس کی حیرت کی مزید انتہا نہ رہی جب اسے معلوم ہوا کہ یہ جید مولوی صاحب تو اس علمائے دیوبندکے وفد میں شامل ہیں جو علمائے بریلی کے ساتھ مناظرہ کرنے آیا ہے۔یہ بات اس نے علماء بریلی کو جاکر بتائی۔ بات پھیل گئی کہ دیوبندی ختنہ نہیں کراتے۔ صورت حال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے خان صاحب یا مسٹر رے پہلی ہی بس میں سوار ہوکر دہلی فرار ہوگئے۔ ان کے پیچھے ان کے ساتھ دیوبند سے آئے دیگر سیدھے سادھے مولویوں کا کیا حشر ہوا‘ دھر صاحب نے اس سے پردہ نہیں اٹھایا۔ مگر ان کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کے بعد چیف صاحب کا پہلا حکم تھا کہ ایسے آپریشنز کیلئے بھرتی کئے گئے اہلکاروں کا سب سے پہلے ختنہ کرایا جائے۔ دھرنے جوبھارتی انٹیلی جنس بیورو کے نائب سربراہ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے،یہ کتاب ایک ناول کے شکل میں لکھی ہے۔ مگر ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک حقیقی آپریشن کی روداد ہے، جس میں انہوں نے صرف افراداور جگہوں کے نام بدل دیے ہیں۔ دھر صاحب کا کئی برس قبل انتقال ہوا۔وہ آخری دم تک انٹیلی جنس ایجنسیوں کو جوابدہ بنانے کے حامی رہے۔ قصہ مختصر کہ یہ صرف بھارتی خفیہ ادارے کا کوئی ایسا سربستہ راز نہیں ہے جس پر سے دھر صاحب نے پردہ اٹھایا ہو۔ بلکہ دہشت گردی کے خلاف برسر پیکار مغربی ممالک کی متعدد ایجنسیاںنظریہ اسلام کے خلاف علانیہ جنگ ا ور مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی تگ ودو میں نہ صرف مصروف ہیں، بلکہ مسلمانوں کے اندر بھی چند عناصر کو اکسا کر اسلام کی شبیہ کو خراب کرکے غیر مسلموں اور مسلمانوں کے اندر لبرل عناصر کو اس سے متنفر کرکے اسلامو فوبیا کے ایجنڈا میں رنگ بھر نے کا کا م کررہے ہیں۔ اسی طرح دہلی کی ایک عدالت میں بھارت کی مرکزی تفتشی بیورو یعنی سینٹر ل بیورو آف انوسٹییگیشن(سی بی آئی) کی ایک رپورٹ موجود ہے، جس کو بنیاد بناکر ؎عدالت نے دو مسلم نوجوانوں ارشاد علی اور نواب معارف قمر کو 11 سال بعد بری کردیاتھا۔یہ دونوں افرادبھارت کے خفیہ ادارے اینٹلی جنس بیورو (آئی بی) اور دہلی کی اسپیشل پولیس کے مخبر تھے، جو بعد میں ان کے عتاب کا شکار ہوکر جیل میں چلے گئے۔ ان کے ہوشربا انکشافات سی بی آئی اور کورٹ کے ریکارڈ پر موجود ہیں۔ بہار کے مکین ارشاد علی اپنے ساتھی معارف قمر کے ساتھ کشمیر میں مخبری کا کام کرتا تھا اور چند افسران اسکو لائن آف کنٹرول پار کرکے لشکر طیبہ میں شامل ہونے کیلئے دباوٰ ڈال رہے تھے۔ جان کے خوف سے جب انہوں نے انکار کیا، تو بات چیت کرنے کیلئے انکودہلی بلا کردو ماہ تک قید میں رکھا گیا، بعد میں البدر سے وابستہ دہشت گرد قرار دیکر جیل میں ڈال دیا گیا۔ ارشاد علی کے بیان کے مطابق کسی مسلم علاقہ میں زاہدانہ وضع و قطع کا کوئی مولوی ٹائپ شخص روانہ کیا جاتا ہے، جو علوم اسلامی میں دسترس رکھتا ہے اور یہ حضرت یا تو کسی مسجد کے آس پاس مکان کرایہ پر لیتے ہیں یا مسجد میں ہی ڈیرہ جماتے ہیں۔اس کے متقی پن اور پرہیزگاری سے متاثر ہوکر محلہ یا گاوں کے افراد اسکے گرویدہ ہوجاتے ہیں۔یہ حضرت رقت آمیز بیانات میں مسلمانوں پر ہورہے ظلم و ستم کی داستانیں سناکر جذباتی اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو شناخت کرکے انکو جہاد کی ترغیب دیتے ہیں۔لوہا جب خوب گرم ہوجاتا ہے، تو ایک دن یہ حضرت معتقدین کے اس گروپ پر ظاہر کرتے ہیں، کہ وہ دراصل کسی تنظیم کے کمانڈر ہیں۔ جذبات میں مغلوب اور برین واش نوجوان اب کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ انکو ہتھیار چلانے کی معمولی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اب ایمو نیشن اور گاڑیا ں بھی آجاتی ہیں۔ یہ مولوی صاحب اس دوران مسلسل افسران کے رابطہ میں ہوتے ہیں۔ ٹارگٹ کا معائنہ بھی کیا جاتا ہے۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply