• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • گیلیلو گلیلی اور مولانا طارق جمیل کی معافی۔۔محسن علی خان

گیلیلو گلیلی اور مولانا طارق جمیل کی معافی۔۔محسن علی خان

ہم میں سے اکثر لوگوں نے ایک مشہور و معروف تصویر ضرور دیکھ رکھی ہو گی۔ جس میں ایک سفید رنگ کا گول مینار ہے جو کہ ایک طرف کو جھکا ہوا ہے۔ اسی جھکاؤ کی وجہ سے اس کو لیننگ ٹاور (جھکا ہوا ٹاور) کہا جاتا ہے۔ یہ ٹاور کیتھڈرل چرچ کا حصہ ہے۔ اس کو مکمل ہونے میں دو سو سال لگ گئے تھے۔ اس کی تعمیر بارھویں صدی (1173ء)میں شروع ہوئی اور مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی چودھویں صدی (1372ء)میں مکمل ہوئی۔ اس ٹاور پر چرچ کی گھنٹی بھی لگائی گئی تھی، اس لئے اس کو بیل ٹاور بھی کہا جاتا ہے۔ اس ٹاور کا جھکاؤ ساڑھے پانچ (5.5) ڈگری تک چلا گیا تھا، جو کہ مختلف تکنیک استعمال کرتے ہوۓ تقریباً چار ڈگری (3.9) تک واپس آگیا ہے۔

یہ ٹاور اٹلی کے مشہور شہر پیسا (Pisa, Italy) میں ہے۔ پیسا ایک عظیم سائنسدان گیلیلو گلیلی کی جاۓ پیدائش بھی ہے۔ گیلیلو ایک باغی قسم کاسائنسدان تھا۔ یہ بیک وقت ریاضی دان، عالم طبیعات، عالم فلکیات، فلاسفر، پروفیسر اور بہت سی جدید سائنسی کتابوں کا مصنف بھی تھا۔ گیلیلو نے ارسطو کی بھاری اور ہلکے اجسام کی تھیوری کو تجرباتی عمل کے بعد رد کیا۔ یہ ایک انتہائی مشکل کام تھا، آپ ایک ایسی مِتھ کو توڑ دیں جو کہ صدیوں سے یونانی فلسفہ کے طور پر چلی آرہی ہو اور جس کو پیش کرنے والا بھی ارسطو جیسا عظیم فلاسفر ہو۔ اسی طرح گیلیلو نے جمود کے قانون (Law of Inertia) کو بھی مضبوط سائنسی مشاہدات کی بناء پر یکسر غلط ثابت کر دیا۔

گیلیلو نے دوربین میں جدت لانے کے بعد اس کو اپنے فلکیاتی مشاہدات کے لئے استعمال کیا اور زمینی و آسمانی مشاہدات کے نئے دروازے کھول دئیے۔ گیلیلو اپنے ان کارناموں کی وجہ سے تو پہلے ہی مقبول عام ہو چکا تھا۔ لیکن جب گیلیلو نے اپنے مشاہدہ کا مرکز سورج، چاند، ستاروں، سیاروں، کہکشاؤں کو بنایا تو کلیسا نے اس سرگرمی کو روکنے کی کوشش کی۔ چرچ کے پادریوں نے اسے مذہب میں مداخلت سمجھنا شروع کر دیا۔ بات جب پوپ تک پہنچی تو گیلیلو کو جرح کے لئے بلا لیا گیا۔ گیلیلو کی جدید تھیوری کو قدیم تھیوری کے متصادم قرار دے دیا گیا۔ گیلیلو کو وارننگ دی گئی لیکن یہ اپنی دُھن کا پکا انسان پوپ اور پادریوں کے احکامات کو نظر انداز کر کے اپنی سائنسی تحقیق میں مشغول رہا۔

گیلیلو کو چار مرتبہ بطور مجرم پیش ہونا پڑا تھا، آخری بار اس کو 21 جون 1633ء کو بلایا گیا۔ جس میں اس کے سامنے دو آپشن رکھے گئے۔ پھانسی چڑھ جاؤ یا پھر معافی مانگ لو۔ اگلے دن 22 جون کو گیلیلو نے سانتا ماریہ چرچ میں گھٹنوں کے بل جھک کر معافی مانگ لی، انتظامیہ نے گیلیلو کی تمام ایجادات، تحقیقی مقالوں اور کتابوں پر پابندی عائد کر دی، گیلیلو کو مقدس مذہب میں بدعت کرنے پر ساری زندگی کے لئے اس کے گھر میں نظر بندی کی سزا سنائی اور باآواز بلند گیلیلو کا معافی نامہ پڑھ کے سنایا گیا۔
“مجھ پر مذہبی عقیدے کا سخت شبہ کیا گیا ہے، وہ یہ تھا کہ میں نے کائنات کے مرکز اور عدم استحکام کے مرکز میں سورج کا انعقاد کیا تھا اور یہ مانا تھا کہ زمین اسی کے مرکز نہیں ہے اور یہ حرکت کرتی ہے۔ آپ کے امتیازی عہدوں اور تمام وفادار عیسائیوں کے ذہنوں کو مجھ سے دور کرنے کے لئے یہ دلیل معقول طور پر میرے خلاف تصور کی گئی ہے، میں خلوص دل سے اس کو مکروہ اور بدعت سمجھتا ہوں، میں مذکورہ، اور عام طور پر اپنی ہر غلطی پر،ان فرقوں پر، جو ہولی کیتھولک چرچ کے متضاد ہوں، لعنت بھیجتا ہوں”۔ (بحوالہ گیلیلو اِن روم)

اب ہم آتے ہیں مولانا طارق جمیل کی طرف، مولانا صاحب، ایک داعی اور مبلغ ہیں۔ فرقہ بازی سے بالاتر ہو کر اپنی تقاریر میں اتحاد بین المسلمین پر زور دیتے ہیں۔ باقی سب مکتب فکر والے بھی مولانا کو اپنی مساجد میں بلاتے ہیں، مولانا وہاں بھی بنیادی اسلام اور سنت اعمال کی بات کرتے ہیں۔ آپس میں پیار و محبت اور ایک دوسرے کے دکھ درد کو بانٹتے ہوۓ، ساتھ مل کر چلنے کی تلقین کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا کے چاہنے والے نہ صرف پاکستان میں بلکہ  بیرون ملک بھی کثیر تعداد میں ہیں۔ دوسرے اسلامی ممالک میں بھی مولانا کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بڑے بڑے کرکٹر، فلمسٹار، موسیقار، سیاستدان، تاجروں سے لے کر عام طبقہ کا ہر آدمی اپنے تیئں مولانا سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ ایک پبلک فگر ہونے کی وجہ سے مولانا سے پاکستان کے سیاسی رہنما بھی ملتے ہیں۔ بیگم کلثوم نواز صاحبہ کی نماز جنازہ بھی مولانا نے پڑھائی تھی۔

کرونا وائرس کی صورت میں آئی وباء کے نتیجے میں ملک بھر میں لاک ڈاؤن ہوا، تو حکومت نے ضرورت مندوں تک راشن پہنچانے کے سلسلے میں“ احساس پروگرام ” کے تحت ایک پروگرام لانچ کیا۔ فنڈ اکٹھا کرنے کے لئے وزیراعظم آفس میں ایک“ احساس ٹیلی تھون“ کا اہتمام کیا گیا، جہاں ملک بھر سے افراد نے ڈونیشن دی۔ وزیراعظم نے صحافیوں کے ساتھ مولانا صاحب کو بھی دعوت دی تھی۔ مولانا نے اختتام میں دُعا کروائی، جس کا لب لباب یہ تھا کہ ہمیں اجتماعی طور پر اپنے دینی و دنیاوی معاملات پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ہم ظالم ہو چکے ہیں، ہماری عدالتیں اور قانون ظالم بن چکا ہے۔ اس وائرس کا مقابلہ کرنے کی ہم میں سکت نہیں۔ اے زمین آسمان کے مالک آپ ہی ہم پر رحم فرمائیں۔

میڈیا کا ذکر کرتے ہوۓ مولانا نے کہہ دیا کہ میڈیا پر جھوٹ زیادہ ہوتا ہے۔ اس بات کو لے کر میڈیا کے ایک بڑے حصے  نے مولانا پر چڑھائی کر دی۔ خصوصاً حامد میر صاحب نے اور کامران خان صاحب جیسے صحافت کے بڑے ناموں نے مولانا کے اس بیان پر پورا پروگرام کر ڈالا۔ مولانا کے  پاس دو آپشن تھے یا تو میڈیا سے جنگ شروع کر دیتے اور کرونا وائرس سے توجہ ہٹا کر اپنی طرف مبذول کروا لیتے یا پھر اس ملک کے گریٹر انٹرسٹ میں گیلیلو کی طرع معافی مانگ کر سائیڈ پر ہو جاتے۔ مولانا نے معافی والے آپشن کو اہمیت دی اور”ہم نیوز“ پر محمد مالک صاحب کے ٹاک شو میں آکر معافی بھی مانگ لی اور مشہور و معروف صحافیوں کو فون کال کر کے بھی معذرت کی۔ آپ اس سلسلے میں حامد میر صاحب کا ایک ٹویٹ ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔
” ‏مولانا طارق جمیل نے کل شام وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی ٹیلی تھون کے دوران میڈیا پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا تھا جس پر ان سے ثبوت مانگے گئے تھے 24 گھنٹے کے بعد آج شام انہوں نے مجھ سمیت تمام میڈیا سے غیر مشروط معافی مانگ لی”۔

یہ بھی ایک المیہ ہے، ایک شخص ہمیں اصلاح کرنے کی ترغیب دے رہا ہے، ہم لٹھ اٹھا کر اس کے پیچھے پر گئے اور جب تک اس سے معافی نہیں منگوائی تب تک ہماری روح کو تسکین نہیں ملی۔ آپ اس وقت مشہور صحافی محترم عامر ہاشم خاکوانی صاحب کے فیس بک پر ایک سروے جو انہوں نے کروایا ہے اس کا نتیجہ دیکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے میڈیا کی بابت تین آپشن رکھی تھیں۔
۱- میڈیا جھوٹا ہے ۲- میڈیا سچا ہے ۳- پتہ نہیں۔
رزلٹ بتانے کی مجھے ضرورت نہیں۔ کیونکہ عامر صاحب نے ہو سکتا ہے غیر ارادی طور پر جس آپشن کو پہلے رکھا ہے، لوگ بھی شعوری و لاشعوری طور پر اسی کو ووٹ کر رہے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرا مقصد کوئی محاذ کھڑا کرنا نہیں ہے بلکہ صرف یہ بتانا مقصود تھا کہ بیل ٹاور کے جھکے ہونے کی وجہ سے نہ تو چرچ کے معاملات رکے، نہ گیلیلو کی معافی سے زمین کی حرکت رُکی، نہ ہی مولانا کی معافی سے میڈیا کا معاملہ رُک جانا تھا۔ گیلیلو نے جو کچھ کہا اس کو آج کے تمام چرچ، پوپ اور دنیا سچ مانتی ہے۔ ہو سکتا ہے آنے والے وقتوں میں مولانا کی معافی بھی حقیقت آشکار کر دے۔ فی الحال غازی ارطغرل کا چرچا ہے ہر سُو۔ آج سے پی ٹی وی پر اُردو ڈبنگ کے ساتھ رات آٹھ بجے پیش ہو گا اس نعرہ کے ساتھ” آگیا وہ شاہکار جس کا تھا انتظار“۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply