سقراط کی کہانی/توقیر بھملہ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سقراط بازار کے ایک کونے میں ایک بڑے پتھر پر کھڑا ہو کر زندگی اور فلسفے کے اہم موضوعات پر عوامی تقریر کرتا تھا، بازار میں سے گزرتے ہوئے لوگ ہوں یا دکاندار وہ چند منٹ سقراط کا فلسفہ سنتے تھے اور پھر کان جھاڑ کر اپنے اپنے کام کاج کو چلے جاتے تھے، وہاں کوئی بھی ایسا نہیں ہوتا تھا جو اس کے فلسفے میں دلچسپی دکھائے اور سوال و جواب کا آغاز کرے۔

جب سقراط نے دیکھا کہ لوگ اس کے فلسفے پر زیادہ توجہ نہیں دے رہے ہیں تو سقراط نے کچھ مختلف کرنے کا فیصلہ کیا، اس نے سامعین کے سامنے اعلان کیا کہ وہ ایک بہت ہی دلچسپ کہانی سنانے والا ہے۔ جن لوگوں نے اس کا اعلان سنا وہ بے تابی سے اس کی کہانی سننے کے لیے اس کے اردگرد جمع ہونا شروع ہوگئے۔

اس نے اپنی کہانی اس طرح شروع کی: ایک سوداگر تھا، جس کے پاس فروخت کرنے کے لیے بہت سا سامان تھا، اس نے دوسرے بڑے شہر میں جا کر سارا سامان بیچنے کا فیصلہ کیا، اس نے اپنا سامان باندھا، کندھے پر اٹھایا اور صبح ہونے سے پہلے ہی اپنی منزل کی جانب نکل گیا۔

بڑے شہر کا ایک ہی داخلی راستہ تھا جو دشوار گزار پہاڑی گزرگاہوں سے ہوکر جاتا تھا۔

اس نے رستہ منتخب کیا اور ایک بڑے پہاڑ پر چڑھنا شروع کردیا، جب وہ چل رہا تھا تو اسے رستے میں ایک اور آدمی ملا جس کے ساتھ ایک گدھا بھی تھا، وہ آدمی گدھے کو لے کر اسی شہر کی طرف جا رہا تھا۔

سوداگر اور دوسرا شخص ایک ساتھ سفر کرتے ہوئے دوست بن گئے۔ چلتے چلتے سوداگر نے دوسرے آدمی سے کہا کہ اگر تم اپنا گدھا کرایہ پر دے دو تو میں اس پر اپنا سامان لادھ لیتا ہوں، اور تمھیں معقول کرایہ ادا کر دیتا ہوں، شہر پہنچ کر میں ایک گدھا خرید لوں گا اور یوں تمھیں تمھارا گدھا کرائے کی رقم سمیت مل جائے گا۔ وہ شخص تھوڑی سی پس و پیش کے بعد ایک خاص رقم کے عوض گدھا کرایہ پر دینے کے لیے راضی ہوگیا۔

اس مرحلے پر سقراط کو معلوم ہوا کہ کہانی سننے کے لیے سامعین کی ایک بڑی تعداد اس کے گرد جمع ہوگئی ہے اور بہت سے لوگ اس کی کہانی سنتے ہوئے اپنے فرائض بھول گئے ہیں، جو لوگ بازار میں خرید و فروخت کے لیے چند منٹوں میں آنے اور جانے کے عادی تھے وہ بھی اپنے کام کاج بھول کر کہانی سننےکھڑے ہو گئے تھے اور بھول گئے تھے کہ کہاں سے آئے ہیں اور کہاں پر انہیں جانا تھا۔ آگے کی کہانی سنو۔

سقراط نے اپنی کہانی جاری رکھی، سوداگر نے اپنا سامان گدھے پر رکھ لیا تھا اور ابھی صبح کا سورج طلوع نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے اونچے پہاڑ پر چڑھنا جاری رکھا، رات کا کچھ پہر ہو یا علی الصبح پیدل چلنا آسان ہوتا ہے، تو اسی آسانی میں انہوں نے کافی فاصلہ طے کر لیا لیکن جوں جوں دن چڑھتا گیا، ان کے لیے پہاڑ پر چڑھنا مشکل تر ہوتا گیا۔ وہ پسینے سے شرابور ہو رہے تھے اور بہت زیادہ تھک چکے تھے۔ جب سورج ان کے سروں کے اوپر آکر چمکنا شروع ہوا تو انہوں نے تھوڑی دیر سستانے کا فیصلہ کیا۔

سقراط کے ارد گرد زیادہ لوگ جمع ہو چکے تھے، اور وہ سب اردگرد سے بے خبر بے تابی سے اس کی کہانی سن رہے تھے۔

سقراط نے اپنی کہانی کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا دوپہر کا وقت تھا اور وہ تھک چکے تھے، اس لیے انہوں نے کچھ دیر آرام کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن اس چٹیل پہاڑ پر کوئی درخت یا سایہ دار چیز نہیں تھی جس کے نیچے بیٹھ کر وہ آرام کر سکیں، وہاں صرف ان کے گدھے کا سایہ تھا جو سامان لے کر اوپر جا رہا تھا۔

اس گدھے کے سائے میں اگر کوئی سستانا چاہتا تو صرف ایک آدمی کی گنجائش تھی، دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور گدھے کے مالک نے سوداگر سے کہا کہ گدھے کا سایہ اس کا ہے کیونکہ وہ گدھے کا مالک ہے، لیکن سوداگر نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے شہر پہنچنے تک گدھے کو کرائے پر لے رکھا ہے لہٰذا اس گدھے کے سایے پر اس کا حق ہوگا۔

گدھے کے مالک نے کہا کہ اس نے صرف گدھا کرائے پر دیا ہے سایہ نہیں، لیکن سوداگر نے کہا کہ جب اس نے گدھا کرائے پر دے دیا تو اس میں گدھے کا سایہ بھی شامل تھا۔ گدھے کے سائے پر دونوں آدمیوں میں شدید جھگڑا ہوگیا، دونوں نے خوب بحث کی کہ یہ قانونی اور اخلاقی طور پر ان کا ہے۔

اس مقام پر سقراط کے اردگرد ایک بہت بڑا ہجوم تھا، پھر وہ جہاں کھڑا تھا وہاں سے اُتر کر بازار کی دوسری جانب چلا گیا، لوگ اس کے پیچھے ہو لیے اور اسے کہانی جاری رکھنے کو کہا، اس نے ان کی طرف توجہ نہ کرنے کا بہانہ کیا اور چلتا رہا، لوگ اس کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے، اور اس سے کہانی کو مزید مکمل کرنے کے لیے شور کرنے لگے تھے، جب اس ہجوم نے سقراط پر زور دیا کہ اسے ابھی ہر صورت کہانی کا اختتام سنانا چاہیے، تو سقراط نے چلنا چھوڑ کر ان کی طرف متوجہ ہوا اور کہا:

Advertisements
julia rana solicitors london

میں تم لوگوں سے زندگی اور فلسفہ جیسی اہم اور سنجیدہ چیزوں کے بارے میں بات کر رہا تھا، لیکن تم لوگوں نے کوئی توجہ نہیں دی، لیکن جب میں نے گدھے اور اس کے سائے کے بارے میں اساطیری کہانی سنانا شروع کی تو تم سب سننے کے لیے اس قدر بے تاب ہو گئے کہ تم سب نے اپنی ضرورت تجارت اور اپنے قیمتی وقت کی پرواہ نہ کی۔ یقیناً زندگی جیسی اہم ترین اور غیر معمولی چیز کو چھوڑ کر تم لوگ احمقانہ اور معمولی چیزوں کے بارے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہو تو یہی بات تمھاری خرابی کے لیے کافی ہے۔

Facebook Comments

توقیر بھملہ
"جب خلقت کے پاس آؤ تو زبان کی نگہداشت کرو"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply