میری زندگی کے سب سے بڑے منٹور میرے داد رحمت منڈیا والا کہا کرتے تھے کہ ”بڑا انسان،بڑے لوگوں کے درمیان رہنے سے ہوتا ہے، بڑی دیواروں میں رہنے سے نہیں ہوتا ہے۔“عام لفظوں میں وہ یوں بیان کرتے تھے کہ انسان کا سب سے بہترین سرمایہ اور اثاثہ انسان ہوتے ہیں۔میں نے اس نصیحت پر عمل کرنے کی کسی حد تک کوشش کی ہے۔اپنی پرسنل اور پروفیشنل، ٹریننگ اینڈڈویلپمنٹ کی زندگی میں اگر میں نے کچھ کمایا ہے تو وہ مختلف شعبوں کے ماہر لوگوں سے تعلق ہے۔میں اب اس بات کا شدت سے قائل ہوں کہ آپ اپنی زندگی میں ہی اُن لوگوں کا شکریہ ادا کریں،جنہوں نے زندگی کے کسی موڑ پر آپ کی حوصلہ افزائی، رہنمائی اور معاونت کی ہے۔ اُن کی زندگی میں،اُن کے اس تعاون کا اُنہیں احساس دلائیں، بعد میں زبردست خراج تحسین، زبردستی کا خراجِ تحسین ہوتا ہے۔
علی عباس سے میری پہلی ملاقات اکتوبر 2017، میں قاسم علی شاہ فانڈویشن میں ہوئی تھی۔اُس کے چند سالوں کے بعد اُن سے دوبارہ رابطہ ہوا اوریوں یہ تعلق قائم ہوگیا۔یہاں میں اس بات کا اقرار کرنا چاہتا ہوں کہ جناب علی عباس نے ہمیشہ میرے کام کو سہرہا، مجھے آگے بڑھنے کی ہمت دی اور نئے اور منفرد آئیڈیاز بھی دئیے۔ اُنہوں نے بے شمار ایسے لوگوں سے نہ صرف متعارف کروایا،بلکہ اکثر اُن سے رابطہ قائم کرنے میں معاونت بھی کی ہے۔جہاں بہت سارے لوگ اپنے کونٹکٹ اور تعلقات خود تک محدود کرکے رکھتے ہیں، علی عباس اُنہیں دوسروں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔وہ نئے اور منفرد لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں،مجھے یاد ہے کہ 2020 میں اُنہوں نے مجھے سے خود فیس بک پر رابط کیا اور واٹس ایپ پر میسیج بھیجا تھا۔علی عباس سے میرے تعلق کی دوسری اہم وجہ قاسم علی شاہ صاحب اور اُن کی فاونڈیشن ہے۔ علی عباس ایک زندہ دل انسان ہے۔جو دوسروں کے فن کی قدر کی خوبی سے آشنا ہیں۔ وہ اپنی ذات میں مگن رہنے کی بجائے، دوسروں ًْْٓکو جاننے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ مجھے علی عباس کا مسلسل اور منفرد کام کرنے کا جذبہ بہت متاثر کرتا ہے۔یہ الفاظ شاید اُن کی زندگی، فن،کام اور شخصیت کا احاط تو نہ کرسکیں،لیکن اُن کی سوچ کو سہرانے کی ایک عاجزانہ کوشش ہے۔
علی عباس کی پیدائش 9 نومبر 1979 کو دبئی میں محمد ایوب اور شکیلہ بیگم کے ہاں ہوئی۔تین بھائیوں میں اُن کا دوسر نمبر ہے۔علی عباس نے ابتدائی تعلیم دبئی سے حاصل کی جہاں اُن کے والدصاحب جاب کرتے تھے۔اُن کا خاندان 1986کو واپس پاکستان،لاہور میں آگیا۔علی عباس روایتی تعلیم کے برعکس زندگی بھر علم کے حصول کے مسافر رہیں، اُس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کا تعلیمی سفر ابھی جاری ہے۔ علی عباس 2008کو رشتہ ازادوج میں منسلک ہوئے۔ خُداوند تعالیٰ نے اُنہیں د و بیٹاں عطا کیں ہیں۔علی عباس،مصنف، ٹرینر، مسافر، اور انسان دوست شخصیت ہیں۔ اُنہوں نے یورپ اور امریکہ سمیت 15 سے زیادہ ممالک کا سفر کیا ہے۔ جس کا مقصد مختلف ثقافتوں کو جاننا، فطرت کے تنوع اور مختلف ماحول میں رہنے والے لوگوں کا تجربہ کرنا تھا۔ علی عباس مختلف میڈیا تنظیموں اور تعلیمی اداروں کے ساتھ بطور مشیر اور معاون کام کرتے ہیں۔ اُن کی پیشہ ورانہ مہارتوں میں ایک مہارت، کسی بھی تنظیم میں کام کرنے والے مختلف سماجی و ثقافتی پس منظر کے لوگوں کے درمیان نظم و نسق، ہم آہنگی اور امن کو قائم کرنا ہے تاکہ وہ سب تنظیم کی بہتری اور ترقی میں اپنی صلاحیتوں کا بہتر استعمال کرسکیں۔ علی عباس نے ”تصوف اور آج کے صوفی“ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے اور اسے ملک کے معروف پبلشرز ”سنگ میل“ نے شائع کیا ہے۔اس کتاب کا مقصد ثقافتی، مذہبی اور نسلی تنوع کو قبول کرنے کے لیے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔ علی عباس کہتے ہیں کہ بین المذاہب ہم آہنگی میری پوری زندگی میں ایک اہم تحریک رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تنوع کو فروغ دینا دُنیا بھر کے لوگوں اور ممالک کی خوشحالی کو یقینی بنانے کا سب سے اہم طریقہ ہے۔ میں اس ضمن میں پاکستان میں مختلف سیاحتی پروگراموں کا اہتمام اور سہولت فراہم کرتا ہوں۔ میں نے سیاحت کے لیے پاکستان کے تقریباً 100 شہروں کا دورہ کیا ہے۔ مختلف میڈیا آؤٹ لیٹس اور دیگر ادارے اپنے ملازمین کے تربیتی سیشن کے لیے مجھے باقاعدگی سے مدعو کرتے ہیں۔ ثقافتی اور مذہبی ہم آہنگی پر لیکچر دینے کے لیے مجھے پاکستان کی معروف یونیورسٹیوں کی طرف سے اکثربطور مہمان مقرر مدعو کیا جاتا رہا ہے۔ مجھے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے مختلف فلم اسکریننگ سیشن میں بھی مدعو کیا گیا ہے۔ میرا یقین ہے کہ فن جس بھی شکل میں ہو، تھیٹر، ڈرامہ، پینٹنگ، فلمیں اور دیگر لوگوں کو متحد کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ آرٹ کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور اس کی ایک آفاقی زبان ہوتی ہے، اس لیے میں آرٹ کی مختلف شکلوں کو بھی استعمال کرتے ہوئے اپنے خیالات کااظہار کرتا ہوں۔ تنازعات کاخاتمہ، ان بنیادی شعبوں میں سے ایک ہے جہاں میں اپنے سامعین کے ساتھ اپنی مہارت کا اشتراک کرنا پسند کرتا ہوں۔علی عباس مختلف سوچ اور عملی اپروچ کے حامل انسان ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انسان اور معاشرے باہمی عزت، اجتماعی بہتری اور جدید دور کی عملی تعلیم اور اسکلز کے بغیر ترقی نہیں کر سکتے ہیں۔قوموں اورمعاشروں کی فلاح کیلئے فرد کی اصلاح نہایت اہم ہے۔
نوید تاج غوری نے کہا کہ ”ایک دوست وہ ہوتا ہے جس کو آپ فون کرتے ہیں اور وہ آپ سے دو گھنٹے بات کرتا ہے، اور جب آپ فون بند کرتے ہیں تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ نے جس بات یا کام کے لئے فون کیا تھا، اس کے بارے میں بات ہی نہیں کی۔ ایک دوست وہ ہوتا ہے جو آپ کو اپنے کسی ایونٹ میں بلاتا ہے، اور آپ کو ایونٹ اٹینڈ کرنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ ایونٹ آپ کے کام کا ہی نہیں تھا یا آپ نے ایونٹ پر غور ہی نہیں کیا۔ ایک دوست وہ ہوتا ہے جس کے گھر کے فریج، پرس میں پیسوں اور گاڑی کی سیٹ تک آپ کی رسائی ہمیشہ رہتی ہے۔ لیکن ایک سچا دوست وہ ہوتا ہے جو آپ کے لیے ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ وہ آپ کے اچھے اور برُے وقت میں آپ کے ساتھ رہتا ہے۔ وہ آپ کا رازدار ہوتا ہے اور آپ اس سے کچھ بھی چھپا نہیں سکتے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جس میں بے شمار خوبیاں ہیں۔ وہ ایک ٹریولر، رائٹر، اور میڈیا پرسن ہے۔ وہ دُنیا بھر میں مفت سفر کرتا ہے اور اس نے اپنے سفر کے بارے میں بہت سی کہانیاں اور مضامین لکھے ہیں۔ وہ ایک باصلاحیت میڈیا پرسن ہے جو اپنے الفاظ کو دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اور وہ ایک ایسا انسان ہے جس نے اپنی اور دوستوں کی زندگی میں خوشی، تسکین اور مزے کو زندگی کا فلسفہ بنا ڈالا ہے۔ وہ ایک کمال دوست ہے۔ ویسے دوست بہت سے ہیں، رہے ہیں، اور بھی بن جائیں گے، لیکن یار آپ کی زندگی میں بہت کم ہوتے ہیں اور علی عباس میرا یار ہے بلکہ یاروں کا یار ہے۔“
ظفر سید نے علی عباس کے بارے میں کہا کہ ”علی عباس نے اپنے بچپن سے اپنی نوجوانی اور پھر جوانی اور اب تک زندگی کو بڑے قریب سے دیکھا ہے۔اس لئے وہ بہت زیادہ عملی اپروچ کے مالک انسان ہیں۔ انہوں نے پچھلے کوئی 20 سال کی محنت سے یہ مقام حاصل کیا ہے۔ انہوں نے اپنے والدکے ساتھ ایک فیکٹری میں کام شروع کیا اور چھوٹی عمر سے ہی پیسہ کمانا شروع کیا اور وہ پردیس بھی کاٹنے والی بات تھی اور اس میں نوکری بھی چھوٹی عمر سے کی۔ جس عمر میں لوگوں کے ہاتھ میں بلا ہوتا ہے یا پاؤں میں فٹ بال ہوتا ہے۔ اس وقت علی عباس کے ہاتھ میں قلم تھا۔ وہاں سے ہی سیکھتے سیکھتے آج علی عباس جس مقام پہ پہنچ گئے ہیں،آج اُن کا جو رُخ ہے وہ سامنے نظر آرہے۔وہ میڈیاا سکرین پر ٹریولر، ٹرینر، فلاسفر اور استاد ہیں۔ یہ وہ علی عباس نہیں ہیں جو علی عباس اندر سے ہیں۔اس کے پیچھے علی عباس کی ریاضیت ہے۔اُنہوں نے زندگی کے ہر پہلو کو اوائل عمری سے سیکھناشروع کر دیا تھا اور زندگی کے تلخ تجربات کی وجہ سے اُنہیں نے حقیقت پسندانہ رویہ اپنا لیا ہے۔ علی عباس کی زندگی میں لوگ ان کی کامیابیوں کو دیکھتے ہیں مگران کی ناکامی کو نہیں دیکھتے ہیں۔علی عباس کی زندگی کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے۔کہ اُن کی زندگی کا مقصد لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنا ہے۔اور یہ ہی اُن کا بزنس بن گیا ہے۔“
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں