مجھے یاد ہے۔۔۔۔حامد یزدانی۔۔۔۔قسط نمبر 18

(والد گرامی جناب یزدانی جالندھری کی مہکتی یادوں کی منظرمنظرجھلکیاں)

(18 قسط)

سال انیس سو نوّے میںیہ مارچ کا مہینہ ہے۔ موسمِ بہار کی آمدآمد ہے۔میں گزشتہ ماہ ہی تو ریڈیو ڈوئچے ویلے ، دی وائس آف جرمنی کی اردو نشریات سے منسلک ہو کرلاہور سے کولون پہنچا ہوں۔مقامی موسم سے قدرے بہتر آشنائی بھی ہورہی ہے اور قیام کے لیے مناسب جگہ کی تلاش بھی جاری ہے۔ عارضی طور پر اپنے لڑکپن کے دوست اور ہم کار امجد علی کے ہاں ڈیرا جما رکھا ہے۔ امجد مہمان نواز بھی ہے اور ہنر مند بھی۔ ادب اور فنونِ لطیفہ میں اس کی دل چسپی بہت گہری ہے اور یہ میں لاہور یعنی پاکستان ہی سے جانتا تھا مگر کھانا تیار کرنے میں اُس کی مہارت کا انکشاف مجھ پر جرمنی پہنچ کر ہوا۔وہ تقریباً ہر طرح کا کھانا بنا لیتا ہے۔ روٹی البتہ ہم کلاڈوِش پلاٹس سے کچھ آگے واقع ایک تُرک ریستوران سے خرید لیتے ہیں۔ نان نُما اس بریڈ کو تُرک تو اپنی زبان میں ’’پِیڈے‘‘ کہتے ہیں جبکہ جرمنوں نے اِسے ’’فلاڈن بروٹ‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ کھانا تیار کرنے میں اپنا حصہ ڈالنے کی غرض سے میں نے گھر پر روٹی بنانے کا آغاز کیا ہے۔ جیسی تیسی بن ہی جاتی ہے۔یہ سب اہتمام ڈِنر کے لیے ہوتا ہے ورنہ ناشتہ اور دوپہر کا کھانا دفتر کے کیفے ٹیریا میں ہم اردو شعبہ کے سبھی ارکان مل کر کیا کرتے ہیں۔ یہی یہاں کا معمول ہے۔ اس موقع پر ہندی اور بنگالی نشریات سے بھی دوست اکثر شریکِ طعام ہوجاتے ہیں۔اور خوب محفل جمتی ہے۔

٭٭٭٭٭

ویسے تو میں جرمنی دوسری بار آیا ہوں۔ پہلی بار گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے اور اب تعلیم  اور ملازمت کی غرض سے۔ کولون شہر میرے لیے خاص اجنبی بھی نہیں۔  امجد ہے۔ ریڈیو کی اردو سروس سے منسلک ملن سار ہم کار ہیں۔ تقریباً ہر شام ہی کہیں نہ کہیں ڈنر پر مدعو ہوتے ہیں۔ ویک اینڈ پر کسی جھیل، کسی خوش نُما پارک میں پک نک کا اہتمام ہوتا ہے۔ مختلف ممالک سے ادبی، سماجی، صحافتی اور سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں رہتی ہیں۔ پاکستان کے سفارتی عملہ سے بھی ربط ضبط قائم ہے۔ رات گئے تک گپ شپ، ٹی وی، فلم تھیٹرز، ڈاؤن ٹاون کی سیر، تُرک ریستوران سے ’’اصلی‘‘ ڈونر کباب اور ’’ایک نمبر‘‘ اطالوی پیزا کی دعوتیں بھی معمول ہیں مگر یہ جِی ہے کہ اس بار یہاں لگ ہی نہیں رہا۔ لاہور، اہلِ خانہ اور دوست احباب شدت سے یاد آنے لگے ہیں۔

٭٭٭٭٭

میری اداسی کو دیکھتے ہوئے امجد نے کولون میں حلقہ اربابِ ذوق قائم کرنے کا مشورہ دیا ہے جسے فوری طور پر قبول کرلیا گیا ہے۔ پہلا اجلاس امجد کے ہاں ہی ہونا طے پایا ہے جس میں میں غزل پیش کروں گا اور اشرف انصاری صاحب اپنا مضمون پڑھیں گے۔ اظہارِ خیال کرنے والوں میں جاہد الحق، امجد علی اور طاہرہ یزدانی شامل ہوں گی۔

٭٭٭٭٭

حلقہ کا پہلا تنقیدی اجلاس اچھا ہی رہا مگر اب سوال اس کے تسلسل کا ہے۔ آج فرینکفرٹ سے والدصاحب کے پرانے شاعر، ادیب اور صحافی دوست قمر اجنالوی صاحب کا فون آیا ہے۔ وہ پاکستان سے مستقلاً جرمنی منتقل ہوگئے ہیں۔ ان کے بیٹے یہیں رہتے ہیں۔قمراجنالوی صاحب مجھ سے ملنے کولون تشریف لائے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کے ایک برخوردار بھی ہیں اور ان کے ایک دوست لئیق احمد منیر صاحب بھی جو بعد ازاں میرے اچھے دوست بن گئے۔ قمر صاحب حلقہ کا ذکر سُن کر حلقہ ارباب ذوق جرمنی کے قیام کا مشورہ دیتے ہیں۔ مشورہ پر فوری عمل ہوتا ہے اور حلقہ قائم ہوجاتا ہے۔ انھوں نے لاہور حلقہ میں انتظامی امور کے تجربہ کے باعث مجھے ہی پہلا سیکرٹری نام زد کردیا ہے۔ مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں۔

٭٭٭٭٭

مجھے یاد آنے لگا ہے کہ حلقہ کے انتخابات میں جائنٹ سیکرٹری کے عہدہ کے لیے جب میں کھڑا ہوا تو انتخاب کے روز والدصاحب بھی پاک ٹی ہاوس تشریف لے آئے تھے۔مجھے یک گُونا حیرت ہوئی۔کیوں کہ ایک تو والدصاحب حلقہ ارباب ذوق کے رُکن نہ تھے اور دوسرے یہ کہ وہ پاک ٹی ہاؤس بھی کم کم آیا کرتے تھے۔ آخری بار میں نے انھیں ٹی ہاؤس میں تب دیکھا تھا جب ’’لاہور کا جو ذکر کیا‘‘ والے گوپال متل وہاں آئے ہوئے تھے اور ہاں ایک بار تب جب ڈاکٹر وزیرآغا صاحب نے انھیں ٹی ہاؤس ملاقات کی دعوت دی تھی۔حلقہ کے انتخابات کے روز اُن کا یوں وہاں آنا مجھے ہی نہیں دیگر احباب کو بھی حیراں کیے ہوئے تھا۔ میں نے انھیں سلام کیا تھا اورپھراشفاق احمد، بانو قدسیہ، ڈاکٹرآغا سہیل، انیس ناگی صاحب اور جیلانی کامران کی جانب لپکا تھاجو ووٹ دینے ابھی ابھی ٹی ہاوس میں داخل ہوئے تھے۔ انتظار حسین، مظفر علی سیّد،کشور ناہید، یونس جاوید اور خان فضل الرحمٰن خان اپنا اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرکے سیڑھیاں اُترتے دکھائی دے رہے تھے۔ اتنے میں قتیل شفائی صاحب والد صاحب کی طرف بڑھے اور مسکراتے ہوئے گویا ہوئے:

’’ اچھا تو برخوردار حامد نے اپنی کنویسنگ کے لیے آپ کو بھی یہاں آنے پر مجبور کردیا۔‘‘

’’جی، نہیں۔ میں تو حلقہ کا رکن ہی نہیں۔ میرا کہنا ، نہ کہنا کیا اہمیت رکھتا ہے یہاں۔ دوسرے یہ قتیل صاحب کہ آپ میرا مزاج اور انتخابی مہمات میں میری دل چسپی کے بارے میں بھی خوب جانتے ہیں۔ پاکستان رائٹرز گِلڈ کے الیکشن کی مہم اور نتائج کیا یاد نہیں آپ کو؟ کس شان دار طریقے سے ہارا تھا ہمارا پینل۔‘‘ والدصاحب نے ہنستے ہوئے جواب دیا تھا۔

’’وہ سب مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ اسی لیے تو حیران ہوں۔‘‘ قتیل صاحب بولے

’’بھئی، میں تو آپ سب دوستوں سے ملنے آیا ہوں۔ سوچا، آج تو سبھی یہاں جمع ہوں گے۔ کیوں نہ حملہ کیا جائے۔‘‘ والد صاحب خاصے شگفتہ مُوڈ میں تھے۔

اِور پھر قتیل صاحب نے والدصاحب کا ہاتھ تھاما اور انھیں ٹی ہاوس کے کونے میں سجے آخری میز پر لے گئے جہاں اسرار زیدی صاحب اپنے احباب میں گھرِے بیٹھے تھے۔ کچھ دیر بعد اس میز سے قہقہوں کی آوازیں بلند تر ہونے لگی تھیں۔

حلقہ ارباب ذوق جرمنی کے قیام کی خبرنے یہ یادیں تازہ کردی تھیں۔

٭٭٭٭٭

طے یہ ہورہا ہے کہ کس طرح والدصاحب کو لاہور سے کولون بلایا جائے تاکہ یہاں رہ کر وہ اپنی یادداشتیں بھی تحریر کریں اور اپنے نامکمل تخلیقی منصوبوں کو بھی تکمیل آشنا کریں۔ پاکستان میں تو انھیں وقت ملنے سے رہا۔ امجد کے ساتھ مل کر ان کی دن بھر کی مصروفیات اور ان کے آرام کے اوقات اور چائے کے وقفوں کو ترتیب دیا جارہا ہے۔ طاہرہ کو بھی چند ماہ میں جرمنی پہنچنا ہے۔ سوچا ہے کہ والدصاحب اسی کے ساتھ یہاں آجائیں۔ سفر میں بھی آسانی رہے گی۔

مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور ہے۔

٭٭٭٭٭

۱۹۹۰ءمیں موسمِ بہار کا یہ دن معمول کے مطابق گزرا ہے۔صبح ساڑھے آٹھ بجے دفتر پہنچا۔شام کی نشریات کے لیے رپورٹ تیا ر کی۔لنچ کیا۔ براہِ راست نشریات میں رپورٹ پیش کی۔ویک اینڈ کے لیے ہفتہ وار فیچر ریکارڈ کروایا اور اب شام ڈھلے امجد کے اپارٹمنٹ میں بیٹھا ہوں۔ کھانا کھایا ہے، چائے پی ہے اور امجد اب  صوفے پر میرے قریب بیٹھ گیا ہے اور بتا رہا ہے کہ والد صاحب اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے ہیں۔ ایک طویل خاموشی آنسووٗں میں بھیگتی چلی جاتی ہے۔ دھیرے دھیرے ہچکیاں سی اشعار میں ڈھلنے لگتی ہیں۔ ایک خاموش سا شور، کوئی صدا، کوئی لرزش، جانے کیا تھا۔پتوں کا رنگ بدلنے لگا تھا۔بہار میں خزاں پھوٹ رہی ہے:

زرد پتوں کی وہ  بارش ہے کہ تھمتی ہی نہیں

روح تک ایک وہی شورِ خزاں ہے کہ جو تھا

اب زمیں پاؤں کے نیچے نہیں تکتی، حامدؔ

وہ  توازن مِرے قدموں میں کہاں ہے کہ جو تھا

٭٭٭٭٭

 یک دم جانے کن موسموں سے آتی امی جان کی آواز سنائی دینے لگتی ہے: ’’ اچھا، اچھا۔۔۔اب تم میری بات سنو، تم  دس تک گنتی گننا شروع کرو۔ جب دس پر پہنچوگے تو تمہارے پاپا آجائیں گے ۔یہ کیسا رہے گا؟‘‘امی جان روٹی پلٹتی ہیں اور کن اکھیوں سے بیرونی دروازے کی جانب دیکھتے ہوئے کہتی ہیں۔

’’ لیکن آپ کو کیسے معلوم؟‘‘

’’ بس معلوم ہے۔۔۔اب تم لوگ گنتی شروع کرو گے یا پھر۔۔۔۔‘‘

ایک،دو، تین، چار، پانچ۔۔۔‘‘ میں امی جان کی دھمکی مکمل ہونے سے پہلے ہی دروازے کی طرف نظریں جمائے بآوازِ بلند گنتی شروع کردیتاہوں۔۔۔’’چھ، سات، آٹھ، نو۔۔۔اور۔۔۔دس۔۔۔

اب کے دروازے کے پیچھے سے بس یادیں ہی نمودار ہوتی ہیں اور میں اداس ہوجاتا ہوں۔

٭٭٭٭٭

میری اس اداسی میں کمی اُس وقت واقع ہوتی ہے جب چھوٹے بھائی ماجد یزدانی کا پیغام ملتا ہے کہ والدصاحب کی غزلیات کا مجموعہ ’’توراتِ دل‘‘ طباعت کے لیے تیار ہے اور یہ کہ مجھے اس کے لیے کچھ تحریر کرنا ہے۔ میں لکھنے کو قلم اٹھاتا ہوں اور سطر در سطر اپنے تاثرات ورق پر بکھیر دیتا ہوں                                             

حرفِ آغاز برائے ’’توراتِ دل

بکھر رہی ہے محبت کی روشنی ہر سو

اڑا رہا ہے کوئی  صورت غبار مجھے

بگولوں کی حقیقت صرف اتنی سی ہے یزدانی

ہمارے دل کی وحشت دوش صحرا پر سوار آئی

لٹے ہیں اس طرح اسے بن دیکھے بزم سے

جیسے کوئی نماز قضا کر کے آئےہیں

 ’’توراتِ دل‘‘ کی ایک ایک آیت مجھے اپنے سینے پر اترتی محسوس ہوتی ہے۔ میں اس صحیفه جذب و کیف کا ورق ورق مطالعہ کر رہا ہوں۔ نگاہیں، کسی شعر پر ٹھیرتی ہیں تو کانوں میں وہی میٹھی صدا کھنکنے لگتی ہے ، جس نے میرے دہن  کو لفظ کے ذائقوں سے آشنا کیا تھا۔ آنکھوں میں وہی مہربان چہرہ تصویر ہو جاتا ہے، جس کے خدوخال سے میں نے زندگی کے راستے چنے تھے۔ تاریک سانسوں میں وہی  خوشبو مشام جان کو معطر کرنے لگتی ہے، جس کے احساس نے مجھے شعور کی ان جان راہوں کا مسافر کیا تھا۔ اسی پیار پیار ہستی کی شبیہہ، آس پاس فروزاں ہونے لگتی ہے، جس کی انگلی پکڑ میں نے جذبہ و شعر کی گداز فکر پر بیچ وادی میں پہلا قدم رکھا تھا۔اور جسے سوچ کے اس سفر میں، میں اب بھی اپنا ہمقدم پاتا ہوں۔

 میں پاپا کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔۔۔

 سوچوں تو ذہن میں کتابوں کی کتابیں گردش کرنے لگتی ہیں، مگر لکھنے بیٹھوں تو وہی لفظوں کی احتیاج — حرف ساتھ نہیں دے پاتے ذہن کی رو  کا۔ قلم پیچھے رہ جاتا ہے اور یادوں کا غبار، تصور کو اڑا کر کہیں کا کہیں لے جاتا ہے۔۔۔ میری کم مائیگی اور بساط بدستور میرے پاؤں کی زنجیر بنی ہوئی ہے۔ والد صاحب کے حوالے سے یادداشتوں کی ایک مبسوط کتاب مجھ پر قرض ہے، جو جلد ادا ہو جائے گا۔ میرے علاوہ  اور کس کس پر یزدانی جالندھری کا کیا کیا قرض ہے ۔۔۔۔ مجھے علم نہیں۔ ویسے کہنے کو تو بہت کچھ ہے ان کے دوستوں اور کرم فرماؤں کے حوالے سے ، مگر پھر اس درویش بے ریا کا ظرف آڑے آجاتا ہے جس نے عمر بھر فیاضی کی مگر کسی سے حرف ستائش تک کا طلبگار نہیں ہوا

اپنی رضا بھی ان کی رضا پر نثار کی

ہم دوستوں کا قرض ادا کر کے آئے ہیں

 ایک دور تھا۔۔۔ کئی لوگ تھے، جو شاعری کو کاوش فکر و احساس سے تعبیر کرتے تھے۔۔۔ آج کا بڑا شاعر تو تعلقات عامہ و خاصہ” اوراور گروہی جوڑ تو ڑ  کے سر پر قائم ہے۔ ایسے جاں گُسل حالات میں جب مجموعی معاشرتی ماحول کی طرح فضائے ادب بھی، مصلحت کیشی اور مفاد پرستی سے مسموم ہوچکی ہو، یزدانی جیسے شفاف باطن درویشِ کم نوا کا جی لینا ہی کسی کرامت سے کم نہیں۔۔۔انھوں نے اپنی ایک ایک سانس شعر گوئی کے لیے وقف رکھی۔۔۔اور نتیجہ؟

نتیجہ یہ کہ خوشہ چیں، صاحبان صدہا دیوان ہوئے اور یزدانی درویش کا ایک مجموعہ بھی طباعت و اشاعت کی مشکل گھاٹیاں عبور نہ کر سکا۔ یہ سب کیا ہے۔۔۔؟ ذرائع ابلاغ کی نیم روشن اور پر پیچ راہداریوں میں بھٹکتے ہوئے نام نہاد معروف ادیبوں کے پاس اس پر غور کرنے کی فرصت کہاں!؟

دل آتش خاموش میں سلگا ہےبہت دیر

لیکن مرے ہونٹوں پہ دھواں تک نہیں آیا

بہر حال اس موقع پر ، میں تو دعا ہی کر سکتا ہوں کہ خدا احباب یزدانی کو قدر و احسان شناسی کی توفیق دے اور مجھے حوصلہ و ظرف یزدانی عطا فرمائے۔۔۔

چھوٹے بھائی ماجد یزدانی نے تو رات دل کو اشاعت پذیر کرنے، ایک خواب دیرینہ کو آشنائے تعبیر کرنے میں جس محنت اور محبت کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے ماجد کو مجاہد ثابت کر دیا ہے۔ اللہ اسے زندگی اور صحت کی نعمتوں سے مالا مال رکھے۔۔۔ آمین

حامد یزدانی

کولون— جرمنی

٭٭٭٭٭

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply