جمہور-شل لاء کمپنی لمیٹڈ/ٹیپو بغلانی

امریکن ٹی وی سِٹ کام “How I Met Your Mother” کے ایک سین میں مارشل ارکسن اور لِلی ایلڈرن چیخ مارتے ہوئے کچن سے بھاگتے ہیں۔
رات کی بیٹھک میں باقی دوست ان سے پوچھتے ہیں کہ وہ کچن میں کیا دیکھ کر ڈرے؟
لِلی جواب دیتی ہے،
“اس کی چھ ٹانگیں تھیں، ایگزو سکیلٹن تھا اور یہ کاکروچ جیسا کچھ تھا۔”
فوراً ہی مارشل بول پڑتا ہے،
“اس کے جسم پر بھورے بال تھے اور پیچھے دُم بھی تھی، یہ ماؤس تھا۔”
لِلی اور مارشل دونوں ایک دوسرے کے پیار میں مبتلا تھے اور ایک دوسرے کی بات کو رَد نہیں کر سکتے تھے لیکن انہیں اپنے اپنے بیان پر بھی پکے رہنا تھا۔
لِلی اب دوستوں کو نئے انداز میں قائل کرتی ہے،
“ہاں ہاں یہ کوکو-ماؤس” تھا۔
بارنی حیرت سے پوچھتا ہے کہ” کوکو – ماؤس؟”
لِلی اور مارشل کہتے ہیں
لگتا ہے یہ نیا جاندار میوٹیشن سے پیدا ہوا اور اب یہ موجود ہے وہ اسے دیکھ چکے ہیں۔

میوٹیشن (Mutation) بائیولوجیکل ٹرم ہے۔خلیے کے ڈی این اے (جینز) کی ترتیب میں اَن بَن کو میوٹیشن کہا گیا۔
میوٹیشن کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں۔
خلیے کی تقسیم بندی – Cell Division  کے وقت ہوئی گڑ بڑ، البتہ اس جینیاتی ڈھانچے میں تبدیلی کی پہلی اور بڑی وجہ قرار دی جا سکتی ہے۔

آج بہت سے لِلی ایلڈرن اور مارشل ارکسن پاکستان کے پارلیمنٹ ہاؤس میں بیٹھے ہیں۔
یہ ہاؤس کوئی مزاحیہ ٹی وی سِٹ کام نہیں، یہاں ملک کے سنجیدہ ترین اور تجربہ کار افراد مل کر بیٹھتے ہیں۔
وہ یہاں امریکی ڈرامے کے فنکاروں کی طرح شام کو بیٹھک لگا کر ہنسی مذاق نہیں کرتے بلکہ 25 کروڑ شہریوں کے حال اور مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں وزیراعظم کے عہدے کا رسمی چناؤ ہے۔
آئین پاکستان 1973 ہدایت دیتا ہے کہ عام انتخابات میں جو جمہوری سیاسی جماعت اکثریت حاصل کرے گی، صدر پاکستان اسے حکومت بنانے کی دعوت دیں گے۔
آئینی طور پر حکومت بنانے کا حق اور اختیار سنی اتحاد کونسل کو حاصل ہے۔سنی اتحاد کونسل دراصل پاکستان تحریک انصاف کا Cyst ہے۔
بیکٹیریا جب نامساعد حالات کے تناظر میں اپنی بقاء کو غیر محفوظ اور غیر یقینی دیکھتا ہے تو اپنے اردگرد ایک خول بنا لیتا ہے، یہ خول سسٹ کہلاتا ہے، یہ خول نامساعد حالات کو جھیلنے میں بیکٹریا کے لیے مورچہ کے طور پر کام کرتا ہے۔بیکٹیریا اپنی activities اور دائرہ ء کار کو محدود اور مخصوص بنا لیتا ہے۔
جونہی حالات بہتر ہوں، یہ بیکٹیرئیل سسٹ پھٹتا ہے اور ایک بیکٹیریا سے ہزاروں لاکھوں بیکٹیریا فوراً پیدا ہو کر، مشکل حالات میں آبادی کی کمی کا ازالہ کرتے ہیں۔

ہیلری کلنٹن نے ایک موقع پر اپنے مفصل انٹرویو میں پاکستان کے حقیقی نظام پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ “وہ ڈیپ سٹیٹ ہے”
ڈیپ سٹیٹ؟
جی بالکل ، اس نظام میں طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں ہوتے، وہاں جمہوریت نہیں ہوتی، وہاں اختیارات کا کنٹرول مسلح اداروں کے عہدیداروں کے پاس ہوتا ہے۔

بظاہر تو پاکستان کوئی سلطنت نہیں، بلکہ ریاست ہے۔
یہ دوسری بات ہے کہ پاکستان کے قومی ترانہ میں” قوم، ملک، سلطنت، پائندہ تابندہ باد” کا مصرع بھی ہے۔
یہاں سلطنت اصطلاح نہایت دھڑلے اور ٹھاٹ کے ساتھ استعمال ہوتی نظر آتی ہے۔سلطنت کا حکمران سلطان/بادشاہ/کنگ ہوتا ہے۔یہ تو ریاست ہوتی ہے جہاں عوام کی حکومت، عوام پر اور عوام کے ذریعے ہوتی ہے،عوام کے پاس ہمیشہ موقع رہتا ہے کہ وہ اپنے نمائندے تبدیل کرتے رہیں۔حقیقی ریاستوں کے سربراہان یا افواج کے پاس لوگوں کے لیے قوانین سازی کرنے کے اختیارات قطعاً ہیں ہی نہیں،پارلیمنٹ ہاؤس میں جمع عوام کے نمائندوں کے پاس یہاں تک کے اختیارات ہیں کہ اگر ان ملکوں کی عوام زور دے کہ ان کے لیے ہم جنس پرستی اور ہم جنسیت پر مبنی شادیاں بھی قانونی قرار دی جائیں تو پارلیمانی نمائندوں کو ایسے غیر فطری قوانین بنا کر بھی دینا پڑتے ہیں کیونکہ راج ہی عوام کا ہے۔

پاکستان میں عوام سے ووٹ لیے جاتے ہیں، ہر پولنگ سٹیشن پر عوامی ایجنٹس کی موجودگی میں، ہر پارٹی کے ووٹ ان کے سامنے گن کر فارم 45 پر لکھ کر دیے جاتے ہیں ،ایک حلقہ کے سینکڑوں، ہزاروں پولنگ سٹیشن سے جمع شدہ تمام فارم 45 ایک ہی فارم پر جمع کر کے لکھ دیے جاتے ہیں، یہ فارم 47 الیکشن میں حصہ لینے والے تمام امیدواران کا رزلٹ کارڈ ہے کہ کون پاس ہوا ہے، کس نے پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن لی اور کون فیل ہوا۔

نواز شریف کی ن لیگ اور بھٹو کی پیپلز پارٹی کا سیاسی سفر بندوق کے سائے میں اور مورچوں کے اندر چھپ کر شروع ہوا۔دونوں راہنماؤں کے پولیٹیکل فوسلز اٹھا کر ماضی اور تاریخ پر تحقیق کر لیجیے
کسی کو بھی ان کے عوامی روٹس نہیں ملیں گے۔

پاکستان کی 77 سالہ تاریخ میں عمران خان واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے کسی کی گود میں بیٹھنے کی بجائے کھیل کے میدان سے اپنی جدوجہد شروع کی،ان کی تحریک کو طاقت بخشنے کے لیے کوئی توپ، بندوق اور ٹینک ساتھ ساتھ نہیں چلے،ان کے ہمراہ ان کا لکڑی کا تھاپا رہا جس سے وہ پہچانے جاتے تھے۔عوام کے درمیان انہیں اپنا سیاسی تعارف بنانے میں لگ بھگ 3 دہائیاں لگ گئیں۔
اس دوران ان کی خاندانی، ذاتی اور ازدواجی زندگی بدترین مخالف حملوں کی زد میں رہی۔

عوام کی قسمت بدلنے کے لیے اور ان کے آئین اور ریاستی سٹیٹس کی بحالی کے لیے انہوں نے اپنی محبت کی شادی قربان کی، اپنے جگر گوشے خود سے جدا کیے،اس دوران ان کی زبان پر صرف سچ رہا، لوگوں نے ان کو تہذیب سے ماوراء قرار دیا کیونکہ وہ ناگوار لفظوں کو میک اپ کرکے خوبصورت بنانا نہیں جانتے تھے۔لوگوں نے انہیں کمینہ کہا کیونکہ انہوں نے ننگے سچ کو مصلحت اور مفاہمت جیسے کھیسوں اور ٹاٹوں میں چھپا کر اوجھل اور مدھم نہیں کیا۔

منٹو کو عدالت میں کوئی درخواست گزار گھسیٹ کر لے گیا۔عدالت نے کہا آپ نے الفاظ کا چناؤ ٹھیک نہیں کیا،اس تحریر میں عورت کی چھاتی کو عورت کی چھاتی لکھا گیا ہے۔
منٹو نے جج سے کہا پھر آپ ہی مجھے متبادل لفظ بتا دیجیے، عورت کی چھاتی کو چھاتی نہ کہوں تو کیا مونگ پھلی کہوں؟

عمران خان نے چور کو چور کہا، عمران خان نے امریکی مداخلت کو مداخلت کہا، عمران خان نے اداروں کو ان کے آئینی اختیارات کے دائرہ کار میں کام کرنے پر زور دیا۔
عمران خان جمہوریت میں عسکری مداخلت کو چیلنج کیا،وہ جمہوریت کو جمہوریت کہنا چاہتا ہیں، وہ مارشل لاء کو مارشل لاء کہنا چاہتے ہیں، وہ مارشل لاء کے وجود اور جمہوریت کے میک اپ والے سسٹم کو جمہور-شلء کہہ رہے ہیں،وہ ماؤس جیسے دکھنے والے چوہے کو “کوکو-ماؤس” کہہ رہے ہیں۔

الیکشن سے قبل صرف پاکستان تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کر دیا گیا،ن لیگ، پیپلز پارٹی اور 13 مزید سیاسی جماعتوں نے کب اپنے پارٹی الیکشن کرائے؟
فضل رحمان کی ف اس کا پارٹی الیکشن ہے، ن لیگ کی ن اس کا پارٹی الیکشن ہے، پیپلز پارٹی کی پ پرچی اس کا پارٹی الیکشن ہے، اے این پی کا الف ایمل اس کا پارٹی الیکشن ہے۔پاکستان تحریک انصاف نے تو پھر بھی الیکشن کرائے۔الیکشن سے لیکر اب تک اس کے ووٹرز کو اس کا پرچم لیکر باہر نکلنے کی آزادی حاصل نہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے ووٹرز نے بیکٹیریا کی طرح سسٹ بنا کر خود کو محفوظ کیا اور بدترین بربریت اور جسمانی وذہنی اذیت و تشدد کے باوجود انہوں نے خود کو 8 فروری کے لیے بچا کر رکھا۔
ان کو بھٹکانے کے لیے سینکڑوں انتخابی نشانات الاٹ کیے گئے، ان کو الیکشن کمپین سے دور رکھا گیا، الیکشن کی رات تک کارکنان کے گھروں پر چھاپے مار کر گرفتاریاں ہوئیں، لیکن لوگ سسٹ توڑ کر نکلے اور تاریخی ٹرن آؤٹ نے نتائج نفسیاتی حد سے بھی پار جا کر بدل دیے۔

پیپلز پارٹی کے راہنما ندیم افضل چن نے ٹی وی ٹاک شو میں واضح طور پر سابق عسکری سربراہ اور موجودہ عسکری سربراہ کے مابین ، ان کی مصنوعی الیکشن ہار پر ہوئے مکالمے کا ذکر کیا۔
انہوں نےحالیہ الیکشن پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بار بھی ڈبوں میں 20 ہزار تک پرچیاں پہلے سے ڈال کر رکھی گئی تھیں، ماضی کے ٹرن آؤٹ کو پیمانہ بنا کر، اس الیکشن کو اپنی طرف سے مینج کیا گیا لیکن عوام نے حیران کن ٹرن آؤٹ دے کر ساری تیاری  ستیا ناس کرکے  رکھ دی۔

صحافی نے شیر افضل مروت سے پوچھا “آپ نے پارلیمنٹ ہاؤس میں بوٹ لہرا کر پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال کیا”
مروت صاحب نے سنجیدگی سے پوچھا “جو پامال ہوا، وہی تقدس ہے؟”

پارلیمنٹ ہاؤس میں پارلیمانی عہدوں کے چناؤ کے دوران فارم 45 پر جیت کر آنے والے نمائندگان مسلسل احتجاج کنان ہیں۔ فارم 47 پر جیت کر آنے والوں کو سٹرینجرز اور اجنبی کہا جا رہا ہے۔قرآن پر حلف لیکر اپنی جیت ثابت کرنے کے چیلنجز دیے جا رہے ہیں۔

پاکستان ٹیلی وژن پر، عوام کے منتخب نمائندوں کے خطاب کے دوران نشریات بند کر دی جاتی ہے۔جس نمائندے نے تقریر کے دوران عمران خان کی تصویر سامنے رکھی ہوئی ہو، اس کی کیمرہ کوریج سائیڈ یا پیچھے سے کی جاتی ہے۔

رانا ثناء اللہ ان انتخابات میں بیٹے اور داماد سمیت بری طرح شکست سے دو چار ہوئے۔اپنے تازہ ٹی وی انٹرویو میں پی ڈی ایم جماعتوں کے ہارنے پر تبصرہ اس طرح کرتے ہیں،”عوام کو پی ڈی ایم نے مہنگائی کی دلدل میں دھنسا دیا، عوام اس مہنگائی کو بھول نہیں پا رہے وہ ہر روز ان کے ساتھ رہتی ہے، ان کی کمر اور جیب یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔عوام پر ہوئے بے جا مظالم نے ہمیں عوام میں ولن بنا دیا اور ان کو مظلوم۔۔
جب جب ہم مظلوم بنے عوام نے ہمارا بھی ساتھ دیا لیکن اس وقت وہ ان کے ساتھ ہیں ”

سنی اتحاد کونسل کی جانب سے نامزد وزیراعظم امیدوار عمر ایوب نے کہا۔۔
ہم مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت کا سنتے تھے اور آج ہمارے اپنے پاس یہاں کٹھ پتلی حکومت موجود ہے جن کے پاس کوئی اختیارات نہیں ہیں، جن کی واحد اہلیت ان کی” نااہلیت ” ہے۔
عمر ایوب نے شہباز شریف کے تقریر( جس میں شہباز شریف نے خود کو وزیر اعظم منتخب ہونے کی بجائے لیڈر آف دی اپوزیشن منتخب ہونے پر سب کا شکریہ ادا کیا) پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح کے مسائل وزیراعظم نے اپنی تقریر میں بیان کیے اور جس طرح کے حل تجویز ہوئے لگتا ہے ان کی تقریر کسی ریٹائر ہونے والے سیکشن آفیسر نے لکھی ہے، یہ 25 سال پرانی باتیں کر رہے ہیں یو ٹرن لینے کے لیے مشہور جماعت نے اپنے صدارتی امیدوار کے لیے اچکزائی صاحب کو منتخب کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج وہ سب لوگ جو کبھی تحریک انصاف کے نشانہ پر رہے لیکن ان کے مؤقف کی فریکوئنسی، تحریک انصاف کے مؤقف کی فریکوئنسی سے میچ ہو رہی ہے، وہ غدار سے عوامی ہیروز کی فہرست میں شامل ہو رہے ہیں۔
عوام نے آج کے جمہور-شل لاء کے نظام کو بھانپتے ہوئے 50 سال پہلے کے غداروں کو بھی وفاداروں میں شمار کر لیا ہے۔
عوامی نظریہ تیزی سے پھیل رہا ہے اور تیزی سے طاقت پکڑ رہا ہے۔
ابھی بھی کچھ لوگ ہیں جو باطل کے ساتھ ہیں لیکن جس دن تمام لوگ Burning Desire, Solid Faith and Strong Belief کے ساتھ اللہ سے مدد طلب کریں، گے اسی لمحے مدد پہنچے گی اور تقدیر بدل جائے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply