تاریخ کا دھرم نہیں ہوتا/حیدرجاوید سیّد

الیکشن ڈے کی طرح ویلنٹائن ڈے بھی گزر گیا ہر دو معاملوں میں سے ایک پر روائیتی انداز میں چند دن تک چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے والے ہاہاکاری میں مصروف رہے البتہ الیکشن کے نتائج پر تحفظات رکھنے والوں کی محافلِ “سماع” جاری ہیں۔ فی الوقت تو اٹھتے بیٹھتے تہذیب و تمدن کی دہائیاں دینے والوں سے بصد ادب دریافت کیا جانا بہت ضروری ہے کہ یہ کن “جانوروں” کے اسمائے گرامی ہیں؟

معاف کیجئے گا ہم جو نصاب ہائے تعلیم (اس ملک میں کم و بیش 8 طرح کے نظام تعلیم کی تجارت ہورہی ہے) کے نام پر پچھلے 76برسوں سے ہمارے بچے پڑھ رہے ہیں اس کا ہمارے اصل سے کیا تعلق ہے؟ یوں اگر ایک اور سادہ سا سوال دریافت کرلیا جائے کہ ہم زمین زادوں کے پاس اپنا کیا ہے؟ تو یہ انوکھی بات یا سوال نہیں، نجانے لوگوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں بھرے لمحات سے “اسلامی تہذیب” خطرے میں کیوں پڑجاتی ہے؟

چند برس ہوتے ہیں سرائیکی وسیب کے معروف شہر بہاولپور کے قریب جمی ایک محفل میں کسی نے سوال کیا بسنت، ویلنٹائن ڈے، بیساکھی، خانقاہوں پر منعقدہ سالانہ اجتماعات آخر ان سب سے پاک و ہند کے مسلمانوں کا اسلام خطرے میں کیوں پڑجاتا ہے؟ عرض کیا اپنے اصل سے کٹے لوگوں کا بنیادی المیہ یہی ہے کہ وہ تازہ ہوا سے بھی ڈرتے ہیں۔

امسال بھی گزشتہ برسوں کی طرح ویلنٹائن سے ہفتہ دس دن قبل شروع ہوئی بحث میں ہر کس و ناکس نے بساط کے مطابق خوب حصہ ڈالا مگر اس سوال پر کسی نے غور کرنے کی زحمت نہیں کی کہ ہمارے (برصغیر کے مسلمانوں) کے پاس اپنا کیا ہے؟

زمین زادوں کی تاریخ اشوک اعظم سے بھی بہت پہلے کے زمانوں سے عبارت ہے لیکن تاریخ کے نام پر جو موجود ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا آغاز محمد بن قاسم کے سندھ پرحملہ سے ہوا۔ اس سے قبل تو بس ہر سُو کفر ہی کفر تھا۔ طالب علم حیران ہوتا ہے کہ کیسا کفر تھا جہاں لگ بھگ سات ہزار سال قبل ملتان کے حاکم راجہ پرہلاد نے اپنے دارالحکومت ملتان میں توحید پرستوں کی دانش گاہ قائم کی۔

توحید پرستوں کی اس دانش گاہ کو تقسیم ہند کے بعد مندر قرار دے دیا گیا اور پھر بابری مسجد کی شہادت کے تنازع پر غیرت ایمانی سے بپھرے ہوئے مسلمانوں نے پرہلاد کی اس دانش گاہ کو زمین بوس کردیا۔

اسلام بچ گیا یا بابری مسجد کا حساب صاف ہوا؟ یہ تو معلوم نہیں البتہ ملتان لگ بھگ سات ہزار برس پرانی تاریخی شناخت سے محروم ہوگیا۔

ہم سے اکثر ملتانیوں نے اب قلعہ کہنہ قاسم باغ پر دولت گیٹ کے راستے سے جانا چھوڑ دیا ہے کہ پرہلاد کی دانش گاہ کا ملبہ خون رلاتا ہے اور سوال بھی کرتا ہے کہ تاریخ اور آثار قدیمہ کا بھی مذہب ہوتا ہے کیا؟

یاد پڑھتا ہے کہ سال 2014 میں حیدر آباد سنھ میں منعقدہ ایک سیمینار میں عرض کیا تھا کہ “تاریخ آسمانی صحیفہ ہرگز نہیں اس پر اٹھنے والے سوالات اور اعتراضات کا مطلب کسی مذہب سے انکار نہیں کہ فتوئوں کی توپ داغنے کا کاروبار شروع کردیا جائے۔ اسلام کی تاریخ کے نام پر جوتاریخ دستیاب ہے وہ بھی مسلم حکمران اور ان کے ساجھے دار خاندانوں کی تاریخ ہے”۔

ہمیں سمجھنا ہوگا کہ “صنفی امتیاز سے عبارت اس تاریخ پر سوال اٹھانے سے دھرم بھرشٹ نہیں ہوتا۔ ہمیں کھل دل سے نہ صرف مکالمے کا آغاز کرنا ہوگا بلکہ اس کجوں کو تاریخ سے چلتا کرنا ہوگا جن کی وجہ سے منہ چھپانا پڑتا ہے”۔

صاف سیدھی بات عرض کردی کہ مذہب کی تاریخ ہوتی ہے تاریخ کا مذہب نہیں ہوتا۔ تاریخ کو مذہب کا سا تقدس دینے والوں کے مفادات ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایسے کثیر المسلکی ملک میں ہر مسلک کے لوگ تاریخ کو اپنے ڈھب سے دیکھتے، لکھتے اور پیش کرتے ہیں۔

ہم ایسے طالب علم جو تاریخ کو اس کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں پڑھتے دیکھتے ہیں ہمیشہ فتوئوں کی چاند ماری کی زد میں رہتے ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ تاریخ کہ نام پر جو پڑھایا جارہا ہے اس پر سوال جرم ہے، رہی سہی کسر ساتویں درجہ کے انتہا پسند مذہبی رہنما پوری کردیتے ہیں۔ کچھ کسر بچ رہتی ہے تو وہ دوسری طرف کے انتہا پسند پوری کردیتے ہیں۔ اعتدال و توازن کا فقدان ہے۔ دو انتہائوں میں تقسیم سماج میں سانس لیتے ہوئے زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ چند دن ادھر ایک دوست کی خدمت میں عرض کیا تھا، ابھی یہ طے ہونا ہے کہ ہم جس انبوہ کا حصہ ہیں یہ سماج ہے بھی کہ نہیں۔ آدمیوں کے جنگل کو معاشرہ کہنا کم از کم مجھ سے طالب علم کے لئے بہت مشکل ہے۔

مطالعے اور وہ بھی تقابلی مطالعے کا فقدان ہے۔ دستیاب کتب کے فقط اپنی اپنی پسند کے صفحات پڑھنے یا پھر سنی سنائی پر اترانے والوں سے بحث بے کار ہے۔ اس لئے کچھ لوگوں کو ضد ہے کہ خوشیوں بھرے لمحات کو ایک خاص زاویے سے دیکھنا چاہیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ضد میں زیاہ تر دو طرح کے لوگ مبتلا ہیں اولاً وہ جو حملہ آوروں کے خاندانوں یا ان کے ساتھ آئے ہوئے کے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ثانیاً وہ کچی روٹی پڑھے دیندار جن کا شرعی رزق خطرے میں ہے (نعوذباللہ) کی صدائوں سے چلتا ہے۔

بسنت و بیساکھی اور میلوں ٹھیلوں کے ساتھ وہی رویہ ہے جو ویلنٹائن کے ساتھ ہے۔ پھر سوال اٹھاتے ہیں کہ ہمارے ہاں بڑے لوگ پیدا کیوں نہیں ہوتے؟ سوال یہ ہے کہ مسلم سماج میں پچھلے 14سو سالوں کے دوران جو بڑے لوگ پیدا ہوئے ان سے سلوک کیا ہوا؟

ابن رشد، یعقوب الکندی، ابن سینا، رازی، حسین بن منصور حلاج، سرمد، شاہ حسین، بلھے شاہ، ان سب کے ساتھ ہم نے کیا کیا؟ کیوں ہم تاریخ کے ان صفحات سے آنکھیں چراتے ہیں جن میں ان صاحبان علم و دانش کے ساتھ ہوئے برتائو کی تفصیل درج ہے؟

ہمیں تو بس یہ پسند ہے کہ باپ کی آنکھوں میں گرم لوہے کی سلاخیں پھیرنے یا بھائیوں کی گردن مارنے والا بادشاہِ وقت ٹوپیاں سی کر شکم کی آگ بجھاتا تھا۔ جب کبھی یہ قصہ پڑھتا ہوں سنتوش کمار کی فلم یاد آجاتی ہے جس میں ہیرو کہتا ہے “چوری میرا پیشہ ہے اور نماز فرض”۔

اے کاش! ہم کبھی اس حقیقت کو تسلیم کر پائیں کہ مذہب کے تقدس کے غلافوں میں چھپی تاریخ باشعور سماج کی تشکیل کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور لمحہ موجود کی اولین ضرورت یہ ہے کہ تاریخ سمیت تمام ان معاملات پر جاندار مکالمے کا آغاز ہو جو انسانی سماج کے بٹواروں اور نفرت کے پھیلائو کی وجہ ہے۔

کڑوا سچ یہ ہے کہ ہمارے دیندار ہوں یا کمرشل لبرل دونوں انتہا پسند ہیں حالانکہ تہذیبی ارتقا کے راستے میں انتہا پسندی ہی حائل ہے۔ ہم ایک دوسرے کی ضد پر اڑے ہیں۔ دلیل سے کورے دولے شاہ کے چوہوں کی طرح کشکول ہاتھوں میں اٹھائے سفر حیات طے کرتے ہوئے اکارت گئے لمحوں، مہینوں، سالوں، عشروں یا صدیوں کا حساب نہ کرسکنے والے۔

معذرت خواہ ہوں الیکشن اور ویلنٹائن ڈے سے بات شروع ہوئی اور قصہ چہار درویش کی صورت بن گئی۔ اصل میں پچھلے چند دن (تقریباً ہفتہ بھر کے دوران) میں جو اپنی جنم بھومی ملتان میں گزرے ہر قدم پر ایک نیا سوال تھا۔ سوال کرنے والوں میں اکثریت صاحبانِ مطالعہ دوستوں اور نوجوانوں کی تھی اس لئے بہت خوشی ہوئی کہ ہماری نئی نسل لکیر کے فقیر کی طرح زندگی بیتانے سے انکاری ہے۔ اپنے ہونے کے عصری شعوری اور تاریخ کے ساتھ مذہب کے بارے میں بھی وہ بہت کچھ جاننے اور سمجھنے کی شعوری کرشش کرتے ہیں۔

ہفتہ بھر کے پڑائو میں ہوئی ملاقاتوں میں ہر جگہ یہی عرض کیا مطالعے اور بالخصوص تقابلی مطالعے کے بغیر مقصد حیات عیاں نہیں ہوگا۔ اندھی تقلید کے جنون سے بچ رہنے میں عافیت ہے۔ ٹھہرائو، اعتدال اور توازن ہی حسن زندگی ہے اور یہ ساری دولت مطالعے سے حاصل ہوگی۔ پھر اگلے مرحلہ میں مکالمہ کیجئے لیکن سید عبدالحمید کی اس بات کو پلے سے باندھ رکھئے کہ “جس میں جتنا ظرف ہوگا اسی حساب سے بات کرے گا”۔

ظرف کا پیمانہ خالی ہو تو مغز ماری کی ضرورت نہیں، زندگی کی حقیقتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آپ اپنے لئے، اپنے مذہب اور قومی شناخت کے لئے احترام اسی صورت میں پاسکتے ہیں جب آپ بھی اسی جذبہ کا اظہار کریں۔ دوسری صورت وہی ہے جو ہمارے چار اور دیکھنے میں آرہی ہے۔ ان لمحوں میں جب یہ کالم لکھ رہا ہوں تو بہت سارے سوالات دل و دماغ میں رقصاں ہیں۔

بنجر ہوتے معاشرے میں سوالوں کی فصل کاشت کرنے والے نوجوان اس حقیقت سے نا آشنا ہیں کہ سوال ختم ہو تو زندگی ختم، زندہ انسان ہی سوال اٹھاتے ہیں، مردے سوال کرتے ہیں نہ بحث و تکرار، ہرگز ہرگز مایوس نہیں ہوں، سفر اور ملاقاتوں نے تازہ دم کردیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکرر عرض ہے، ہماری نئی نسل سوال کرنے سے گھبراتی نہیں ہے۔ اب یہ ہماری نسل کا فرض ہے کہ مین میخ نکالنے کی بجائے ان کے سوالوں کا مناسب جواب دے تاکہ ان کی تشفی ہوپائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply