صبر اور استقامت/ڈاکٹر اظہر وحید

تصوف کے موضوع پر ایک ہزار برس قدیم دستاویز ”کشف المحجوب“ میں ایک عجب بات درج ہے۔ یوں تو یہاں مندرج ہر جملہ غور کرنے والوں کے لیے ایک محیر العقول مقالہ ہے، لیکن جنابِ حسن بصریؒ کا ایک مکالمہ عجب کیفیتِ وجد طاری کر رہا ہے۔ ایک مرتبہ ایک اعرابی حضرت حسن بصریؒ کے پاس حاضرِ خدمت ہوا اور ان سے صبر کی بابت دریافت کیا۔ آپؒ نے فرمایا: ”صبر دو طرح کا ہوتا ہے: ایک بلا و مصیبت میں صبر کرنا اور دوسرا منکرات سے خود کو روکے رکھنا ہے”۔ وہ بدو کہنے لگا کہ بلاشبہ آپؒ زاہد ہیں اور آپؒ سے بڑھ کر میں نے کوئی زاہد دیکھا ہے نہ صابر۔ جنابِ حسن بصریؒ نے کہا ”لیکن میرا زہد (دنیا سے بے رغبتی) دراصل ایک رغبت ہے اور میرا صبر بھی دراصل ایک بے صبری ہے“۔ بَدّو نے کہا ”اس بات کی وضاحت کر دیجئے“۔ آپؒ نے فرمایا ’’کسی مصیبت اور اطاعت کی صورت میں میرا صبر دراصل یہ بتا رہا ہے کہ میں آتشِ دوزخ سے ڈر رہا ہوں اور یہ درحقیقت بے صبری ہی کی ایک صورت ہے۔ اسی طرح دنیا سے بے رغبتی دراصل آخرت سے رغبت کی وجہ سے ہے اور یہ بھی درحقیقت ایک رغبت ہی ہے۔ خوش نصیب وہ ہے جس نے اپنے زہد و صبر کا حصہ درمیان سے اٹھا لیا، یہاں تک کہ اس کا صبر خاص اللہ جل جلالہُ کے لیے ہو گیا، نہ کہ محض دوزخ کے خوف کی وجہ سے اور اسی طرح اُس کا زہد بھی مطلق خدائے نعمت بخشن ہار کے لیے ہو گیا، نہ کہ جنت میں پہنچے کے لیے۔ اور یہی بات خالص اخلاص کی علامت ہے“۔

صبر کے متعلق اِس قول میں نکات دَر نکات کا ایک جہان پوشیدہ ہے۔ معلوم ہوا کہ صبر بنیادی طور پر خود کو روکنے سے متعلق ہے۔ خود کو روکنا یقیناً ایک با اِختیار بندے کا عمل ہے۔ یعنی صبر کرنے والا بے صبری اختیار بھی کر سکتا تھا لیکن اس نے بے صبری کے بجائے صبر کا راستہ اختیار کیا۔ صبر کا راستہ اختیار کرنے والا طاقت ور ہوتا ہے، وہ انتقام لے سکتا ہے، وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر شکوے اور شکایت کا راستہ اختیار کر سکتا ہے لیکن وہ خاموش رہا، اُس نے انتقام لیا نہ شکوہ اور شکایت کی۔ اگر وہ بے بس تھا، کمزور تھا، فوری طور پر بدلہ نہیں لے سکتا تھا، تو وہ دل میں کینہ، نفرت اور بغض بھی رکھ سکتا تھا۔ لیکن اس نے اپنے دل کو ان تمام منفی جذبات سے پاک رکھا۔ یہ منفی جذبات مخلوق کو فوری طور پر نظر نہیں آتے۔ ممکن ہے مخلوق اسے صابر ہی تصور کرتی لیکن باطنی طور پر وہ ایک دنیا دار شخص ہوتا جس کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے تو وہ مشتعل ہو جاتا ہے۔ ظاہر میں اس کے اعضا و جوارح غصے کی شدت سے مسخ ہونے لگتے ہیں۔ باطن میں نفرت، بغض اور کینے کے زیرِ اثر اس کی صورت، اس کی مثالی صورت کریہہ المنظر ہونے لگتی ہے۔ وہ مخلوق کے لیے ناقابلِ قبول ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ خود سلامت رہتا ہے نہ مخلوق کو اُس کے ہاں سلامتی کا سائبان میسر آتا ہے۔ باالفاظِ دیگر غصے پر قابو پانا بھی صبر ہے۔ ظاہر میں حالات کے کشیدہ ہونے کے باوجود باطن میں کبیدہ خاطر نہ ہونا بھی ایک صبر ہے۔ کسی کی بد اخلاقی کے جواب میں خوش اخلاقی برقرار رکھنا بھی صبر ہے۔ اپنے خیالات و جذبات کو ہر حال میں متواضع اور متوازن رکھنا بھی صبر ہے۔ الغرض مصیبت کے عالم میں ہر قسم کے شکوہ و شکایت سے مجتنب رہنا صبر کہلائے گا۔ صبر کرنے والا خالق کا شکوہ مخلوق سے اور مخلوق کا شکوہ خالق سے نہیں کرتا۔ مخلوق سے شکوہ حالات و واقعات کا تذکرہ اور تکرار ہے۔ خالق کا شکوہ مخلوق سے یوں ہے کہ انسان اپنی بدقسمتی کا تذکرہ کرتا رہے … حالانکہ کسی انسان کو بدقسمت نہیں پیدا کیا جاتا … ہر شخص خوش قسمت ہی پیدا ہوتا ہے، اگر وہ اپنی قسمت پہچان لے۔ اِنسان عجب مخلوق ہے … حالات و واقعات کی وہ ترتیب جو اس کے نزدیک بہتر ہے، اسے وہ خوش قسمتی سمجھتا ہے اور کسی غیر معمولی ترتیب کو بدقسمتی پر محمول کرتا ہے۔ حالانکہ واقعات کی غیر معمولی ترتیب غیر معمولی امکانات بھی ساتھ لے کر آتی ہے۔ خالق کا مخلوق سے شکوہ اس طرح بھی کیا جاتا ہے کہ انسان اپنی زندگی میں پیش آنے والے حالات و واقعات اور افراد کو کوستا رہے۔ زندگی اور اس میں میسر آنے والے افراد اپنے واقعات سمیت سب کے سب خالق نے پیدا کیے ہیں اور اسی نے یہ واقعات ترتیب دیے۔ اس کی دی ہوئی ترتیب ہی تقدیر ہے۔ اپنے مقدر کو اپنے لیے غیر موزوں سمجھنا اور موقع بموقع اس کا اظہار کرتے رہنا براہِ راست خالق کا شکوہ ہے جو انسان مخلوق کے سامنے کرتا ہے۔

مخلوق کا شکوہ خالق سے … اس طرح ہوتا ہے کہ انسان مخلوق کی شکایت خالق سے کرتا رہے۔ مخلوق کی خالق سے شکایت بدعا کی صورت بن جاتی ہے۔ صبر کرنے والا بددعا نہیں دیتا۔ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ نہیں لیتا، وہ اپنا انتقام کل پر مؤخر نہیں کرتا اور یہ کل ہر آنے والا کل ہو سکتا ہے۔۔۔یہاں تک کہ یومِ حساب آ جائے۔ صبر کرنے والا دراصل معاف کرنے والا ہوتا ہے۔

صبر کا دوسرا حصہ۔۔۔منکرات سے بچنا، خود کو لہو و لعب سے بچانا، دنیا کی ترغیبات و تحاریص سے اپنا دامن بچائے رکھنے پر مشتمل ہے۔ انسان ایک صاحبِ اختیار مخلوق ہے۔۔۔وہ حکم عدولی کر سکتا ہے۔۔۔وہ ممنوعات کی طرف لپک سکتا ہے، اسے یہ طاقت دی گئی ہے کہ چاہے تو روح کے تقاضوں پر لبیک کہے اور چاہے تو جسم کے تقاضوں پر چلنے کو مقدم ترجیح دے۔ لیکن صابرین یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ دل کی آزادی، شہنشاہی کے راستے پر چلیں گے اور شکم پروری کے اس راستے پر نہیں چلیں گے جو سامانِ موت ہے۔ یوں ”زندگی“ اور ”موت“ انسان کے اختیار میں ہے۔

اس کے بعد صبر کا تیسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے جسے استقامت کہتے ہیں۔ یہ فیصلہ کر لینے کے بعد کہ ہم نے عارضی زندگی کو ہمیشہ کی زندگی میں بدلنا ہے … ہم نے شکم کی دنیا سے نکل کر دل کی دنیا میں داخل ہونا ہے … اپنے فیصلے پر ثابت قدم رہنا، مستقیم الحال رہنا صبر کا ایسا آسمان کھولتا ہے جو زمین پر رہنے والوں کو میسر نہیں۔ دراصل صبر ایک ایسا منظر ہے جو بے صبر وں پر منکشف نہیں ہوتا ہے۔ برداشت اور صبر میں فرق ہے۔ برداشت باالکراہت ہے، صبر بالرضا!

لالچ میں لتھڑے، حسد کے مارے، نفرت کے بھنور میں گھرے لوگ دراصل بے صبری کے مارے ہوئے ہوتے ہیں۔ اِن پر زمین کے مناظر بھی مکمل طور پر نہیں کھلے۔ یہ صرف انہی مناظر کے مسافر ہوتے ہیں جہاں ان کے مفادات کی تکمیل کا کوئی سامان امکان موجود ہو۔ صبر پر استقامت تسلیم و رضا کا منظر کھول دیتی ہے۔ تسلیم و رضا کے منظر کا شاہد ہی مشیت ِ الٰہی کے رازوں کا امین ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خواجہ حسن بصریؒ کے قول کا یہ حصہ ”خوش نصیب ہے وہ جس نے اپنے زہد و صبر کا حصہ درمیان سے اٹھا لیا“ بہت عمیق معانی کا حامل ہے۔ دائیں اور بائیں خوف و حزن ہے، سزا کا خوف اور جزا کا لالچ ہے۔۔۔آگے اور پیچھے ماضی اور مستقل ہے … درمیان میں لمحہِ حال ہے۔۔۔اور لمحہِ حال ہی وہ لمحہ ہے جس میں وہ اپنی مشیت کے تمام تر جلووں کے ساتھ خود جلوہ آرا ہے …! حال سے متمسک ہونے والا ہی صاحبِ حال ہے۔ وہ متلوّن نہیں، متمکن ہے … مستقیم الحال ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply