• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کی تباہی/ریاض احمد

پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کی تباہی/ریاض احمد

مارچ ۱۹۳۰ میں ہرمین ملر کی قیادت میں سوشل ڈیموکریٹک حکومت کو مستعفی ہونا پڑا اور اس کی جگہ ہنریچ بروننگ صدر بنا اور بروننگ کے دور میں ہی نازیوں نے یکے بعد دیگرے انتخابی معرکے سر کیے۔ سب سے پہلے رائشٹاگ (پارلیمان) کے انتخابات میں ستمبر۱۹۳۰ میں بروننگ نازیوں نے چونسٹھ کروڑ ووٹ لیے، مارچ ۱۹۳۲ میں صدارت کے لیے ہٹلر کو ایک کروڑ تیرہ لاکھ ووٹ پڑے اور ایک ماہ بعد نازیوں کے ووٹ بڑھ کر ایک کروڑ چونتیس لاکھ ہو گئے۔ ۱۹۲۸ میں نازیوں کا ووٹ ڈھائی فیصد تھا، ستمبر ۱۹۳۰ میں یہ ۱۸ فیصد ہوا اور مارچ۱۹۳۲میں یہ۳۰ فیصد اور اپریل ۱۹۳۲ میں یہ ۳۷ فیصد ہو گیا۔”

جیسے ہی نازی برسراقتدار آئے  ،چند ہی ماہ میں انہوں نے اپوزیشن پارٹیوں پر پابندی لگا دی اور پارلیمان کو نازیوں اور نازی حمایتی مہمانوں کا ربراسٹیمپ بنا دیا ۔ عمران خان کی پاپولسٹ حکومت ۲۰۱۸ تا ۲۰۲۲ میں بے پناہ غربت اور تاریخی مہنگائی ہوئی۔ ان کی جگہ روایت پسند ن لیگ اور پی پی کی عارضی حکومت میں مزید غربت اور مہنگائی نے عمران خان کے لیے بے پناہ سپورٹ میں اضافہ کر دیا۔ ۲۰۱۳ میں پارلیمان میں پی ٹی آئی کی ۳۵ سیٹیں تھیں، پھر ۲۰۱۸ میں ان کی سیٹیں ۱۴۹ ہو گئیں. ان میں آدھی میں انہی کے لیے دھاندلی ہوئی اور ۲۰۲۴ میں انہیں ۱۵۰ سیٹیں ملنی تھیں لیکن دھاندلی کر کے انکے مخالفین کو دے دی گئیں۔ دھاندلی کے سرخیل تو فوجی افسران ہی تھے لیکن سربراہی الیکشن کمیشن نے ۲۰۱۸ اور پھر ۲۰۲۴ میں ہی کی۔

عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے تاثر سے غیرمنتخب ہئیت مقتدرہ سے سیاسی مقتدرہ کے کئی سیکشنز کے تصادم کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے الزام لگایا ہے کہ اسے قومی اسمبلی کی 180 نشستوں پر زبردستی ہروایا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ اسے اس لیے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت لینے سے روکا گیا کہ کہیں اسٹبلشمنٹ میں عسکری قیادت کا موجودہ غلبہ نہ ختم ہوجائے۔ لیکن یہ جو کہا جارہا ہے یہ تو محض ظاہری صورت حال ہے۔ اصل حقیقت جسے چھپایا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ دار طبقے کا قائم کردہ ترقی/سرمایہ کاری/ برآمدات کا جو ماڈل ہے وہ زمین بوس ہوگیا ہے۔

اس مضمون میں، میں درمیانے طبقے کو کمتر بنائے جانے اور حکمران طبقے کے غریب اور ورکنگ کلاس سے مکمل طور پر کٹ جانے کی معاشی جڑوں کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گا۔ یہ دکھانے کے لیے کیسے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے۔

پاکستان کے معاشی بحران نے ایک طرف تو پارٹی لیڈر شپ کو ‘نجات دہندہ’ کے طور پر پیش کرنے کا موقع  دیا کیونکہ وہ سارے وسائل پر ایسے قابض ہوتی ہے کہ اپنے مخالفین کو زبردست طریقے سے چیلنج کرپائے۔ ایسی صورت حال میں ایسی پارٹیوں کے اراکین محض خوش آمدی بن کر رہ جاتے ہیں۔وہ پارلیمانی نشستیں جیتنے کے لیے عسکری اسٹبلشمنٹ کی حمایت کے حصول کو وقتی کمزور پوزیشن پر قابو پانے کا  ذریعہ بتاتے ہیں۔اس طرح کے ماحول میں انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے نام پر کلٹ حصّہ لیتے ہیں اور یہ ایک تصادم کی سی صورت اختیار کرجاتا ہے جس میں سب سے زیادہ طاقتور موزوں ہی باقی رہ پاتا ہے۔ اس دوران مقصد کے حصول کے لیے جائز ناجائز  ذرایع کے درمیان فرق ختم ہوجاتا ہے۔ پاکستان کی زیادہ تر سیاسی جماعتوں کا منظم تنظیمی نیٹ ورک پر انحصار نہیں رہا۔ پارٹی قیادت کا مطلب مٹھی بھر فیصلہ ساز ہیں- الیکشن لڑنے والے نودولتیہ شکاری ہیں اور باقی پارٹی سپورٹرز ہیں۔ پارٹی لیڈرشپ نے پروپیگنڈے کی ساری شکلوں کو آؤٹ سورس کردیا ہے۔ پارٹی اراکین کا کام اب دوسروں کو اپنی پارٹی میں شمولیت کے لیے قائل کرنا نہیں ہے- حتی کہ ان کا کام عام آدمی تک پہنچنا بھی نہیں کہ وہ انہیں ووٹ دینے کے لیے کہیں ۔الیکشن لڑنے والوں، ان کے حامیوں کے درمیان نظریاتی فرق بھی نہیں رہ گیا۔ حامیوں کا کام اپنے لیڈروں کی براہ راست پیروی ہے جیسے کوئی اپنے فرقہ کے رہبر اعظم کی کرتا ہو۔ لیڈرشپ اب اپنی پارٹی کو بھی جواب دہ نہیں ہے چہ جائیکہ وہ اپنے ووٹرز کو جواب دہ ہو۔ سب سے بڑھ کر اب سوشل میڈیا کو ہی جنگ و جدال کا میدان سمجھا جاتا ہے جہاں پر کروڑوں  روپے لگاکر وہ تیار کیا جاتا ہے جسے ‘بیانیہ’ کہتے ہیں۔ جہاں ووٹرز اپنی قیادت کے حکم کی پیروی کرتے ہیں بنا چوں و  چراں کیے۔ جب مخالفین کو شکست دینا ممکن نہ رہے تو پھر انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جابر طاقت کو انہیں برسراقتدار رہنے یا گرانے یا پھر انتخابات چرانے کے لیے ظالمانہ طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔

اس میں کئی اور متغیرات بھی ہیں۔ پاکستان کے کئی ایک علاقوں میں  قبائل، برادری میں تقسیم ووٹوں کے لیے پارٹی کے حواری لڑتے ہیں۔ کئی علاقوں میں ارب پتی امیدوار سیوریج لائنوں کو ٹھیک کرنے، گلیوں کی مرمت کرنے، بچیوں کی اجتماعی شادیاں کرانے اور نقد رقم تقسیم کرتے ہیں اور یہ براہ راست سرمایہ کاری ہوتی ہے انتخابات میں کا میاب ہونے کے لیے اوریہ عام روش ہے۔ بعض علاقوں میں صوبا ئی یا لوکل گورنمنٹ فنڈز یا نوکریاں انتخابی معرکوں میں اہم ٹول کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، لیکن 2024ء میں عمران خان کی قیادت میں ابھرنے والے پاپولزم نے ایسی کسی بھی سرمایہ کاری کو بے کار کردیا، لیکن فارم 47 اور 49 سے جو انتخابی نتیجہ آیا ہے اس سے یہ پتا چلا ہے کہ عوامی حمایت نہیں بلکہ سول و ملٹری نوکر شاہی سے مضبوط گٹھ جو ڑ انتخابات جتواتا ہے۔ پاکستان میں انتخابی معرکے میں اترنے والی اشرافیہ بھی ڈرامائی طور پر تبدیل ہوئی ہے۔ پاکستان کی معیشت کو بے وردی و باوردی نوکر شاہی کنٹرول کررہی ہے جو اسے مقامی ایکسپورٹرز اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں اور قرضہ جاتی سرمایہ کے پرکشش بنانے کا کام کرتی ہے۔ کوئی بھی اقتدار میں ائے ان کو مشکل سے ہی کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے۔ بڑے سرمایہ دار ہوں یا سول ملٹری نوکر شاہی ہو وہ انتخابات تو لڑتے نہیں ہیں ۔کمتر سماجی سطح سے اوپر اٹھ کر امیر ہونے والے شکاری، ریاستی دولت پر پلنے والے طفیلیے، کرایوں پر جینے والا طبقہ جو منشیات بیچنے والوں، رئیل اسٹیٹ کے تاجروں، زمینوں پر قبضہ کرنے والے گروہ ہیں جو پارلیمنٹ تک راستہ بناتے ہیں۔ یہ طفیلی گروہ سرکاری نوکر شاہی، عدالت، میڈیا میں اپنے اثرو رسوخ کو بڑھانے کے لیے انتخابات لڑتے ہیں  اور ریاستی ادارے اس طیفیلی گروہوں کے ایک بڑے حصّے کی جانب سے بے تحاشا دولت بناکر ریٹائر ہونے سے پہلے اور طفیلیے پیدا کرتے ہیں۔

نوکر شاہی بلدیات، تعلیم ، صحت، آبپاشی،انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے فنڈز ان طفیلیوں کو دیتی ہے جو ان کے زریعے سے ایسے ‘شکاریوں’ کا جال بناتے ہیں جو ایک درجہ بندی رکھنے والے ایسے نظام کی تشکیل کرتے ہیں جس کے آخر میں ایسے مقامی پارٹی پروموٹرز ہوتے ہیں جو اس نظام کے زریعے سے نو دولتیہ بننا چاہتے ہیں۔

پارلیمنٹ میں پہنچنے والے اس طیفیلے گروہ کو پالیسی سازی سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا کیونکہ اکثر اہم اور بنیادی اہمیت کے فیصلے تو پہلے سے بنے بنائے یا پارلیمنٹ سے مہر تصدیق ثبت کرانے کے لیے دارالحکومتوں میں بیٹھی نوکر شاہی ہی کرتی ہے۔

معیشت کے مالیاتی فیصلے، بڑے ترقیاتی منصوبے، فوجی آپریشن، بین الاقوامی تعلقات، بین الاقوامی سرمایہ کاری یا پھر عالمی مالیاتی اداروں سے لیے جانے والے قرضوں سے  متعلق  سب معاملات کا انتظام و انصرام حکومت کی طرف سے ہائر کیے گئے ٹیکنوکریٹ کرتے ہیں. پارلیمنٹ کا ایسے فیصلوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔

طفیلیہ طبقے کا قانون سازی کے عمل سے عدم ربط سوال اٹھاتا ہے کہ ایسے طبقے کی پارٹی لیڈرشپ کا کردار کیا ہے؟ کیونکہ جب کبھی معشیت کا جہاز غرق ہوتا ہے تو اس کے غرقاب سے پیدا شدہ طوفان کے تھپیڑے یہی طفیلیہ طبقے کی لیڈرشپ کھاتی ہے۔ اور سارے کا سارا حکمان طبقہ برسراقتدار کو اٹھاکر باہر پھینکنے کے لیے اتحاد کرلیتا ہے۔

بڑے سرمایہ دار، ٹیکسٹائل ایکسپورٹر، شوگر ملوں کے مالکان، بڑے پراپرٹی تاجر، فارماسیوٹیکل کارخانے دار، چاول اور کاٹن کے تاجر براہ راست نوکر شاہی سے رابطے میں ہوتے ہیں اور انہیں جب کبھی بڑی سبسڈیز اور ریایات لینا ہوتی ہیں تو یہی نوکر شاہی اور مرکزی کابینہ کے اراکین ان کو منطوری لے کر دے دیتے ہیں۔ ہاں ایسا ہوتا ہے کہ کیونکہ بیک وقت سب کو راضی نہیں رکھا جاسکتا تو بگ برادرز ایک دوسرے کے ساتھ لڑ پڑتے ہیں اور ایسے میں ریاست بھی منقسم نظر آنے لگتی ہے۔ فیصلہ سازوں ، نوکر شاہی کی یہی ناانصافی ہے جو انہیں سیاسی لیڈرشپ سے لاتعلق ہونے پر مجبور کرتی ہے جب ناجائز ٹیکسوں اور مہنگائی سے پیدا ہونے والی معاشی ابتری کا بوجھ درمیانے طبقے اور غریب پر پڑتا ہے اور ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔ باہم برسر پیکر بگ برادررز میں سے ایک سیکشن غریبوں اور امیروں میں بے چین ہونے والوں کو باہم متحد کرنے کا دعوا کرتا ہے۔ عمران خان جیسے پاپولسٹ/مقبول نعرے باز سوشل میڈیا کے ذریعے سے اس غصّے کو چالاکی سے گمراہ کن پروپیگنڈے سے اپنے حق میں کرنے کے فن میں طاق ہیں اور رویتی سیاسی اشراف اس فن کی مبادیات پر عبور حاصل کرنے میں ابھی کم از کم دس سال پیچھے ہیں۔ تاہم اس سارے شور شرابے میں جو چیز مستقل اور قائم دائم ہے وہ سرمایہ کاروں کے منافع میں بے تحاشا اضافہ ہے۔ اور یہ اضافہ عوام کو غریب بناکر ہی ہورہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان جو قیادت کے لیے مقابلہ ہے وہ ایک تماشے میں بدل جاتا ہے جہاں پر سب کے سب اپنی قسم کے ہائبرڈ(سول ملٹری حکمرانی) کے لیے بولیاں لگاتے ہیں.انہیں اس ساری مشق کی ساکھ کے ہونے نہ ہونے سے کوئی سروکار نہیں ہوتا. انتخابات برائے قیادت ایک ایسا تماشا ہے جس میں طفیلیہ طبقہ کردار رکھتا ہے۔ وہی خرچ کرتا ہے اور مقبولیت جیسی ایک مماثل شئے اس کے ہاں مرکز ہوجاتی ہے۔ جب مقامی تماشے میں وہ قائد اپنا جلوہ دکھاتا ہے تو وہ طبقہ ایک عظیم الشان پارٹی کے طور پر خود کی نمائش کرتا ہے۔

انتخابات لڑنے والا طیفیلہ طبقہ غریبوں اور درمیانے طبقے کے زیادہ قریب ہوتا ہے اور اسی لیے یہ دیہی علاقوں اور شہروں کے اندر گنجان آبادی والے علاقوں میں موجود محرومیوں کا استحصال کرکے وہاں ہونے والی مقامی (انتخابی مقابلوں میں) سماج کی بہت ساری پرتوں کا غصّہ ٹھنڈا کرتا ہے۔ اس طفیلی طبقے کے کندھوں پر کوئی نظریاتی بوجھ بھی نہیں ہوتا جسے اسے لیے پھرنا پڑے۔ ان کی انتخابی مہم ان وسائل سے چلتی ہے جو اس طفیلی طبقے کے لوگوں نے خود جمع کیے ہوتے ہیں اور اسی لیے انہیں پارٹی کارکنوں سے کسی قسم کی سیاسی کمٹمنٹ درکار نہیں ہوتیں۔ یہ طفیلیہ طبقے سے الیکشن لڑنے والے پارٹی کو فنڈ کرتے ہیں اور انتخابات میں جملہ خرچہ یہی طفیلیہ طبقے سے تعلق رکھنے والے امیدوار اٹھاتے ہیں- ان کی دلچسپی نشستیں جیتنے اور پھر اور زیادہ زمینوں پر قبضہ کرنے ، سرکاری ٹھیکے لینے اور بہت سے شعبوں میں جو فارمل معیشت کے مدمقابل متوازی معیشت ہوتی ہے جہاں سے ریاست نے مکمل آنکھیں بند کی ہوتی ہے وہاں سے بے تحاشا فائدہ اٹھانے میں ہوتی ہے۔

اب یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ مندرجہ بالا تفصیل پی ٹی آئی، پی پی پی ، نواز لیگ اور ایم کیو ایم کے درمیان فرق کو کیوں نظر انداز کرتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ پاپولسٹ ہوں یا روایتی سیاسی جماعتیں دونوں ہی ایک نظام کی خدمت کرتے ہیں جو نوکرشاہی کے کل پرزے چلارہے ہوتے ہیں ، وہ پولیس،عدلیہ، نوکر شاہی اور فوج جیسے ریاستی اداروں کو اپنی حکمرانی کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں- فرق اس حد کا جے جو یہ بتاتی ہے کہ وہ کہاں تک غریب اور درمیانے طبقات تک پہنچ سکتا ہے۔ پاپولسٹ اس نفرت پر انحصار کرتا ہے جو نچلے طبقات میں امیروں کے خلاف پائی جاتی ہے۔  روایتی سیاست پاپولسٹ سیاست کو اپنے سے زیادہ بدعنوان دکھانے پر انحصار کرتی ہے۔

اگر دونوں ایک جیسے ہیں تو پھر حکومتیں کیوں گرائی جاتی ہیں؟ گزرے  تیس سالوں میں یہ ظاہر ہوا ہے کہ پاکستان کے امراء اور سرمایہ دار طبقے کے درمیان تقسیم اور جھگڑا معیشت کی انتظام کاری کے بارے میں ہے۔ کزشتہ چند سالوں سے بیرونی قرضہ بہت جڑھ چکا ہے جبکہ برآمدات اس رفتار سے بڑھنے میں ناکام رہی ہیں۔ نیمو لبرل سرمایہ دارانہ معیشت کا ماڈل جس میں ایکسپورٹ کا قائدانہ کردار مانا جاتا ہے اور غریبوں پر زیادہ ٹیکسز لگائے جاتے ہیں بری طرح سے ناکام ہوچکا ہے۔ اس وقت صرف ایک حل نظر آرہا ہے یا تو زیادہ کرنسی نوٹ چھاپے جائیں جس سے افراط زر بڑھتا ہے یا ایکسپورٹرز کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے زیادہ قرضے لیے جائیں۔ گزشتہ تین سالوں سے پاکستانی 35 فیصد افراط زر کا بوجھ برداشت کررہے ہیں۔ معیار زندگی گھٹ رہا ہےس اور غربت بڑھ رہی ہے۔ ان دونوں چیزوں کو پاپولسٹ بہترین طریقے سے استعمال کررہے ہیں۔ جب کہ روایتی سیاست کے پاس نہ تو قرضوں کے بڑھنے سے روکنے کا کوئی علاج ہے اور نہ افراط زر کو بڑھنے سے روکنے کا  تو ایسے میں پاور/ طاقت کا پنڈولم کبھی ایک انتہا کی طرف جھکتا ہے یعنی پاؤپلسٹ جو فاشزم کی طرف لیجانا چاہتے تو کبھی اس کے اُلٹ تاکہ کچھ وقت کے لیے ریاست کے باقی ماندہ عناصر کو تباہی سے بچایا جاسکے۔ مہنگائی اور فوجی آپریشنوں کے خلاف ساری کی ساری تحریکوں کے علمبردار پاپولسٹ نہیں ہوتے۔ پاپولسٹ ان تحریکوں کو نظر انداز کرتے ہیں جو غربت اور چھوٹی اقوام کے حقوق کے لیے کھڑی ہوتی ہیں- گزشتہ دو سالوں میں بڑی بڑی تحریکیں چلی ہیں جنھوں نے ایک طرف تو پاپولسٹوں کے کرپشن/ بدعنوانی کے خلاف نعروں کو نظر انداز کردیا تو دوسری طرف روایتی سیاست کے علمبرداروں میں اس کی قیادت کرنے کی کوئی علامت ظاہر نہ ہوئی-

ان تحریکوں کی مثالوں میں سے ایک تحریک کشمیر میں بجلی کے بلوں کی ادائیگی نہ کرنے کی تحریک ہے جس نے حکومت کو بجلی کی قیمتوں میں وہاں رعایت کرنے پر مجبور کیا، اسی طرح گلگت بلتستان میں گندم کی قیمتوں میں اضاقے کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک دوسری بڑی مثال ہے جس پر حکومت وہاں عوام کو گندم سبسڈی دینے پر مجبور ہوئی- بلوچستان اور خیبرپختوان خوا میں فوجی آپریشنوں کے دوران ہونے والی جبری گمشدگیوں کے خلاف بہت بڑے پیمانوں پر احتجاجی مظاہروں اور لانگ مارچ کو جنم دیا جنھوں نے وہاں  پر انسانی حقوق کی بدترین صورت حال کو بے نقاب کردیا جبکہ پاپوپلسٹ اور روایتی سیاست کے علمبردار تو دونوں خود کو انسانی حقوق کی سیاست کے سورما بناکر پیش کررہے تھے۔

حقوق کے گرد منظم ہونے والی تحریکیں اور سرکاری ملکیت کے اداروں کی نجکاری کے خلاف ورکنگ کلاس/ محنت کش طبقات کی مزاحمت اشرافیہ کے قبضے (پر مبنی سیاست) کا متبادل بن سکتی ہے۔ موجودہ شکل میں پآرلیمانی جمہوریت گل سڑ کر ختم ہونے کے قریب ہے اور فوج نے موجودہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کرکے ‘اصلاح پسندی’ کو کچل دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ خبر والے

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply