• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پیپلز پارٹی کا پنجاب کی ابتر سیاسی صورتحال سے لاتعلقی؟-غیور شاہ ترمذی

پیپلز پارٹی کا پنجاب کی ابتر سیاسی صورتحال سے لاتعلقی؟-غیور شاہ ترمذی

انتخابات کے جو نتائج نکلے ہیں، اُن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان بالعموم اور پنجاب خصوصاً شدید ترین ابتر سیاسی صورتحال کا شکار ہے جو مکمل طور پر غیر یقینی کی کیفیت میں ہے۔ صوبہ سندھ سے شروع کیجیے  تو وہاں پیپلز پارٹی نے دو تہائی اکثریت حاصل کر لی ہوئی ہے اور وہ جب چاہیں بغیر کسی دوسری پارٹی کی حمایت کے اپنی حکومت بنا سکتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح خیبر پختونخوا  میں بھی تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواران اتنی بڑی تعداد میں جیت چکے ہیں کہ جیسے ہی انہیں کسی پارٹی کا پرچم مل جاتا ہے تو وہ بھی بغیر کسی دوسری جماعت کی مدد کے دو تہائی اکثریت سے اپنی حکومت بنا سکتے ہیں۔ بلوچستان کے 51 رکنی ایوان میں بھی صورتحال واضح ہے کہ وہاں پیپلز پارٹی نے بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے ساتھ ساتھ بلوچستان نیشنل پارٹی اور کچھ دیگر آزاد اراکین کا الائنس بنا کر اپنی مرضی کی حکومت بنوا لینی ہے۔ اگر اس فارمولہ نے بلوچستان حکومت بنانے والا کام نہ کیا تو پیپلز پارٹی کے پاس وہاں مسلم لیگ نون اور جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ مل کر الائنس بنا کر حکومت بنانے کا متبادل آپشن موجود ہے۔ بلوچستان میں ہر صورتحال میں پیپلز پارٹی ہی بادشاہ گر بن رہی ہے۔

مرکز میں وفاقی حکومت بنانے کے لئے مسلم لیگ نون (75 نشستیں) نے پیپلز پارٹی (54 نشستیں) اور ایم کیو ایم (18 نشستیں) کی حمایت حاصل کر کے    265 حلقوں میں فیصلہ کن 147 نشستوں کے ساتھ خود کو قومی اسمبلی کا سب سے بڑا گروپ ثابت کر دیا ہے۔ امید ہے کہ اگلے چند دنوں میں صدر مملکت باضابطہ طور پر مسلم لیگ نون کے نامزد امیدوار برائے وزیر اعظم میاں شہباز شریف کو حکومت بنانے کی دعوت دے دیں گے۔ یوں مرکز میں مسلم لیگ نون، سندھ میں پیپلز پارٹی، بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی مرضی سے اور خیبر پختونخوا  میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواران کسی رجسٹرڈ پارٹی (شاید مجلس وحدت المسلمین) کے پرچم تلے جمع ہو کر حکومت بنا لیں گے۔

بظاہر تو پنجاب میں بھی مسلم لیگ نون (137 نشستیں)، پیپلز پارٹی (10 نشستیں)، مسلم لیگ قاف (8 نشستیں) اور کچھ آزاد امیدواران کی شمولیت کے بعد 296 رکنی ایوان میں اپنی فیصلہ کن برتری ثابت کر چکی ہے لیکن انتخابی نتائج نے پنجاب کی پُرسکون فضاء میں شدید انتشار پیدا کر دیا ہے کیونکہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ 139 اراکین الیکشن جیتنے میں کامیاب تو ہوئے ہیں مگر اُن کا کہنا ہے کہ اُن کو کم از کم 45 نشستوں سے دھاندلی کے ذریعے  ہرایا گیا ہے۔ انتخابی عذرداریوں، پُرتشدد جھگڑوں اور مکدر بیان بازی کے زیادہ تر واقعات اور معاملات کا تعلق بھی پنجاب سے ہی ہے۔

انتخابات سے پہلے ہی سب کو توقع تھی کہ سندھ سے اگر پیپلز پارٹی جیتے گی تو خیبر پختونخوا  سے تحریک انصاف کے حمایت یافتگان ہی کامیاب ہوں گے۔ بلوچستان کے بارے میں بھی سب کو توقع تھی کہ وہاں سے پیپلز پارٹی اس دفعہ اچھا پرفارم کرے گی لیکن اُس نے بہترین پرفارم کر کے سب سے زیادہ نشستیں لے لیں۔ جمعیت علمائے اسلام نے بھی بلوچستان اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی طرح 11 نشستیں حاصل کر رکھی ہیں جبکہ نون لیگ کی 10 نشستیں ہیں۔ اسی طرح بی اے پی نے 4، نیشنل پارٹی نے 3 اور اے این پی نے 2 نشستیں جیتی ہوئی ہیں۔ البتہ وہاں انتخابی عذر داریوں اور جھگڑوں کے معاملات کم ہیں۔

پنجاب کی اس شدید ترین ابتر صورتحال میں سیاستدانوں سے بات کریں تو وہ اداروں پر الزام دھر دیتے ہیں۔ اداروں سے پوچھیں تو وہ کہتے ہیں اگر یہ سیاستدان خود اتنے قابل ہیں تو ہمارےکندھوں پر سوار ہو کر کیوں وزیراعظم ہاوس پہنچنا چاہتے ہیں؟ یہ خود اپنی محنت کریں اور عوام کا بھروسہ جیت کر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں۔ اس کا جواب دیتے ہوئے سیاستدان کہتے ہیں کہ اگر کوئی نواز شریف یا عمران خان کی طرح پاؤں پر کھڑا ہو جائے تو پھر اُس کے خلاف دھاندلی ہو جاتی ہے۔ کبھی عمران خاں کو کھڑا کرنا ہو تو سنہ 2018ء کی طرح آر ٹی ایس فیل کر کے دھاندلی کر لی جاتی ہے اور اگر عمران خاں کو گرانا اور نواز شریف کو دوبارہ اٹھانا ہو تو بھی سنہ 2024ء میں اُس کی پارٹی ختم کر کے اُس کا انتخابی نشان چھین کر اُس کے خلاف دھاندلی کروا دی جاتی ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ پنجاب میں خصوصاً ہم سب بُری طرح پھنس چکے ہیں۔ سندھ تو واضح ہے کہ پیپلز پارٹی کا ہے تو خیبر پختونخوا  تحریک انصاف کا ہے۔ بلوچستان میں اسی طرح کا ملا جلا رجحان رہتا رہا ہے اور آئندہ بھی ایسے ہی چلے گا۔

اصل مسئلہ پنجاب کا ہے جہاں اس وقت اکھاڑہ نون لیگ (یا اسٹیبلشمنٹ) اور تحریک انصاف کے درمیان  سجا  ہوا ہے جبکہ پیپلز پارٹی دور بیٹھی مزے لے رہی ہے اور خود کو سندھ و بلوچستان کے ساتھ ساتھ جنوبی پنجاب کی نشستوں تک محدود کیے  ہوئے ہے۔ محسوس یہی ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے سنہ 2008ء والے انتخابات کے بعد یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اب اس نے پنجاب میں کھل کر عوامی سیاست نہیں کرنی۔ کیونکہ اگر وہ محترمہ بےنظیر بھٹو شہید کے ظالمانہ قتل کے  بعد بھی صوبہ پنجاب میں ووٹ لے کر حکومت نہیں بنا سکے تھے تو پھر یہ ناممکن ہے کہ وہ عوامی ہمدردی اور پسندیدگی کے ساتھ دوبارہ حکومت بنائیں۔ یاد رہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی کا امیدوار راولپنڈی کے اُس حلقہ سے بھی شکست کھا گیا تھا جہاں محترمہ کا ظالمانہ قتل ہوا تھا۔

یہ درست ہے کہ پنجاب میں چند حلقے ایسے ضرور ہیں جہاں سے پیپلز پارٹی کے امیدواران اپنے زورِ بازو پر الیکشن جیت لیتے ہیں جیسا کہ گوجر خاں سے راجہ پرویز اشرف، ملتان سے یوسف رضا گیلانی فیملی، مظفر گڑھ سے نوابزادہ افتخار احمد، بہاولپور/ رحیم یار خاں سے نواب محمود احمد فیملی وغیرہ۔ قرائن بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی میں زرداری ڈاکٹرائن کی پلاننگ یہ تھی کہ آئین میں 18ویں ترمیم لائی جائے جس کے ذریعہ صوبوں کو اتنا خودمختار کر دیا جائے کہ انہیں مرکز کی ضرورت نہ رہے۔ اس طرح ہر صوبہ ایک طرح سے ملک کا درجہ رکھتا ہو۔ پھر سنہ 2010ء میں ترمیم لانے کے بعد صوبوں کا این ایف سی شیئر بڑھایا گیا اور سندھ کو اس میں تقریباً ایک ہزار ارب روپے سالانہ ملنا شروع ہو گئے جس سے سندھ نے اپنے آپ کو اتنا خود کفیل کر لیا ہے کہ وہاں صحت، تعلیم کے علاوہ سڑکوں کے انفراسٹرکچر بہت تیزی سے بننا شروع ہو چکے ہیں۔

اس شدید ترین ابتر سیاسی صورتحال میں پیپلز پارٹی کو کیا پڑی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ سابقہ اور موجود ہ جماعتوں کا پھیلایا ہوا رائتہ صاف کرے۔ اگر پیپلز پارٹی پنجاب کی سیاست کیے  بغیر مرکز میں اپنی مرضی کی چند اچھی وزارتیں (بشمول وزارتِ خارجہ)، راجہ پرویز اشرف/ یوسف رضا گیلانی کے لئے چیئرمین سینٹ/ سپیکر قومی اسمبلی، سندھ کی بلا شرکتِ غیرے والی حکومت، بلوچستان میں اپنی مرضی کی مخلوط حکومت حاصل کر سکتی ہے تو واقعی ہی اُسے پنجاب کی لڑائی، مار کٹائی اور اسٹیبلشمنٹ کی اپنے بنائے ہوئے لیڈروں کے درمیان ہونے والی لڑائی کا حصہ نہیں بننا چاہیے ۔ اس وقت پیپلز پارٹی کے لئے سب سے بہتر یہی ہے کہ وہ شہباز شریف کو دوبارہ وزیراعظم بن لینے دے۔ اسحٰق ڈار بھی وزیرخزانہ بن جائے کیونکہ سعودی، چینی اور ہماری اپنی اسٹیبلشمنٹ بھی شہباز شریف کو پسند کرتی ہے۔ اس وقت پاکستان تاریخ کی بدترین سیاسی اتھل پتھل اور انتشار کا شکار ہے، عمران خان جیل میں ہے، اس کی پارٹی کا ووٹ بنک اورجیتے ہوئے امیدوار چرائے جا رہے ہیں اور ہر طرف سے اسٹیبلشمنٹ اور فوج نعرے لگائے جا رہے ہیں تو وہ کیوں سب اپنا سر اوکھلی میں دیں۔ یاد رہے کہ اِس سال پاکستان کو 27 ارب ڈالرز بیرونی امداد کا بندوبست کرنا ہے تاکہ پہلے لئے ہوئے قرض کی ادائیگی بھی ہو سکے اور اسٹیبلشمنٹ کا خرچہ پانی بھی چل سکے۔ تو اسحٰق ڈار کرے یہ بندوبست اور پھر بجلی، گیس، پانی، پٹرول وغیرہ کی قیمتیں بڑھا کر کھائے عوام سے گالیاں۔ بہتر یہی ہے کہ اداروں اور شہباز شریف کو عمران خان، پی ٹی آئی ووٹرز اور عدالتوں اور سب سے بڑھ کر عالمی ملکوں سے ڈیل کرنے دیں جنہوں نے الیکشن کی شفا فیت پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

پیپلز پارٹی نے خود کو پنجاب کی سیاسی صورتحال سے الگ کر کے یوں بھی بہتر کیا ہے کہ اگر نون لیگ کی سربراہی میں قائم مرکزی حکومت کو ان مسائل کا حل نکالنا ہے تو اسے وہ شدید غیر مقبول فیصلے لینے ہوں گے جو عوام میں اُس کی شدید غیر مقبولیت کا باعث بنیں گے جس کا فائدہ اگلے انتخابات میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اٹھائیں گی۔ اور ان مسائل کا حل نہ نکال سکی تو پھر انجام بہت بھیانک ہو گا جس میں (خدانخواستہ) ملک کی جغرافیائی حدود کو بھی چیلنج  کیا جا سکتا ہے۔ انڈیا کی سازشوں کی وجہ سے ملوث ہونے والی بڑی عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کی اس مکروہ سازش کی کامیابی کے بعد کی صورتحال میں تو پیپلز پارٹی کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی اور سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے جن علاقوں کی اسے ضرورت ہے، وہاں وہ خود کو مستحکم بنیادوں پر قائم رکھے ہوئے ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply