ویلنٹائن ڈے اور فروری کا 29واں دن/ذیشان محمود

محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتاہے۔ محبت ایک ایسا الہام ہے جو غار دل پر کسی وحی کی مانند  ہوتا ہے۔ محبت رنگ و نسل اور تمام دنیاوی مال و متاع سے پرے ایک خوبصورت حقیقت ہے جس میں مِحبّ اپنے محبوب کو اس کی تمام تر خوبیوں و خامیوں او رحسن واحسان سمیت دنیا کی سب سے خاص ہستی سمجھتا ہے۔

یہ جذبہ دِلوں کو نرم اور روشن کردیتا ہے۔ محبت ہو تو باقی تمام چیزوں کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔ محبت کا خمیر انسان کے پیدا ہونے سے پہلےاس کے رگ و ریشہ میں ماں کے خون سے سینچا  جاتا  ہے۔ یہ خدائےواحد و یگانہ کی وہ رحمانیت ہے جو بعد میں رحیمیت کے جلو میں تا دمِ آخر انسان کو سینچتی رہتی ہے۔

محبت کے لئے عشق، الفت، دل لگی، پیار، چاند، تارے، پسند، گلاب، پھول اور نہ جانے کتنے ہی استعارے زبان زدِ عام ہوگئے مگر محبت والوں کو آج تک کسر محسوس ہوتی ہے کہ محبوب کی تعریف کا حق ادا نہیں ہوا۔ بقول شاعر:
ابھرا نہ تیرا نقش و خدوخال ابھی تک
تصویر تیری قرض ہے تصویر گروں پر
زمانے کی تیز رفتاری رشتوں میں دوری اور محبت کے لطیف جذبے کی کثافت کو بڑھاتی جا رہی ہے۔

محبت ایک ایسا لطیف جذبہ ہے اور ہر انسان کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت اور خود سے محبت کے لئے پیدا کیا ہے۔ آج ماں باپ کی اپنی اولاد سے محبت، بہن بھائیوں کی آپس میں محبت، دوست احباب کی محبت سب اسی اصل محبت کے مرکز سے ہی وجود میں آئی ہیں۔ دراصل انسان کسی رشتے یا تعلق کو محبت کے سوا نہیں جانتا اور نہ نیا رشتہ سوائے محبت اور اخلاص کے بناتا ہے۔ انسان حقیقیت میں طالب محبت کا ہی ہوتا ہے لیکن اس کے اوپر مختلف خول چڑھا لیتا ہے۔

قطع نظر محبت کے عالمی دن پر ہونے والی تنقید اور اعتراضات کے، فروری کے مہینہ میں دنیا میں پھولوں اور محبتوں کی بہار ہوتی ہے۔ بے شک معترضین اس کو بزنس یا کھیل یا لغویات قرار دیں۔۔ لیکن انسانیت کی بقا کے لئے ایسے ایونٹ کا اہتمام سال کے ایک دن کافی نہیں۔ سال کے ہر ماہ 14 فروری جیسا یومِ محبت ہونا چاہیے۔

ایک سروے کے مطابق بائیس ملین برطانوی اس دن اپنے پیاروں کو تحائف دیا کرتے ہیں اور اس کی اوسط قیمت اٹھائیس پاؤنڈ تک ہوتی ہے جبکہ سولہ فیصد افراد ایک آنہ خرچ کئے بغیر ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ لوگ محبت کو منانا چاہتے ہیں۔ چاہے ان کے پاس وسائل ہوں یا نہ ہوں۔ ان کا کام صرف محبت کا پرچار کرنا ہے جس کے لئے محبت ضروری ہے۔
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
(غلام محمد قاصر)

ہمارے معاشرہ میں محبت کرنا عبث تصور کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرہ میں نفرت، بد امنی  اور دہشت کا راج ہے۔ حالانکہ ہمارا دین و مذہب ہمیں اس بات کی تعلیم دیتے ہیں کہ یہ محبت ہماری میراث ہے۔
پہلے تو ترک تعلق کی وبا پھیلے گی
پھر محبت کا بھی انکار کیا جائے گا
یہ محبت کا سفر ہے اسے آساں نہ سمجھ
ایک صحرا ہے جسے پار کیا جائے گا
(ممتاز شیخ)

فروری میں جو محبت کا ماحول عام ہوتا ہے۔ اس کو جہاں ملکی سطح پر ترویج دینے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح کے مزید ایونٹ مرتب کر کے قومی سطح پر فروری کی محبت کو دنیا میں رائج کیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

فروری امسال 29 دنوں کا ہے۔ اور یہ زائد دن شاید ہمیں یہ احساس دلانے میں کامیاب ہو جائے کہ ہمیں بھی اپنی زندگیوں میں محبت کے ایک زائد دن کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

ذیشان محمود
طالب علم اور ایک عام قاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply