فریبِ عکس/ڈاکٹر مختیار ملغانی

گزشتہ دنوں پاکستان کے کسی ٹی وی شو میں معروف اینکر پرسن عمران اشرف نے چھوٹی بچی کو سٹیج پر بلایا اور اسے پیار کرنے کیلئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اچانک رک کر اس کی والدہ سے پوچھنے لگے کہ ،کیا میں اسے ٹچ کر سکتا ہوں؟
بچی کی والدہ نے اجازت دی تو انہوں نے بچی کو گلے لگایا ۔
یہ بلاشبہ ایک نہایت شاندار رویہ ہے جو انہوں نے دکھایا، اس کی تعریف کی جانی چاہیے، یہ بھی درست ہے کہ ان کا یہ عمل مغرب سے اٹھتی جنسی تعلیم کے فروغ کی تحریک کا نتیجہ ہے۔
ممکن ہے عمران اشرف نے یہ اپنے ناظرین کیلئے ایک سبق کے طور پر دکھایا ہو کہ ہمیں بھی ایسا کرنا چاہیے، ان کا ارادہ یقیناً نیک اور مثبت ہوگا، ہمیں یہاں ان کی نیت پر نہ شک کرنے کی اجازت ہے اور نہ ہی ان کے اس شخصی فعل پر کوئی تبصرہ کرنا ہے، ہمیں اس رجحان کے اجتماعی صغریٰ کبریٰ بارے اپنی رائے دینی ہے جو غلط بھی ہو سکتی ہے لیکن رائے کا حق ہمارے پاس محفوظ ہے۔

اپنی اس رائے کی طرف ہم بعد میں واپس آتے ہیں، پہلے ایک دوسری چیز ملاحظہ کیجیئے گا

کچھ ہی برس قبل امریکہ میں چند سیاہ فام نوجوانوں کے قتل دیکھنے میں آئے جو عموماً  پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں سرزد ہوئے، اس پر امریکہ میں ایک لہر برپا ہوئی کہ سیاہ فام لوگوں کی زندگیاں کیوں اتنی سستی ہیں، کیوں انہیں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے؟
یہ لہر دیکھتے ہی دیکھتے ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئی،
Black lives matter
یعنی کہ سیاہ فام شخص کی زندگی بھی معنی رکھتی ہے، اسے ہیچ نہ سمجھا جائے۔

اس تحریک نے بڑا حشر برپا کیا، جزوی کامیابیاں بھی سمیٹیں، ہر نسل اور ہر رنگ سے منسلک انسانی حقوق کے علمبرداروں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، لیکن اس تحریک کا ایک منفی پہلو بالعموم اکثریت کی نظر سے اوجھل رہا، اس پہلو کو صحیح معنوں میں معروف سیاہ فام گلوکار کینی ویسٹ (Kanye west) نے سمجھا،
کینی ویسٹ ایک دن کسی تقریب میں اپنی شرٹ پر یہ جملہ لکھوا کر لائے،
White lives matter

اگرچہ یہ سلوگن پرانا اور کچھ نسل پرست گوروں کی تنظیموں سے منسلک ہے، لیکن کینی ویسٹ کے اس اشارے میں ایک مخصوص طنزیہ معنی پوشیدہ تھا، ان دنوں کینی ویسٹ اور ان کی زوجہ کے درمیان تعلقات کشیدہ تھے، ان کی کاروباری زندگی بھی درہم برہم تھی، جس کی بابت وہ کھلے عام یہودیوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے رہے، ان تمام وجوہات کو بنیاد بنا کر بین الاقوامی میڈیا نے ان کی ذہنی صحت پر سولات اٹھائے جس وجہ سے عوام الناس انہیں سنجیدہ لینے سے منکر رہی۔
کینی ویسٹ نے مسئلے کو جڑ سے پکڑا، ان کا مؤقف سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی، ان کا کہنا یہ تھا کہ جب آپ ایسے سلوگن
Black lives matter
کا پرچار کرتے ہیں تو آپ لاکھ کہتے رہیں کہ ہم سیاہ فام زندگی کی اہمیت پہ زور دے رہے ہیں، لیکن درحقیقت اس کا نتیجہ الٹ آتا ہے، کیونکہ جب آپ یہ تبلیغ کریں کہ سیاہ فام بھی انسان ہے، اس کی زندگی بھی اہم ہے تو انسانی دماغ کو پہلا پیغام یہ جاتا ہے کہ، ویسے تو یہ کالی رنگت والے ہمارے برابر کے انسان نہیں، لیکن چونکہ ہم اکیس صدی میں، جمہوریت اور لبرلزم کی چھاؤں میں پلنے والے باشعور اور پڑھے لکھے لوگ ہیں تو ہمیں ان کالوں کو بھی انسان سمجھنا چاہئے ، یعنی کہ اگر کسی دماغ میں کالے گورے کا فرق یا برتری کمتری کا تصور نہیں بھی ہے تو سیاہ فام زندگی کا شور ڈال کر اسے یہ تفریق سکھائی جا رہی ہے۔ اسی ردعمل میں انہوں نے ، گوری زندگی کی اہمیت، والا سلوگن اپنایا۔

یہاں کینی ویسٹ ردعمل کی نفسیات بتا رہے ہیں، ردعمل کی نفسیات کا مطلب یہ ہے کہ آپ اگر کسی شخص کو مطلوبہ نتائج کے حصول کیلئے مخصوص تعلیم دینے پر بضد ہیں، تو اس شخص کی جانب سے ایک منفی جذباتی ردعمل سامنے آسکتا ہے جس کے نتیجے میں وہ اس راستے کا انتخاب کرے گا جس سے آپ اسے بچانا چاہ رہے ہیں۔

یہ رویہ انسان کے لاشعور سے جڑا ہے، فرد خود بھی نہیں جانتا کہ جس چیز کو وہ مثبت سمجھ کر اس کی تبلیغ کئے جا رہا ہے، درحقیقت وہ اس کے اندر سے اس متضاد رویے کا عکس ہے جسے وہ چھپانا چاہ رہا ہے،  یہاں مثال سے سمجھانا آسان رہے گا،

فرض کیجئے کہ ایک شخص کے ہاں پے در پے بیٹیوں کا جنم ہوتا رہے، بیٹے کی خواہش کے باوجود خدائے بزرگ اسے بیٹیاں ہی عطا کرتا رہے تو ایسا شخص بعض اوقات اٹھتے بیٹھتے ایسے جملے کہتا سنائی دیتا ہے،
” میری بیٹیاں کسی طور بیٹوں سے کم نہیں”
” بیٹے والدین کو بڑھاپے میں چھوڑ جاتے ہیں، بیٹیاں آخری دم تک والدین کی خدمت کرتی ہیں”
” مجھ گناہ گار کی رسول اللہ سے کم از کم یہ نسبت تو بن گئی کہ میں بیٹیوں کا باپ ہوں، بیٹا نہ بھی ہوتو میرے لئے یہ نسبت زیادہ اہم ہے”۔ وغیرہ وغیرہ ۔

اب بظاہر یہ شخص اچھی بات کہہ رہا ہے، لیکن درحقیقت یہ اس کے لاشعور میں دبی اس خواہش کی چغلی ہے کہ کاش ہمارے ہاں کسی بیٹے کا جنم ہوتا۔۔
اسی مثال کو تھوڑا اور آگے بڑھائیے تو معاملہ مزید پیچیدہ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

وہ اپنی بیٹی کو بیٹا کہہ کر مخاطب کرتا ہے، بیٹی کو باور کراتا ہے کہ وہ اس کیلئے بیٹے سے کم نہیں، بار بار دہراتا ہے کہ تم تو خدا کی نعمت ہو، مجھے بھلا بیٹے کی کیا ضرورت ہے؟

یہاں ردِعمل کی نفسیات دوطرفہ کام کر رہی ہے، ایک تو یہ کہ ایسا شخص لاشعوری طور پر اپنی محرومی بتلا رہا ہے، گلہ کر رہا ہے، دوسری طرف بیٹیوں کے ذہن میں بھی لاشعوری طور پر یہ پیغام سرایت کر رہا ہے کہ والدین اگرچہ مجھ سے بھی خوش ہیں لیکن بیٹا ہوتا تو کیا ہی بات تھی۔

جو شخص اس بیہودگی سے پاک ہے، وہ ایسی وضاحتوں سے پرہیز کرتے ہوئے بالکل نیوٹرل رہتا ہے۔

اسی طرح اگر گھر میں کوئی بچہ خدانخواستہ ذہنی یا جسمانی طور پر معذور ہے تو اس کی خدمت اگرچہ زیادہ توجہ اور وقت مانگتی ہے، لیکن باقیوں کے مقابلے میں اسے زیادہ لاڈ پیار دینا درحقیقت اس بچے کے ذہن میں یہ بات بٹھانا ہے کہ اس میں کوئی عارضہ ہے جس کی وجہ سے وہ باقیوں سے کمتر ہے۔

یہ اصل میں انسانی لاشعور کا وہ تاریک پہلو ہے جسے انسان خود بھی سمجھنے سے قاصر رہتا ہے، یہاں سے جو لہریں اٹھتی ہیں گویا کہ وہ شعور کے آئینے سے گزرتی ہوئی بالکل الٹ تصویر دکھاتی ہیں، بظاہر جو دایاں ہے، درحقیقت وہ بایاں ہے،  کینی ویسٹ سیاہ فاموں کی زندگی پر اٹھی اس تحریک بارے یہی کہنا چاہ رہے تھے۔
اب اس طرف آتے ہیں کہ بچے کو چھونے سے پہلے اس کے کسی بڑے یا خود بچے سے اجازت لینا کیسا ہے؟
اکثریت کی رائے میں یہ اچھی بات ہے اور شاید ہو بھی،، لیکن یہاں کچھ سوال ہیں جو تشنہ ہیں۔۔۔

1. کتنے والدین اور بچے ایسے ہیں جو آپ کے اجازت مانگنے پر آپ کو انکار کر دیں گے ؟

2. بچے کے جسم کا وہ کونسا حصہ ہے جسے چھونے کی آپ اجازت مانگ رہے ہیں؟ پدری جذبے کے تحت اگر آپ سر پہ ہاتھ پھیرنا، گال اور ماتھے پہ بوسہ دینا یا گلے لگانا چاہتے ہیں تو کیا اس شفقت کیلئے اجازت کی واقعی ضرورت ہے؟

3. بچے کے سامنے اجازت مانگنے سے اس بچے کے ذہن میں کیا پیغام ڈالا جا رہا ہے؟ یہ کہ بچہ آپ کو ایک بالقوہ جنسی درندہ تصور کرے ؟ اور پھر وقت سے پہلے اور غیر ضروری جنسی معلومات سے بچے کی نفسیات پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟

4. اب اگر اس اجازت کو واقعی ایک سماجی اخلاق تصور کر لیا جائے تو وہ کون لوگ ہیں جو سختی سے اس کی پابندی کریں گے؟ یہ کہیں وہ لوگ تو نہیں جن کے لاشعور میں بچگانہ جنسیات کے حوالے سے کچھ مخصوص جھکاؤ پائے جاتے ہیں ؟

انسانی فطرت کے تاریک پہلوؤں کی پیچیدگی یہ ہے کہ فرد خود بھی ان سے آگاہ نہیں ہو پاتا، کیونکہ وہ صرف عکس کو دیکھتے ہوئے نتیجہ اخذ کر لیتا ہے اور عکس فریب ہے۔

بچے کو چھونے کی اجازت ایک بحث طلب موضوع ہے، اس پر بحث کو فروغ دیا جانا چاہیے، ایسی اجازت کو سراسر بے معنی سمجھنا بھی درست نہیں، لیکن اجازت پر اسرار ہے تو اس کے اصول و ضوابط کیسے اور کون طے کرے گا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

دونوں صورتوں کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو تولا جانا چاہیے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply