ان دنوں کانگریس پارٹی کے لیڈر ان راجستھان کے خوبصورت شہر اُدے پور میں” نو چنتن سنکلپ شیویر” میں حصہ لے رہے ہیں۔ 15 مئی کو شائع ایک خبر کے مطابق، ہندوستان کی سب سے قدیم پارٹی اپنی تنظیم میں دلتوں، آدی واسیوں، پسماندہ ذاتوں اور اقلیتوں کو 50 فیصد نمائندگی دینے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔” چنتن شیویر” میں تشکیل دی گئی سماجی انصاف کوآرڈینیشن کمیٹی کے رکن کے راجو نے بیان دیا ہے کہ کانگریس کا آئین ایس سی، ایس ٹی، او بی سی اور اقلیتوں کو 20 فیصد ریزرویشن دیتا ہے۔ مذکورہ کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ایس سی، ایس ٹی، او بی سی اور اقلیتی طبقات کو بلاک کمیٹی سے لے کر کانگریس ورکنگ کمیٹی تک تمام کمیٹیوں کا 50 فیصد حصہ دیا جائے۔ کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ ان طبقات کی نمائندگی بڑھا کر 50 فیصد سے زیادہ کی جانی چاہیے، حالانکہ فی الحال اسے 50 فیصد تک بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب بہوجن – ایس سی، ایس ٹی، او بی سی اور اقلیت – سماج کی آبادی کا تقریباً 85 فیصد ہیں، تو وہ سماجی اور سرکاری اداروں میں کیوں نظر نہیں آتے ہیں؟ کیا کانگریس یہ نہیں سمجھتی کہ سماج کی ایک بڑی آبادی کو پالیسی سازی سے دور رکھنے سے ملک کا بہت بڑا نقصان ہو رہا ہے؟ اگرمحکوم طبقات پارٹی کے اندر جگہ نہیں بنا پائیں گے، پھر وہ کس منہ سے عوام سے اپنی پارٹی کے لیے ووٹ مانگیں گے؟ کانگریس کو اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور پسماندہ لوگوں کو پارٹی میں لانا چاہیے۔جس کی جتنی آبادی ہو اس تناسب سے اس کی نمائندگی ہونی چاہیے۔ اگر کانگریس نے بہوجنوں کو مناسب حصہ دیا اور خواتین ریزرویشن ، جس میں محکوم طبقات سے آنے والی خواتین کے لیے الگ سے کوٹا مختص ہو تاکہ ان کا حق کوئی اور نہ مار لے، کے ایشوز کو انتخابی ایجنڈا بنایا تو اس کا سماجی حلقہ بڑھ جائے گا۔مگر یہ کام جتنا کہنا آسان ہے اتنا ہی کرنا مشکل ہے۔ اگر کانگریس سماجی انصاف کے ان سوالوں کو لے کر آگے بڑھتی ہے تو اس کے راستے میں کئی کانٹے بھی بچھ جائیں گے۔ اعلیٰ ٰ ذات مین سٹریم میڈیا سب سے پہلے کانگریس کی مخالفت میں سامنے آئے گا ۔ وہ کانگریس پر ملک کو ذات برادری کےدلدل میں دھکیلنے اور اعلیٰ ذاتوں کے ساتھ ناانصافی کرنے کا الزام بھی لگائے گا۔ میڈیا کی اس مہم میں تمام اعلیٰ ٰ ذات اور سرمایہ دارانہ قوتیں پس پردہ ر کے پیچھے سے حمایت کریں گی۔ اس لیے کانگریس کو ابھی سے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کانگریس ذات پر مبنی مردم شماری کی حمایت میںمہم چھیڑ دیتی ہے تو وہ میڈیا کے الزامات کا جواب دینے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہوگی۔ جب ریزرویشن پر سوال اٹھایا جاتا ہے تو وہ پورے اعتماد سے کہہ سکتی ہیں کہ “اگر آپ کوریزرویشن پر کوئی اعتراض ہے تو ذات پر مبنی مردم شماری کرا لیجیے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا”۔ جس دن کانگریس کے لیڈر اس طرح سے بے خوف ہو کر بولنا شروع کر دیں گے، اعلیٰ ٰ ذات طاقتوں کی بولتی بند ہو جائے گی۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس واقعی اپنی سابقہ غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہتی ہے؟ یا وہ اسی تذبذب کی حالت میں رہ کر اپنی بچی ہوئی تھوڑی سے زمین بھی کھو دینا چاہتی ہے؟
کانگریس کی شکست اور اس کے تنگ ہوتے سماجی دائرے کے لیے پارٹی کے اندر موجود غیر مساوی سوچ کی حامل طاقتیں بڑی حد تک ذمہ دار ہیں، جو پارٹی کو ترقی پسند سمت میں بڑھنے سے روکتی ہیں ۔ اس کے علاوہ سیاست میں پیسہ کا بھی کھیل بڑھ گیا ہےاور اس کاروبات میں بی جےپی سب سے آگےبڑھ گئی ہے۔ بی جے پی کی مالی امداد سے چلنے والے میڈیا نے کانگریس کو “ملک ، ہندو اور ترقی مخالف اور مسلم نواز” پارٹی بنا دیا ہے۔ جواہر لعل نہرو اور ان کے خاندان کو ’’مسلمان‘‘ کہہ کر ہندوؤں کو ڈرایا جا رہا ہے۔ جھوٹ کو دن رات بولا جاتا ہے تاکہ وہ سچ دکھائی دے۔بی جے پی ایک طویل عرصے سے کانگریس کے خلاف مہم چلا رہی ہے۔ لیکن انہیں بڑی کامیابی تب ہی ملی جب وہ اقتدار میں آئی۔ 1977 کی جنتا حکومت کے دوران سنگھ کے نظریات کے حامل صحافی میڈیا ہاؤس میں داخل ہوئے۔ لیکن جب اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی اقتدار میں آئے تو میڈیا سنگھ کے نظریے کا ترجمان بن گیا۔
کانگریس کی اُلجھن یہ ہے کہ اس کے پاس سیکولرازم، سماجی انصاف اور سوشلزم کی وراثت ہے، وہیں دوسری طرف پارٹی کے اندر خود غرض لوگوں کی ایک بڑی تعداد ا ہےجو نرم ہندوتوا کی طرف بڑھنے کی وکالت کرتے ہیں ۔ انہیں لوگوں کے مشورہ میں آ کر اتر پردیش کی ایک بڑی خاتوں لیڈر دن رات مندر جاتی تھیں اور انتخابات کے دوران نرم ہندوتوا کارڈ کھیلتی تھیں۔ اب کانگری صدر سونیا گاندھی کو طے کرنا ہے کہ کانگریس کہاں جائے گی۔ دو کشتیوں پر سوار ہونا اسے ڈوبنے کے علاوہ کچھ نہیں دیتا۔ملک کا بہوجن سماج یہ امید کرتا ہے کہ جس طرح کانگریس نے پارٹی کے اندر پسماندہ لوگوں کو حصہ دینے کی بات ادے پور میں کی ہے وہ اس میں آ رہی مثبت تبدیلی کی علامت ہے۔ملک کا بہوجن کا یہ ماننا ہے کہ دو طاقتیں کانگریس کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے میں لگی ہوئی ہیں۔ پہلا، وہ گروپ جو سیکولرازم کے بجائے ہندو راشٹر پر یقین رکھتا ہے۔ جس کی زبان پر پر گاندھی سرکاری تقریبات کے دوران آتے ہیں، لیکن گوڈسے ان کے دلوں کی گہرائیوں میں راج کرتے ہیں۔ ایسی طاقتیں ایک مذہب، ایک ثقافت کو ہندوستان کی حقیقی تاریخ مانتی ہیں۔ یہ لوگ اقلیتوں کو ملک کے لیے ‘خطرہ’ اور ‘غیر ملکی حملہ آور’ قرار دیتے ہیں۔ ایسے شدت پسند عناصر معاشرے میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ وہ بنیاد پرست، مذہبی اور فرقہ وارانہ قوم پرستی کے ذریعے بڑے سرمایہ داروں کے لیے کام کرتے ہیں۔ یہ گروپ سے لڑنا آسان ہےکیونکہ یہ سامنے سے حملہ کرتے ہیں۔ مگر دوسرا گروپ جو کانگریس کے اندر بیٹھا ہے وہ پارٹی کےنظریہ سے زیادہ ناگپور کے فرمان میں زیادہ یقین رکھتا ہے۔ ایسے فرقہ پرست لیڈروں نے کانگریس کو سب سےزیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ان کی اصلی حقیات آپ کانگریس سے جڑے ہوئے ایک رکن سے ہی سُنیے۔
حال کے دنوں میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے میرے ایک ساتھی نے مجھے اپنا حال سنایا تو میں خاموش رہ گیا۔ ساتھی کئی سالوں سے کانگریس کے طلبہ تنظیم سے وابستہ تھے۔ ایک دن وہ کانگریس پارٹی کے اندرکسی بڑے عہدے کے لیے انٹرویو دینے گئے۔ ان جیسے اور بھی کےکئی مسلم کارکنان انٹرویو دینے کے لیےپہنچے ہوئے تھے۔ تبھی انہوں نے پارٹی کے ایک سینئر رہنما ، جو ان کا انٹرویولے رہا تھا،کو آپس میں بات کر کرتے ہوئے سنا، “کیا سب پوسٹ مولے لے جائیں گے”؟ انٹرویو میں کچھ مسلم چہروں کو دیکھ کر سینئر لیڈر کو یہ ڈر ستا رہا تھا کہ کہیں کانگریس کے اندر مسلمان بھرنہ جائیں گےحالانکہ یہ خوف بے وجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی کانگریس کے اندر مسلمانوں، دلت۔ آدی واسی ، پسماندہ کو ان کی آبادی کے لحاظ سے نمائندگی نہیں دی گئی ہے جب کہ اعلیٰ ٰ ذات اپنی آبادی سے کہیں زیادہ بڑےبڑے عہدوں پرقابض ہیں۔ جب جامعہ کے میرے دوست نے یہ بات مجھ کو سنائی تو میرا شک اور بھی پختہ ہو گیا کہ آج بھی کانگریس پارٹی کے اندر ایسے فرقہ پرست لیڈر بھرے پڑے ہیں جو کانگریس کو بی جے پی جیسا بنانے کے لیے دن رات سازش کرتے رہتے ہیں۔ مگر اب کانگریس صدر کو یہ فیصلہ
کرنا ہے کہ کیا کانگریس واقعی سیکولرازم اور سماجی انصاف کی راہ پر چلنا چاہتی ہے یا پھر یہ باتیں اس کے لیے محض ایک انتخابی جملہ ہے؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں