“سحلب” سردیوں کا مرغوب عرب مشروب/منصور ندیم

جب اپنے پسند کے لذیذ کھانے کی پلیٹ یا مشروب جو میں سعودی عرب میں دیکھتا ہوں تو میں اسے شوق سے تو کھاتا ہی ہوں مگر میں اکثر اس کے نام یا اس کی ریسپی کی تاریخ ڈھونڈتا ہوں ، اکثر اس ڈش کے پیچھے ایک لمبی کہانی ملتی ہے، جو کبھی کبھی ہزاروں سالوں پر محیط ہوتی ہے, عموما تو مجھے عربوں کے ہر کھانے کی ایک خوبصورت تاریخ مل جاتی ہے، جو صرف غذائی ضرورت تک نہیں رہتی بلکہ وہ پکوان تاریخ میں وقت کے ساتھ سیاسی، سماجی اور مذہبی طور پر بھی متاثر ہوتا ہے۔ پچھلے ہفتے یہ ایک مشروب دیکھا جس کا نام عرب میں “سحلب” ہے، عربوں میں یہ سردیوں کا معروف گرم مشروب رہا ہے۔ سردیوں کی راتوں میں یہاں سحلب کا گرم پیالہ ایک بار ضرور پینا چاہئے اس میں ذائقے کے لئے گری دار میوے، دارچینی اور اخروٹ ملا کر پیش کیا جاتا ہے۔
بہرحال مزے کی بات الگ یہ ہے کہ سحلب بیک وقت بطور میٹھا پکوان بھی بنایا جاتا ہے، اور بطور مشروب بھی یعنی سحلب کو مشروبات یا کھانے کے طور پر درجہ بندی نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ یہ دونوں صورتوں کے درمیان ایک درمیانی حالت ہے اور یہ جزیرہ نما عرب کے ممالک کے علاوہ ترکی اور مصر میں سردی کے دنوں میں بکثرت استعمال ہوتا ہے، اچھا مزے کی بات ہے کہ ہم سب اسے سحلب کو جانتے ہیں، یہ اصلا ونیلا فلیور ہے، جو پودوں سے حاصل ہوتا ہے، اس کے پودے کا نام Vanilla Orchid ہے، یہ آرکڈ کے پھول سے نکالا جاتا ہے، اسے “آرکڈ پلانٹ” بھی کہا جاتا ہے، یہ دنیا کے خوبصورت اور تاریخی طور پر قدیم ترین پھولوں میں سے ایک ہے۔ تاریخ میں اس پھول کے آثار 700 قبل مسیح سے ملتے ہیں، چینیوں کے معروف فلسفی کنفیوشس نے اسے ’’بادشاہوں کے عطر کا پھول‘‘ بھی کہا ہے۔
سحلب نامی پودے یا آرکڈ کا استعمال انسانوں کی مختلف تہذیبوں میں صدیوں سے موجود ہے، چینیوں نے اسے سب سے پہلے اسے “آئس کریم” بنانے کے لیے ونیلا نکالنے میں استعمال کیا۔ 17ویں صدی میں برطانوی ملاح اسے بہاماس سے لائے تھے، اور یہ کھانے میں آرکڈ پاؤڈر کو پانی میں ملا کر شامل کیا جاتا تھا۔ اس میں نارنجی یا گلاب کے پانی کا مشروب ہوتا ہے اور اسے روٹی اور مکھن کے ساتھ توانائی بخش کھانے کے طور پر قدیم برطانیہ میں پیش کیا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ پر ایک ترک اخبار “حریت ڈیلی نیوز” کے لنک پر بھی ترکوں کا دعویٰ ہے کہ آرکڈ کی ابتدا ترکی سے ہوئی ہے، ترک قبائل، جیسے کرمان، کیپچکس، رومن سلجوک اور منگول گولڈن ہارڈ، اپنے ساتھ آرکڈ کے پھول کو وسطی ایشیا سے اناطولیہ اور پھر بلقان لے کر آئے۔ ترکی میں اسے آئس کریم کی کہا جاتا ہے۔
سلطنت عثمانیہ کی توسیع کے ساتھ، “آرکڈ” ان تمام خطوں میں پھیل گیا جن پر ان کا کنٹرول تھا، لیکن اسے کھانے پر ترک علماء میں اس کے حلال و حرام ہونے پر فقہی مباحث بھی رہے، سلطنت عثمانیہ کی انتظامیہ بازاروں میں آرکڈ کی فروخت کے لیے قانون سازی کرنا چاہتے تھے، لیکن اس وقت اس میں خمیر شدہ مواد موجود تھا، جس سے الکحل کا ایک فیصد حصہ بنتا تھا جس سے کھانے والے کو ایک ایسا ذائقہ ملتا تھا، چنانچہ سلطنت عثمانیہ نے اس کا “فقہی نتیجہ” یہ نکالا کہ فروخت صرف غیر مسلموں تک محدود رہے گی، لیکن اس کے باوجود عملا مسلمان اسے استعمال کرنے میں آزاد تھے۔ سترھویں صدی میں استنبول میں آرکڈ سے بننے والی آئس کریم کی دکانوں کی تعداد 300 تک پہنچ گئی اور یہ جنیسری کے سپاہیوں (سلطنت عثمانیہ کی افواج کا سب سے مضبوط دستہ) کے لیے یہ ایک اہم مشروب بن گیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس سے سپاہیوں کو ضروری طاقت اور توانائی ملتی ہے۔ سلطنت عثمانیہ میں سحلب کا دور بہت دلچسپ رہا، وہاں کے سلاطین کے مذہبی رجحانات اور ان کے مختلف مزاج کے مطابق کبھی اسے حلال، کبھی حرام اور کبھی جزوی فروخت کی اجازت دے دی جاتی تھی۔
انیسویں صدی میں البانوی لوگ سحلب بنانے کے کاروبار میں داخل ہوئے لیکن شراب کے بغیر اس کی پہلی البانوی دکان سنہء 1876 میں کھولی گئی جو آج تک ترکیہ میں مسجد سلیمانیہ کے ساتھ واقع ہے۔ البانوی لکڑی کے بجائے سنگ مرمر کے برتنوں میں سحلب بناتے تھے۔ عرب ممالک میں اس کی آئسکریم بھی معروف ہے، سب سے پہلے عرب میں سنہء 1895 میں اک دمشقی نوجوان اور لیموں کا شربت بیچنے والے ایک اور شخص محمد حمدی بکداش نے ایک خطرہ مول لینے کا فیصلہ کیا اور آرکڈ پلانٹ کو دودھ کے ساتھ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے عربی “آئس کریم” بنانے کے لیے استعمال کیا۔ لوگوں کو یہ آئیڈیا اور اس کا ذائقہ بہت پسند آیا، چنانچہ اس نے دمشق کے حمیدیہ مارکیٹ میں اپنی پہلی دکان، بکداش کے نام سے کھولی اور یوں یہ “عربی آئس کریم” جسے مقامی طور پر بکداش آئس کریم بھی کہا جاتا ہے پوری دنیا میں پھیل گئی۔ محمد رمضان بکداش اس کے اجزاء کو ہاتھ سے پیوند کرتا تھا تاکہ وہ گاہکوں کے سامنے اچھی طرح گھل مل جائیں، اور پھر انہیں تازہ پستے سے سجایا جائے۔ آج کی دنیا میں وینیلا ائس کریم کا سہرا عربوں کو جاتا ہے۔ پھر سنہء 1923 میں جب ترکی سے یونانیوں کی نقل مکانی کا عمل سرکاری طور پر مکمل ہوا تو یونان سے مسلمانوں کی نقل مکانی کی طرح یہ صنعت ترکوں کو منتقل کر دی گئی جس میں نارنجی یا گلاب کے پانی کی بجائے دودھ ملایا گیا۔ ترکی اسے “ایما” کہتے ہیں یا جسے آج ہم سب وینیلا فلیور “آئس کریم” کے نام سے جانتے ہیں۔
سحلب “آرکڈ” عرب دنیا میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے، خاص طور پر مصر، ترکی، اور سعودی عرب کے کچھ خطوں، خاص طور پر مکہ اور جدہ میں، اس کی غذائیت بہت زیادہ ہے، عام طور پر اس کو چینی کے ساتھ میٹھا کرنے کے بعد استعمال کیا جاتا ہے، پرانے وقتوں میں اس کا استعمال بطور کڑی بوٹی حکماء کرتے رہے ہیں اس لئے اسے بچوں میں اسہال، کمزور معدہ اور پیچش میں مبتلا افراد کے لیے آرام دہ اور کسیلی کھانے کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے، اسے زہر دئیے جانے والے افراد کی ٹریٹمنٹ کے لیے بھی تجویز کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ ایک ٹانک ہے جو خون کی گردش کو تیز کرتا ہے۔ آرکڈ کو آنتوں کے درد اور آنتوں کے انفیکشن کے لیے بطور انیما استعمال کیا جاتا ہے۔ آرکڈ کے فوائد میں تناؤ اور اعصابی تناؤ کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ ہاضمہ کو بہتر بنانے کی صلاحیت بھی ہے، کیونکہ آرکڈ میں بلغم جیسا مادہ ہوتا ہے جو نظام انہضام کو پرسکون کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ یہ جسم کو گرم کرنے میں بھی مدد دیتا ہے اور نزلہ اور کھانسی کی علامات کا علاج کریں، کیونکہ جڑی بوٹی میں جراثیم کش مادے ہوتے ہیں۔ ان بیکٹیریا اور وائرس کے لیے جو سردیوں میں نزلہ اور انفلوئنزا کا باعث بنتے ہیں، ایران، افغانستان، یونان، مراکش، قبرص اور اناطولیہ میں جنگلی اگتا ہے اور ایرانی آرکڈ بین الاقوامی منڈیوں میں سب سے زیادہ پرتعیش آرکڈ ہے۔ اس کے پتے اکثر باہر سے سیاہ اور اندر سے سفید ہوتے ہیں۔ تنے پر جامنی رنگ کے پھول ہوتے ہیں۔ آج ہماری زندگی میں بہت ساری پروڈکٹس میں بچوں کے کنفیکشنریز سے لے کر کیک، آئسکریم، جوسز اور کسٹرڈ وغیرہ میں یہ فلیور بہت معروف ہے، مگر عرب میں یہ ایک بہترین مشروب کے طور پر پیا بھی جاتا ہے اور سردیوں میں اکثر گرم دودھ کے ساتھ ملتا ہے۔
نوٹ : سعودی عرب میں کسی بھی روایتی قہوہ خانے یا کڑک چائے کے آؤٹ لیٹ پر آپ کو وینیلا گرم دودھ کے ساتھ مل سکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply